’اُن کی کیا بات ہے، ان کی زمینوں پر تو زیرہ اُگتا ہے۔ جب بھی سرحد پار انڈیا میں بسنے والے رشتے داروں کا ذکر ہوتا تو ابا اُن لوگوں کی امارت کا اظہار اِسی ایک جملے سے کرتے۔‘
شہاب الدین سمیجو کہتے ہیں کہ ان کا بچپن سرحد پار اپنے رشتے داروں کے اسی طرح کے قصے سُنتے گزرا۔
ان کا گاؤں تحصیل ڈاہلی کے علاقے سخی سیار میں ہے جو آبادی کے لحاظ سے تھرپارکر کی دوسری بڑی تحصیل ہے اور انڈیا کی سرحد سے متصل ہے۔ سرحد پار انڈیا کا ضلع بارمیر ہے جو رقبے کے اعتبار سے انڈیا کا پانچواں بڑا ضلع ہے۔
سمیجو برادری پاکستان اور انڈیا کے درمیان موجود سرحد کے دونوں جانب آباد ہے۔ تقسیم ہند میں زمین ہی کا نہیں لوگوں کا بھی بٹوارہ ہوا، خاندان بٹ گئے۔
14 اگست 1947 کی صبح شہاب کا گاﺅں سخی سیّار پاکستان کے حصے آیا اور کھانیانی انڈیا کے۔ المیہ یہ ہوا کہ شہاب کی پھوپی زرینہ جو تین بھائیوں کی اکلوتی بہن اور کھانیانی گاﺅں میں بیاہی ہوئی تھیں، اچانک پردیسی ہو گئیں۔
اب ان سے ملنے کے لیے پاسپورٹ اور ویزہ رکاوٹ بن گئی مگر بٹوارے کے باوجود دل اب بھی ایک ساتھ دھڑکتے رہے۔
شہاب کے بزرگوں کے بقول ماضی میں تو دونوں جانب کے لوگ کسی نہ کسی طور چھپ چھپا کر سرحد پار کر لیا کرتے مگر 1992 میں سرحدوں پر لگنے والی باڑ کے باعث یہ بھی ممکن نہ رہا۔
شہاب بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنی پھوپھی کو کبھی نہیں دیکھا تھا، سوائے تصاویر کے۔ ہاں البتہ آواز ضرور سُنی تھی۔
’جو لوگ راجستھان جاتے، پھوپھی اپنے تاثرات کیسٹ میں ریکارڈ کروا کر ان کے ہاتھ بھیجتیں اور اس طرح اپنے بھائیوں سے دُکھ سکھ کہتیں۔ ہم بھی یہاں سے جواباً کیسٹ بھر کر بھیج دیتے۔ بس اتنا ہی رابطہ تھا۔‘
شہاب بتاتے ہیں کہ اکثر خاندان کے سب بڑے پھوپھی کی زمینوں اور فصلوں پر رشک کرتے۔ خصوصاً ان کی زیرے کی فصل کا ذکر ضرور ہوتا جو وہاں وافر مقدار میں اُگتا تھا۔ یقیناً یہ ایک نقد آور فصل ہے جس نے لوگوں کو لکھ پتی بھی بنایا۔
شہاب نے بتایا کہ بچپن میں ایک روز انھوں نے بابا کو مشورہ دیا کہ ’ہم بھی تو زیرہ اُگا سکتے ہیں۔‘ یہ بات سن کر شہاب کے والد ہنس پڑے اور کہا ’ہمارے پاس پانی کہاں۔۔۔ برسات ہوتی ہے تو تھوڑی بہت فصل ہو جاتی ہے۔‘
’پھوپھی کے پاس پانی کہاں سے آتا ہے؟‘ شہاب اگلا سوال کرتے۔ ’کیا وہاں بارشیں بہت ہوتی ہیں؟‘
انھیں جواب دیا گیا ’بارشوں کا تو پتا نہیں مگر وہ زمین کا پانی استعمال کرتے ہیں۔ ہماری طرف کا پانی کھارا ہے۔ اس سے فصلیں نہیں ہوتیں۔‘
لیکن اس جواب نے شہاب کو مطمئن نہیں کیا۔
پانچویں جماعت کے بعد جب انھوں نے والد سے مزید تعلیم کے لیے شہر جانے کی خواہش کا اظہار کیا تو والد نے کہا کہ ’وہاں رہنے اور پڑھنے پر ہزاروں روپے خرچ ہوں گے۔ وہ ہم کہاں سے لائیں گے؟ تم کراچی یا حیدرآباد کے کسی دینی مدرسے میں چلے جاﺅ۔ وہاں تعلیم کے ساتھ مفت رہائش اور کھانا پینا ملے گا۔‘
ان کے ایک عزیز انھیں لے کر ٹنڈوجام آئے اور ایک مدرسے میں داخل کروا دیا۔
کھیت، نہر اور سوچ کی نئی جہت!
