طویل ہوتا احتجاج: ’ایرانی حکومت کو ماضی کے مقابلے میں مختلف صورتحال کا سامنا‘

ویب ڈیسک

ایران میں بائیس سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی اخلاقی ضابطے نافذ کرنے والی پولیس ’گشتِ ارشاد‘ کے ہاتھوں ہلاکت نے ملک میں حالیہ برسوں کے سب سے بڑے احتجاج کو جنم دیا ہے اور ملک کے طول و عرض میں حکومت مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں اور یہ سلسلہ مزید طول پکڑتا دکھائی دے رہا ہے

مظاہروں کے اس سلسلے نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسی صورتحال 1999 کے بعد پہلی بار دیکھنے میں آئی ہے، جس نے حکمران طبقے کی نیندیں بھی حرام کر دی ہیں

حکومت کی جانب سے احتجاج کو کچلنے کے لیے ظالمانہ اقدامات اٹھائے جانے کے بعد اس احتجاج میں مزید تیزی آئی ہے۔ اب تک کئی افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو قید میں ڈالا گیا ہے

جولائی 1999 میں طلبہ نے ایک پُرتشدد احتجاج میں حصہ لیا تھا اور چار سال بعد ان لوگوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا تھا، جو پچھلے مظاہروں کے دوران ہلاک ہوئے تھے

اسی طرح 2009 میں محمود احمدی نژاد کے صدر بننے کے بعد بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے یہ مظاہرے 2010 تک جاری رہے، 2011 اور 2012 میں یہ احتجاج دوبارہ شروع ہوا۔
2017 اور 2021 کے درمیان سیاسی اور سول نافرمانی کی تحریکوں کے علاوہ آن لائن ایکٹیوزم اور احتجاجی مظاہرے ہوئے

تاہم احتجاج کا موجودہ سلسلہ سب سے زیادہ طوالت اختیار کرتا جا رہا ہے

اقوام متحدہ کی نمائندہ برائے آزادی اظہار و حقوق ایرین خان نے عرب نیوز کو بتایا کہ ایرانی حکام کو ماضی کے مقابلے کچھ مختلف صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے

ان کے بقول ’معاملہ حجاب سے شروع ہوا تھا حالانکہ یہ خواتین کی مرضی کہ وہ پہنیں یا نہ پہنیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’ایران میں دباؤ کا ردعمل دیکھ رہے ہیں جہاں خواتین اب یہ کہہ رہی ہیں کہ ہم اپنے حقوق کو اس طرح سلب نہیں ہونے دیں گی، جیسے ہماری ماؤں اور دادیوں کے کیے گئے۔‘

ایرین خان کا کہنا ہے ’ایران کی جانب سے اقوام متحدہ کے نمائندے کو داخل ہونے کی اجازت نہ دیے جانے کے باوجود ہم پس منظر میں کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور بہت جلد دباؤ بڑھایا جائے گا کہ عوام کو اپنے حق کے لیے احتجاج کرنے دیا جائے‘

انہوں نے کہا ’ضابطہ اخلاق کے مطابق ہم پابند ہیں کہ ہم کچھ شائع کرنے سے قبل ایرانی حکومت کو مطلع کریں‘

واضح رہے کہ ایرین خان کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے، وہ اس سے قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل میں سیکریٹری جنرل کے طور پر بھی کام کر چکی ہیں۔
وہ نمائندہ خصوصی بننے والی پہلی خاتون ہیں جن کو عہدہ 2020 میں دیا گیا تھا

اس ضمن میں ایک بڑی پیش رفت یہ سامنے آئی ہے کہ جنوبی کوریا میں کلائمنگ کے مقابلے میں بغیر حجاب شریک ہونے والی ایرانی ایتھلیٹ وطن روانہ ہو گئی ہیں اور خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ ایران پہنچنے پر انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی نے غیر ایرانی فارسی میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ ان کو ایرانی حکام نے وقت سے پہلے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا ہو، کیونکہ ایرانی خواتین کے لیے حجاب اوڑھنا لازمی ہے۔
کئی میڈل جیتنے والی الناز ریکابی کی جانب سے مقابلے کے موقع پر حجاب نہ پہننے کا اقدام مہسا امینی کے قتل کے بعد سامنے آیا ہے

جنوبی کوریا میں ایران کے سفارت کار کی جانب سے کہا گیا ہے کہ الناز منگل کی صبح روانہ ہوئیں

