فلم ‘دی گوٹ لائف‘ : زیبِ داستاں میں کھوئی ایک کہانی

امر گل

کبھی کبھار ہم کسی کو ’سنانے‘ کے لیے کسی بات کو زور دے کر کہتے ہیں، بلکہ زور دے کر دہراتے بھی ہیں۔۔ آپ ٹھیک سمجھے، یہاں میرا اصل زور، ’زور دے کر کوئی بات کہنے اور دہرانے‘ پر ہی ہے۔۔ لیکن میں یہ بات فلم ’آدوجیوتھم‘ (دی گوٹ لائف) کے حوالے سے کہہ رہا ہوں۔۔۔ جسے دیکھتے ہوئے مجھے لگا کہ ڈائریکٹر پوری کہانی کو اتنا زور دے دے کر ناظرین کے ذہنوں میں ٹھونسنے کی کوشش کر رہے ہیں، کہ اختتام اس جملے پر کر سکیں۔۔ دیکھا، میں نہ کہتا تھا۔۔!

یہ ایک خوبصورت چہرے پر بہت ہی زیادہ بھاری میک اپ جیسی مووی ہے، جو ایک بیسٹ سیلنگ ناول پر بنائی گئی ہے۔۔ یا یوں کہیے کہ اس میں داستان کا رنگ جمانے کے چکر میں زیبِ داستاں کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے۔۔

یہ ایک محنت کش کی سچی کہانی پر مبنی ہے، جو عارضی کام تلاش کرنے کے وعدے پر اپنے ایک ساتھی کے ساتھ ہندوستان سے سعودی عرب کا سفر کرتا ہے، لیکن اس کے بجائے انہیں ایک ’کفیل‘ ایک طرح سے اغوا کر لیتا ہے اور الگ الگ لوگوں کے پاس ایک صحرا میں انہیں بلا معاوضہ بکریوں کا چرواہا بننے پر مجبور کر دیتا ہے۔۔ آگے چل کر اس فلم میں ایک افریقی (جمی جین لوئس) کی مدد سے ان کے فرار کو دکھایا گیا ہے۔

اس فلم میں مرکزی کردار پرتھوی راج سوکمارن نے ادا کیا ہے۔ دیگر اہم کردار کے آر گوکل، طالب البلوشی، امالا پال اور جمی جین لوئس نے نبھائے ہیں۔

یہ فلم بنیادی طور اچھی اداکاری والی بقا (سروائیول) کی جدوجہد پر مبنی ڈراما فلموں کے مداحوں کو پسند آئے گی، لیکن تقریباً تین گھنٹے کی یہ فلم آسانی سے دو گھنٹے یا اس سے کم وقت میں کہانی کو بیان کر سکتی تھی۔ اگرچہ یہ فلم اس سروائیول کی کہانی سنانے میں بہت طویل ہے، لیکن اس کے باوجود کچھ اہم تفصیلات کی کمی شدت سے کھٹکتی ہے۔

اس طوالت کے باوجود جو چیز اسے دیکھنے کے قابل بناتی ہے، وہ اس کی شاندار سنیماٹوگرافی ہے، اور دوسری چیز پرتھوی راج سوکمارن کی اداکاری، جو شاہکار تو نہیں لیکن بہترین سے بڑھ کر ہے۔ نجیب کے، صحرا میں قابل رحم انداز میں ٹہلتے ہوئے بہت سارے مکالموں سے خالی مناظر ہیں اور کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ تو اس صورت میں سنیل کے ایس کی متاثر کن سنیماٹوگرافی اور آسکر ایوارڈ یافتہ موسیقار اے آر رحمان کے جذباتی موسیقی ناظرین کی دلچسپی بڑی حد تک برقرار رکھتی ہیں۔ یوں یہ فلم اپنی تمام تر خامیوں اور طوالت کے باوجود دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

بلیسی کی تحریر اور ہدایت کاری پر مبنی ’دی گوٹ لائف‘ بینیامین کے 2008 کے ناول ’آدوجیویتھم‘ پر مبنی ہے، جو نجیب محمد کی حقیقی زندگی کی کہانی سے متاثر ہے۔ پہلے ایک ناول کہانی سے متاثر ہو کر لکھا گیا اور پھر اس ناول سے متاثر ہو کر یہ فلم بنائی گئی۔ اس سارے سفر میں جو بات ابھر کر سامنے آئی، وہ ہے ڈرامائی مقاصد کے لیے حد سے زیادہ مبالغہ آرائی۔۔ مثال کے طور پر، ریت کے طوفان کا ایک بہت بڑا منظر ہے، جب یہ دکھایا جاتا ہے کہ بچ جانے والے جو ریت کے طوفان میں پھنس گئے تھے انہیں کوئی شدید چوٹ نہیں آئی۔۔ ایک منظر میں بے تحاشا سانپوں کا ایک دم سے نکل آنا غیر حقیقی سا لگتا ہے۔۔ ایک ایسا شخص جو دریا کی گود میں پلا بڑھا، اور اس صحرا میں پانی کی بوند بوند کو ترستا دکھایا گیا ہے، وہ صحرا میں اولے پڑنے کے بعد برستی بارش میں پہاڑ کی کھائی میں بارش سے بچنے کے لیے کھڑا ہے۔۔ حیرت ہے! اور مزید یہ کہ صحرا کے بیچوں بیچ جہاں پانی کی ایک بوند تک نہیں، گھاس کا ایک تنکا تک نہیں، بکریاں، بھیڑیں اور اونٹ چرائے جا رہے ہیں۔۔ یا للعجب!