شہاب بتاتے ہیں کہ مدرسے میں داخلہ ان کی زندگی بدل دینے کا سبب بنا۔ یہاں ان کی سوچ کو نئی جہت ملی۔
اس مدرسے کے ساتھ 150 ایکڑ زرعی زمین بھی تھی اور ساتھ ہی نہر گزرتی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھ جیسے صحرا کے باسی نے زندگی میں پہلی بار نہر دیکھی اور دیکھتا رہ گیا، اتنا زیادہ پانی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اب سوچنے کے لیے ان کے ذہن کو ایک نیا زاویہ مل گیا۔ وہ بچپن سے اپنے علاقے میں مون سون سیزن میں گوار، باجرہ اور مونگ کی محدود فصلیں دیکھتے آئے تھے اور یہی سمجھتے تھے کہ کھیتی باڑی صرف برسات میں ہی ممکن ہے، جب کئی کئی سال بارش نہیں ہوتی تو فاقوں کی نوبت آجاتی۔ ہر طرف ریت اڑتی رہتی۔
مدرسے کی وسیع زمین نہر کے پانی سے کاشت ہوتے دیکھی تو وہ حیران رہ گئے۔ استادوں سے گفتگو کر کے انھیں یہ بھی علم ہوا کہ بارش کے علاوہ بھی پانی حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں جن سے کاشتکاری ہو سکتی ہے جس میں زیر زمین پانی بھی شامل ہے۔
اب وہ اکثر اپنے علاقے اور سرحد پار کی فصلوں کا موازنہ کرتے تو اُن کے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھتا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سرحد پار پانی میٹھا ہے اور اس طرف کھارا۔۔۔
شہاب نے مزید بتایا کہ اس مدرسے سے انھوں نے درس نظامی مکمل کیا اور پھر سندھ یونیورسٹی سے ایم اے اور بعد ازاں سرکاری امتحان کے بعد وہ اپنے ہی گاﺅں کے سکول میں ٹیچر بن کر لوٹے۔
گاﺅں میں تدریس کے ساتھ ساتھ شہاب زمینوں کو آباد کرنے کا بھی سوچتے رہتے مگر کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا۔
تاہم ٹیکنالوجی نے اب سرحد پار رشتے داروں سے رابطے آسان کر دیے تھے۔ مکمل معلومات کے بعد ان کو یہ بخوبی سمجھ میں آ گیا تھا کہ وہ بھی کاشت کے لیے زیر زمین پانی استعمال کر سکتے ہیں لیکن یہ ہو گا کیسے، مالی مشکلات ایک سوالیہ نشان بن کر ان کے سامنے آ جاتیں۔
سرحد پار بات اب زیرے یا روایتی فصلوں سے آگے جا چکی تھی۔ وہاں اب پھلوں کے باغات لگ رہے تھے۔ ان پھلدار درختوں کے ساتھ ساتھ کسان بھی پھل پھول رہے تھے۔ راجستھان میں زیرے سمیت ہری بھری فصلوں کے ساتھ کھجوروں کے پھلوں سے لدے درختوں کی ویڈیو اور تصاویر شہاب کے ارادوں کو اور مضبوط بنا رہے تھے
اس حوالے سے بارمیر کے ڈاکٹر سریندر چوہدری بتاتے ہیں کہ صحرا میں اس انقلاب کا سہرا راجستھان کے سیکریٹری زراعت سنجے دکشت، جو ضلع بارمیر کے کلیکٹر بھی رہے تھے، کے سر بندھتا ہے۔ وہ راجستھان کے لوگوں کی معاشی مشکلات کا پائیدار حل نکالنا چاہتے تھے۔