برطانوی نشریاتی ادارے کی فارسی سروس نے کسی کا نام ظاہر کیے بغیر ’باخبر ذرائع‘ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ حکام نے الناز کا موبائل فون اور پاسپورٹ ضبط کیا ہے

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ’شیڈول کے مطابق انہوں نے بدھ کو روانہ ہونا تھا، تاہم بظاہر غیرمتوقع طور پر ان کی پرواز کا وقت سے پہلے طے کر دیا گیا۔‘
اسی طرح ایران وائر نامی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ الناز کو ملک پہنچتے ہی تہران کی بدنام زمانہ ایون جیل منتقل کیا جائے گا۔
یہ وہی جیل ہے جہاں اسی ہفتے بڑے پیمانے پر ہنگامہ آرائی اور فائرنگ ہوئی تھی جس میں آٹھ قیدی ہلاک ہو گئے تھے

سیول میں ایرانی سفارت خانے نے ایک ٹویٹ میں الناز ریکابی سے متعلق خبروں کو ’جھوٹ‘ قرار دیا ہے

تاہم سیول میں مقابلے کے موقع کے بجائے ان کی ایسی تصویر پوسٹ کی گئی ہے جس میں انہوں نے حجاب پہن رکھا ہے۔ وہ ماسکو میں ہونے والے پچھلے مقابلے کی تصویر ہے جس میں انہوں نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا

کورین الپائن فیڈریشن کا کہنا ہے کہ اتوار کو ہونے والے فائنل مقابلے کے موقع پر الناز نے حجاب نہیں پہنا تھا۔
فیڈریشن کے مطابق ’الناز ایران کے اس 11 رکنی وفد میں شامل ہیں جن میں آٹھ اتھلیٹس اور تین کوچ ہیں اور مقابلوں میں شرکت کے لیے جنوبی کوریا پہنچا تھا۔‘
فیڈریشن حکام کا کہنا ہے کہ انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ بغیر حجاب کے حصہ لیں گی، جبکہ مقابلے کے لیے ایسے کوئی ضوابط بھی نہیں ہیں

جنوبی کوریا کی وزارت جسٹس نے یہ بتانے سے انکار کیا ہے کہ آیا ایتھلیٹ وہیں موجود ہیں یا پھر نکل چکی ہیں اور اس کو پرائیویسی اور ضوابط کا معاملہ قرار دیا ہے۔
جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ کی جانب سے بھی اس معاملے پر کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے

33 سالہ الناز ریکابی نے ایشیائی چیمپیئن شپ میں تین بار کامیابی حاصل کی ہے، انہوں نے ایک چاندی اور دو کانسی کے تمغے جیت رکھے ہیں

یاد رہے کہ اس سے قبل ایرانی حکومت نے ایران کے سابق لیجینڈ فٹبال اسٹار علی دائی کا پاسپورٹ محض اس لیے ضبط کر لیا تھا، کیونکہ انہوں نے مہسا امینی کے قتل کے خلاف ہونے والے احتجاج کے کچلنے کے لیے طاقت کے استعمال کو غلط قرار دیا تھا

ایران میں احتجاج کیا حکومت کی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے؟

مظاہروں کے حالیہ سلسلے کو ایران کی حکومت کے لیے ایک بڑے خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ احتجاج ایران کی ایسی خواتین اور لڑکیوں میں پھیل چکا ہے، جن کے باپ دادا نے نظام کو اندر سے تبدیل کرنے کی ناکام کوشش کی تھی

سوشل میڈیا ایسی وڈیوز سے بھرا ہوا ہے، جن میں خواتین کو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی تصویر کو پھاڑتے اور جلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے

نوجوان خواتین کے مظاہروں میں ایک نعرہ خوب گونج رہا ہے ’اگر ہم متحد نہیں ہوئے، ایک ایک کر کے ہم اگلی مہسا امینی بنیں گے‘

اہم بات یہ ہے کہ اس احتجاج کی قیادت کرنے والی کوئی ایک سیاسی شخصیت یا گروہ نہیں۔ انہیں ایرانی خواتین چلاتی ہیں، جو ریاست کی جانب سے لباس سمیت زندگی کے ہر پہلو کو کنٹرول کرنے کی کوشش سے تنگ ہیں۔ اس احتجاج میں میں جو نعرے سب سے زیادہ سنے جا رہے ہیں، وہ ہیں: ’عورت، زندگی، آزادی‘ اور ’آمر کی موت‘

