پنکج ادھاس: محفلِ غزل کا اک اور چراغ بجھ گیا۔۔

ویب ڈیسک

غزل کی محفل کا اک اور روشن چراغ بجھ گیا۔۔ مشہور بالی وڈ فلم ’نام‘ کے گیت ’چٹھی آئی ہے۔۔‘ سے شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والے معروف غزل گائیک پنکج ادھاس 72 سال کی عمر میں ممبئی میں انتقال کر گئے۔ پنکج ادھاس طویل عرصے سے بیمار تھے اور چند ماہ قبل ان میں کینسر کی تشخیص بھی ہوئی تھی

پنکچ ادھاس کا شمار بھارت کے ان غزل گائیکوں میں ہوتا تھا، جنہوں نے اپنے کریئر کا آغاز نجی محفلوں سے کیا تھا لیکن بعد میں ان کے گائے ہوئے گیت فلموں کا حصہ بھی بنے۔

سن 1980 اور نوے کی دہائی میں ان کے کئی گیت مقبول ہوئے اور ان کے کئی میوزک البمز کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی بھی ملی۔

اپنی روح پرور آواز سے سامعین کو مسحور کرنے والے پنکج ادھاس نے درحقیقت کبھی موسیقار بننے کا ارادہ نہیں کیا تھا

چند سال قبل مڈ ڈے کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران گلوکار نے کہا تھا کہ عام خیال کے برعکس ان کی بچپن کی خواہش گلوکاری میں نہیں بلکہ میڈیکل میں اپنا کریئر بنانا تھی۔ پنکج نے انکشاف کیا کہ انہوں نے اس کے لیے پوری جانفشانی سے تیاری کی تھی لیکن آخرکار خود کو موسیقی کی راہ پر گامزن کر لیا، جس سے ان کا ڈاکٹر بننے کا خواب ادھورا رہ گیا۔ اس کے باوجود، اس نے میڈیکل میں گہری دلچسپی برقرار رکھی اور شعبے میں ہونے والی تازہ ترین پیشرفت کے بارے میں اچھی طرح سے آگاہی حاصل کرتے رہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مزاحیہ انداز میں خود کو ’خود ساختہ 80 فیصد ڈاکٹر‘ کہا۔

مذکورہ انٹرویو میں انہوں نے کار گاڑیوں کے لیے زندگی بھر کے شوق کو ظاہر کرتے ہوئے، آٹوموبائل کے بارے میں اپنی دلچسپی کے بارے میں بھی بتایا ۔ اپنی پرورش کو یاد کرتے ہوئے، انہوں نے اپنے والد کی پیاری ملکیت، ایک جیپ کا ذکر کیا، جسے چھونے سے منع کیا گیا تھا۔ تحفے کے طور پر سائیکل ملنے کے باوجود ان کی کاروں کی خواہش برقرار رہی۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنی کمائی سے اپنی پہلی کار، Fiat 1951 ماڈل کی خریداری کے بارے میں بھی یاد دلایا۔

پنکج کی پیدائش 17 مئی 1951 کو گجرات کے راجکوٹ کے قریب جیت پور میں ایک زمیندار گجراتی خاندان میں ہوئی۔ ان کے بڑے بھائی منہر ادھاس جانے مانے گلوکار ہیں۔ گھر میں موسیقی کا ماحول تھا، لہٰذا پنكج کی دلچسپی بھی موسیقی کی جانب ہو گئی۔

محض سات سال کی عمر سے ہی پنکج گانا گانے لگے۔ ان کے اس شوق کو ان کے بڑے بھائی منہر نے پہچان لیا اور انہیں اس راہ پر چلنے کے لئے حوصلہ افزائی کی۔ منہر اکثر موسیقی سے منسلک پروگرام میں حصہ لیا کرتے تھے۔ انہوں نے پنکج کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا۔

ایک بار پنكج کو ایک پروگرام میں حصہ لینے کا موقع ملا جہاں انہوں نے ’’اے میرے وطن کے لوگوں، ذرا آنکھ میں بھر لو پانی‘‘ گیت گایا۔ اس گیت کو سن کر سامعین بہت متاثر ہوئے۔ان میں سے ایک نے پنکج کو خوش ہوکر 51 روپے بھی دیئے۔ اسی دوران پنکج راجکوٹ کی موسیقی تھیٹر اکیڈمی سے جڑ گئے اور طبلہ بجانا سیکھنے لگے۔