وہ 2009 میں ایک وفد کے ساتھ سعودی عرب گئے جہاں انھوں نے صحرائی علاقوں میں کھجور کے باغات دیکھے۔ کھجور کے معاشی اور غذائی فوائد نے انھیں بہت متاثر کیا اور وہ وہاں کے محکمہ زراعت سے ایک معاہدے کے نتیجے میں اپنے ساتھ کھجور کے پودے لے کر آئے۔ آٹھ مختلف اقسام کے ان پودوں میں عجوہ نسل کے پودے بھی شامل تھے۔
انھوں نے راجستھان کے کچھ کسانوں کو یہ پودے مفت دینے کا فیصلہ کیا لیکن مشکل یہ تھی کہ کسان یہ درخت لگانے پر رضامند نہیں تھے۔
راجستھان میں اس سے پہلے کبھی کھجور کے پودے نہیں لگائے گئے تھے۔ کسان سوچتے تھے کہ اپنی زمین پر نئے درخت لگائیں جو چار سال کے بعد پھل دیں گے یا نہیں، ’یہ رسک کون لے؟‘
بارمیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں المسر کے کسان سدولارام چوہدری نے یہ مشکل فیصلہ لیا۔
انھوں نے اپنی زمین پر کئی سو پودے لگا لیے اور ڈریپ ایری گیشن کی مدد سے انھیں پانی دیتے رہے۔ یہ انقلابی کسان ڈاکٹر سریندر چوہدری کے والد تھے۔
ڈاکٹر سریندر کا کہنا ہے کہ ’جو کسان میرے والد کا مذاق اڑاتے تھے، وہ آج انھیں اپنا گرو مانتے ہیں۔ ہماری زمین پر 600 سے زیادہ کھجور کے درخت ہیں جن میں سعودی عرب اور عراق کی اقسام کے درخت شامل ہیں۔ ان میں سب سے قیمتی عجوہ ہے جو ہم ڈھائی سے تین ہزار روپے (انڈین) فی کلو فروخت کرتے ہیں۔‘
’اب میرے والد سدولا رام ایک برانڈ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ ضلع بارمیر میں اب تک 300 کسان کھجور کے باغات لگا چکے ہیں جبکہ مزید 1000 کسان اس حوالے سے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔‘
اس کہانی نے شہاب کو متاثر کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں خود صحرا کا رہنے والا ہوں، یہاں کی جغرافیائی حالات سے بخوبی واقف ہوں ایسے میں سدولا رام چوہدری کا یہ کارنامہ یعنی صحرا میں کھجور کی کامیاب شجرکاری کسی انقلاب سے کم نہیں تھی اور یہ کامیاب مثال میرے لیے ایک ایسا سنہرا خواب بن گئی تھی جسے میں جاگتی آنکھوں سے دیکھتا رہتا۔‘
مگر تھر کے صحرا میں ’نخلستان‘ بنانے کا خواب کیسے پورا ہوا؟
شہاب کہتے ہیں کہ ’بڑے بوڑھوں سے سنا تھا کہ نیت اچھی ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہے، اب یقین بھی آ گیا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ وہ سنہ 2014 کی بدترین خشک سالی کا دور تھا جب انھوں نے گوٹھ کے مستحق لوگوں کی امداد کے لیے کراچی جانے کا فیصلہ کیا تاکہ اپنے واقف کاروں سے مدد حاصل کر سکیں۔
کراچی میں کسی نے ان کا رابطہ ایک این جی او سے کروایا جس نے ان کے گاﺅں والوں کی ہر طرح سے مدد کی۔