فلم میں زیادہ تر زور دے کر اس انداز میں نجیب کی تکالیف کو ظاہر کیا گیا ہے جیسے بلند آواز میں پہاڑے پڑھ کر بچوں کو یاد کروائے جا رہے ہیں، اور کئی بار، یہ بہت دہرایا جاتا ہے۔ فلم میں ایسا کوئی وائس اوور بیانیہ نہیں ہے جو ناظرین کو بتائے کہ پوری فلم میں نجیب کے اندرونی خیالات کیا ہیں، لیکن میرے خیال میں یہ اس فلم کے لیے صحیح تخلیقی فیصلہ ہے کہ اس سے نجیب کی تنہائی ابھر کر سامنے آتی ہے اور دیکھنے والا اس کو محسوس کرتا ہے۔ دراصل اندرونی سوچ کے بیان کے لیے وائس اوور کی یہ غیر موجودگی ناظرین کو یہ سمجھنے کے لیے آزاد چھوڑ دیتی ہے کہ نجیب کیا سوچ رہا ہے۔

میں یہاں کہانی کی تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے، اس کہانی کا ایک معروف حصہ (جو کہ تجسس کو ختم کرنے والی معلومات نہیں ہے) یہ ہے کہ تقریباً دو سال قید میں رہنے کے بعد، نجیب کو اس وقت فرار ہونے کا موقع ملتا ہے۔ وہ تنہا ہے، بلکہ اسے کہیں بھی بند کیے بغیر تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ نجیب کتنی سخت نگرانی میں تھا اور نجیب نے اس سے پہلے کس طرح فرار ہونے کے مواقع کی تلاش میں تھا، یہ بات زیادہ قابل اعتبار نہیں لگتی کہ وہ بکریوں کو الوداع کہنے میں بہت سارا وقت لگاتا ہے، لیکن اس دوران وہ نہ کھانے کے لیے کچھ خوراک لیتا ہے اور نہ ہی مشکیزے میں پانی اور اس کے ساتھ فرار ہونے والے دو ساتھی بھی یہ نہیں سوچتے۔ حالانکہ ان کے افریقی ساتھی کو صحرا کے راستوں سے واقف اور اس حوالے سے ایک تجربہ کار شخص کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ نجیب جانے سے پہلے صرف یہ کرتا ہے کہ وہ خود کو کچھ پانی سے نہلائے، اپنے کپڑے بدلے، اور بکریوں کو الوداع کہے۔ انہیں اپنے ساتھ کوئی کھانا یا پانی لے کر نہیں دکھایا گیا ہے۔۔ حالانکہ وہ سب جانتے ہیں کہ انہیں لق و دق صحرا میں ایک طویل سفر درپیش ہے!

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ نجیب کے پاس یہ سوچنے کے لیے کافی وقت ہے کہ اگر اسے فرار ہونے کا موقع ملے تو وہ کیا کرے گا، فلم میں جس طرح سے اس کے فرار کی تصویر کشی کی گئی ہے، وہ من گھڑت لگتی ہے۔۔ لیکن یہ سب نہ کیا جاتا تو نجیب کا فرار ضرورت سے زیادہ مشکل کیسے بنتا۔۔ اور فلم بینوں کی ہمدردی کیسے حاصل کی جاتی!؟ بدقسمتی سے کسی سچی کہانی پر فلم بناتے ہوئے فلم ساز اصل کہانی پیش کرنے سے زیادہ ناظرین کے جذبات سے کھیلنے میں زیادہ دلچسپی لیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ان کے پاس کم از کم چار دن تک پانی نہیں تھا اور وہ نہ صرف بچ گئے بلکہ صحرا کی تپتی دھوپ میں صحرا میں چلنے کے قابل بھی تھے۔ ہاں، اس دوران ایک ساتھی پیاس سے مر جاتا ہے۔۔ لیکن یہاں اداکاری کی تعریف بنتی ہے۔

بہرحال یہ منطقی حوالے سے ایک بڑی خامی ہے، کیونکہ انسانی حیاتیات کے بارے میں بنیادی معلومات رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ لوگ بغیر خوراک کے کئی دن تک زندہ رہ سکتے ہیں لیکن پانی کے بغیر نہیں اور وہ بھی شدید گرمی میں لق و دق صحرا کے سفر میں۔۔ یہ منطقی خلا اس فلم کو حقیقی کہانی پر مبنی فلم کی بجائے محض ایک فلم بنا دیتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close