یہ مظاہرے تہران کے دارالحکومت میں شروع نہیں ہوئے بلکہ صوبہ کردستان کے شہر ساقیز سے شروع ہوئے اور جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئے

اس بار بڑے شہروں اور یہاں تک کہ چھوٹے قصبوں میں لوگوں کو احتجاج کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے، یہ مظاہرے خوشحال شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ غریب ترین علاقوں میں بھی پھیل چکے ہیں

یہ اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ آبادی کا کتنا حصہ احتجاج کی حمایت کرتا ہے۔ تاہم شواہد بتاتے ہیں کہ اس احتجاج کو پورے ملک اور معاشرے کے لوگوں کی طرف سے بہت وسیع پیمانے پر حمایت ملی ہے

تجزیہ نگاروں کے مطابق پچھلی دو دہائیوں میں ایرانی معاشرہ کم مذہبی ہوا ہے۔ یہ شاید ایران کی ریاست کی طرف سے مذہب کی سخت تشریح اور اسے آبادی پر زبردستی مسلط کیے جانے کا ردعمل ہے۔ سخت حکومتی پابندیوں کو ماننے سے انکار ان وجوہات میں سے ایک تھا، جس کی وجہ سے اخلاقی پولیس تشکیل دی گئی

ایران تقریباً 9 کروڑ افراد پر مشتمل ایک ملک ہے، جو تمام ممالک کی طرح مختلف نظریات رکھتا ہے۔ اس میں سیکیورٹی فورسز بھی شامل ہیں

موجودہ حالات میں احتجاج اگر مزید طول پکڑتا ہے تو ایک خیال یہ بھی ہے کہ فوج یا پولیس بھی مداخلت کر سکتی ہے۔ لیکن اب بھی یہ جاننا مشکل ہے کہ ان مظاہروں کے بعد اب وہ کیا سوچتے ہیں۔ کچھ لوگ سخت وفادار رہیں گے کیونکہ ان کا مستقبل اسلامی جمہوریہ کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ اس جبر کے بارے میں سوال کر سکتے ہیں جسے انہوں نے ہی نافذ کرنا ہے

اب تک ایران کی ایلیٹ سکیورٹی فورس، پاسداران انقلاب کو مظاہروں کو کچلنے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ اگر پاسداران انقلاب کو میدان میں اتارا گیا تو کیا وہ واقعی نوجوان، بوڑھے، خواتین، ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہجوم کو نشانہ بنانا چاہیں گے؟

دوسری جانب پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز میں ایسے لوگ موجود ہونے کا امکان ہے، جو احتجاج سے ہمدردی رکھتے ہیں، لیکن اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ اسے ظاہر کریں گے کیونکہ سزا سخت ہو سکتی ہے

جبکہ حکومت کے کچھ اعلیٰ عہدیدار ارکان نے بھی لازمی حجاب یا سر ڈھانپنے احکامات کی خلاف ورزی پر طاقت کے استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے

ایران میں اس سے قبل بھی پانی کی قلت، بڑھتی ہوئی مہنگائی، لازمی حجاب جیسے مسائل پر کئی مظاہرے ہو چکے ہیں۔ 2019 میں معاشی صورتحال کی وجہ سے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے لیکن احتجاج کی موجودہ لہر نے معاشرے کے کئی طبقوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے

حکام کو شاید یقین ہوگا کہ وہ ماضی کی طرح اس صورتحال سے بھی نمٹ سکتے ہیں۔ سپریم لیڈر نے کہا ہے کہ کچھ مظاہرین سے ’ثقافتی ذرائع‘ یا ’دوبارہ تعلیم‘ کے ذریعے نمٹا جا سکتا ہے۔ دوسروں کو عدالتی اقدامات کے ساتھ سزا دی جائے گی

لیکن بہت سے مظاہرین کی عمریں پچیس سال سے کم ہیں، جو ایران میں ہونے والی گہری سماجی تبدیلیوں کو ظاہر کرتی ہے

ماضی میں، ایران میں احتجاج آخرکار سکیورٹی فورسز کے ایک بڑے کریک ڈاؤن کے بعد دم توڑ گیا۔ لیکن اس بار صورتحال مختلف ہے اس لیے اس احتجاجی سلسلے کے مستقبل اور نتائج کے بارے میں فی الحال کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close