انھوں نے اس فاﺅنڈیشن کے جنرل سیکریٹری فیاض عالم سے اپنی زمینوں کو آباد کرنے کے حوالے سے بھی مشاورت کی۔ ڈاکٹر فیاض عالم زراعت میں نت نئے تجربات کے شائق ہیں۔ انھوں نے فوراً حامی بھری اور تجرباتی طور پر شہاب کی 20 ایکڑ زمین آباد کرنے کی ٹھانی۔
لیکن اس کے لیے پانی کہاں سے آئے گا، یہ واحد رکاوٹ تھی۔ اس کا بھی جلد حل ڈھونڈ لیا گیا۔
بزرگوں نے کہا زیر زمین پانی سے فصلیں ہوں گی نہ ہی پھلوں کے درخت لگ سکیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ زمین کا کھارا پانی فصلوں اور درختوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔
لیکن شہاب اس منصوبے کو سود مند اور قابل عمل سمجھ رہے تھے کیونکہ بارڈر کے اس پار ان کا خاندان ٹیوب ویل کے پانی سے ہی کاشت کاری کر رہا تھا اور لاکھوں روپے کما رہا تھا۔
شہاب کہتے ہیں کہ انھوں نے اللہ کا نام لے کر بورنگ کرنے کی اجازت دے دی۔ کچھ ہی عرصے میں ان کی زمین پر 450 فٹ گہری بورنگ کروائی گئی اور 16 ہزار گیلن گنجائش کا سٹوریج ٹینک بنایا گیا۔
اور تو اور زمین سے پانی نکالنے کے لیے سولر سسٹم نصب کر دیا گیا۔ اس پانی کو ٹیسٹ کیا گیا تو اس کا ٹی ڈی ایس 2500 تھا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پانی کا ٹی ڈی ایس 1000 سے زیادہ ہو تو وہ پینے کے لیے موزوں نہیں ہوتا۔
لیکن تھر میں لوگ 3000 ٹی ڈی ایس کا پانی بھی پیتے ہیں کیونکہ کوئی متبادل نہیں۔
بہرحال اسی پانی سے فصلیں شروع ہوئیں اور پھر اگلا سال آیا جب کپاس، سرسوں اور گندم کی فصلوں کی کامیابی نے اہل علاقہ کو حیران کر دیا۔ لوگ دور دور سے شہاب کے اس ایگرو فارم کو دیکھنے کے لیے آئے۔
شہاب بتاتے ہیں کہ وہ ان فصلوں کی کامیابی سے بہت خوش تھے مگر یہ تو ابھی پہلا مرحلہ تھا۔ اکتوبر 2018 میں ڈاکٹر فیاض عالم نے اہل علاقہ کو مزید حیران کرنے کی ٹھانی اور صحرائی زمین کو ’نخلستان‘ میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس حوالے سے عمر کوٹ ضلع میں قائم بارانی ایگری کلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے بھی تیکنیکی مدد لی گئی اور ادارے نے کھجور کے درختوں کے حصول میں بھی مدد کی۔
اسی کا ذیلی ادارہ ایرڈ زون ریسرچ انسٹیٹیوٹ عمر کوٹ اور تھر پارکر میں مختلف پھلدار اور دیگر ناپید درختوں کی بحالی کے حوالے سے خاصا کام کر رہا ہے۔ ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد صدیق ڈیپر کے مطابق ان کا ادارہ تھر کے علاقے میں زراعت اور باغبانی کے حوالے سے ہی ریسرچ کر رہا ہے۔
جب صحرا کی زمین میں پھلوں کی صورت معجزے اُگنے لگے
ڈاکٹر فیاض عالم نے کینیڈا میں مقیم پاکستانیوں کی تنظیم کے تعاون سے ان کے اس ایگرو فارم پر تھرپارکر کا پہلا باغ اور نخلستان بنانے کا آغاز کیا۔
اسلام آباد سے 100 زیتون، خیرپور سے 125 اصیل نسل کے کھجور جبکہ میرپور خاص سے قندھاری انار اور بیر کے 300 پودے منگوائے گئے۔
شہاب ہنس کر گاﺅں کے لوگوں کے تبصرے یاد کرتے ہیں، اس بار بھی گاﺅں کے لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا تھا اور کہا کہ ’تھرپارکر میں زیتون۔۔۔ دیوانے کا خواب ہے۔‘
’کھجور تو انگریز بھی نہیں لگا سکا تھا تو ماسٹر شہاب اور اس کے دوست کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں۔‘
شہاب کہتے ہیں کہ ’میں لوگوں کی باتیں سُنتا اور مسکرا کر خاموش ہو جاتا۔ صرف اللہ سے کامیابی کی دعا مانگا کرتا تھا۔‘
انھوں نے نہ صرف خود اس زمین پر محنت شروع کر دی تھی بلکہ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ شامل کر لیا تھا۔ وہ دونوں فجر کے بعد زمین پر آتے، درختوں کو پانی دیتے۔ گوبر کی کھاد ڈالتے اور درختوں کے درمیان اُگ جانے والی جنگلی گھاس کو نکالتے۔
وہ دن رات محنت کر رہے تھے اور یوں محنت اور جہد مسلسل نے صحرا میں معجزے اُگا دیے۔ صرف ایک سال کے بعد ہی بیر کے درختوں پر بڑی مقدار میں پھل لگ گئے۔ اگلے سال انار کے درختوں میں پھل لگے جبکہ اس سال 26 درختوں پر کھجور کے پھل لدے ہوئے ہیں۔ کچھ ماہ قبل جب ان درختوں پر پھول لگے تھے تو خیرپور سے ایک ماہر کو بلوا کر زرپاشی کروائی گئی تھی۔
ڈاکٹر فیاض عالم کہتے ہیں کہ ’صحرا میں پھلدار درخت لگانا بلاشبہ ایک رسک تھا مگر شہاب نے ہمیں جب بتایا کہ سرحد کی دوسری جانب نہ صرف فصلیں ہو رہی ہیں بلکہ کھجور کے باغات بھی لگ رہے ہیں، تب ہم نے اپنے طور پر بھی معلومات کیں۔ ہمیں اندازہ ہو گیا کہ تھر پار کر کے زیر زمین پانی سے کاشت ہو سکتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا ہم دیگر پھل مثلا بیری، انار، امرود وغیرہ کے ساتھ ساتھ کھجور کی شجر کاری پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ تھر کے لوگ بجا طور پر سوال کرتے ہیں کہ سندھ اور وفاقی حکومت نے آج تک صحرائے تھر میں زمین کے پانی سے کاشت کاری اور باغبانی کے لیے کوئی کام کیوں نہیں کیا۔
حد تو یہ ہے کہ حکومت سندھ ڈرپ ایتری گیشن سسٹم کے لیے 60 فیصد سبسڈی دیتی ہے لیکن کسانوں کی بڑی تعداد کو اس سکیم کے بارے میں معلومات ہی نہیں ہیں۔
20 ہزار مربع کلومیٹر پر محیط وسیع و عریض صحرائے تھر کے ایک دور دراز خطہ زمین پر ماسٹر شہاب الدین سمیجو کی لگن نے صحرا میں حقیقی معنوں میں گل کھلا دیے ہیں۔
شہاب کہتے ہیں کہ ’ہماری اس چھوٹی سی کاوش نے معاشی انقلاب کی راہ ہموار کر دی ہے اور صحرا میں کھجور کی کاشت کے کامیاب تجربے نے صحرا کے باشندوں کے لیے امید کے چراغ روشن کر دیے ہیں۔‘
بشکریہ بی بی سی اردو