کچھ برس بعد پنکج کا خاندان بہتر زندگی کی تلاش میں ممبئی آ گیا۔ پنکج نے گریجویشن ممبئی کے مشہور سینٹ زیوئیر کالج سے کیا۔ اس کے بعد ان کی دلچسپی موسیقی کی جانب ہو گئی اور انہوں نے استاد نورنگ جی سے موسیقی کی تعلیم لینی شروع کر دی۔

پنکج کے فلمی کیریئر کا آغاز 1972 میں آئی فلم ’’کامنا‘‘سے ہوا لیکن کمزور اسکرپٹ اور ہدایت کی وجہ سے فلم باکس آفس پر بری طرح ناکام ثابت ہوئی۔ اس کے بعد ’’غزل گلوکار‘‘ بننے کے مقصد سے پنکج نے اردو کی تعلیم حاصل کرنی شروع کر دی۔

سال 1976 میں پنکج کو کینیڈا جانے کا موقع ملا اور وہ اپنے ایک دوست کے یہاں ٹورنٹو میں رہنے لگے۔ انہی دنوں اپنے دوست کی سالگرہ کی تقریب میں پنکج کو گانے کا موقع ملا۔ اسی تقریب میں ٹورنٹو ریڈیو میں ہندی کے پروگرام پیش کرنے والے ایک شخص بھی موجود تھے۔ انہوں نے پنکج ادھاس کی صلاحیت کو پہچان لیا اور انہیں ٹورنٹو ریڈیو اور دوردرشن میں گانے کا موقع دیا۔

تقریباً دس ماہ تک ٹورنٹو ریڈیو اور دوردرشن میں گانے کے بعد پنکج اس کام سے بھی بیزار ہو گئے۔ اس دوران کیسٹ کمپنی کے مالک ميرچندانی سے ان کی ملاقات ہوئی اور انہیں اپنے نئے البم’’آہٹ‘‘ میں پہلی مرتبہ گانے کا موقع دیا۔ یہ البم سامعین میں کافی مقبول ہوا۔

سال 1986 میں آئی فلم’’نام‘‘ پنکج کے فلمی کیریئر کی اہم فلموں میں سے ایک ہے۔ يوں تو اس فلم کے تقریباً تمام نغمے سپر ہٹ ثابت ہوئے لیکن پنکج ادھاس کی مخملی آواز میں ’’چٹھی آئی ہے، وطن سے چٹھی آئی ہے‘‘ گیت آج بھی سننے اور دیکھنے والوں کی آنکھوں کو نم کر دیتا ہے۔

اس فلم کی کامیابی کے بعد پنکج کو کئی فلموں میں گانے کا موقع ملا۔ ان فلموں میں گنگا جمنا سرسوتی، بہار آنے تک،تھانیدار، ساجن، دل آشنا ہے، پھر تیری کہانی یاد آئی، یہ دل لگی، مہرا، میں کھلاڑی تو اناڑی، منجدھار، گھات اور یہ ہے جلوہ اہم ہیں۔

پنکج کے گائے نغموں اور غزلوں کی حساسیت ان کی ذاتی زندگی میں بھی دکھائی دیتی تھی۔ وہ ایک سادہ دل اور نرم طبعیت کے انسان بھی تھے، جو دوسروں کے دکھ درد کو اپنا سمجھ کر اسے دور کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

ایک بار ممبئی کے ناناوتی ہسپتال سے ایک ڈاکٹر نے پنکج کو فون کیا کہ ایک شخص کے گلے کے کینسر کا آپریشن ہوا ہے اور اس کی آپ سے ملنے کی تمنا ہے، اس بات کو سن کر پنکج فوری طور پر اس شخص سے ملنے ہسپتال گئے اور نہ صرف اس کو گانا گا کر سنایا بلکہ اپنے گائے گانوں کا کیسٹ بھی دیا۔ بعد میں پنکج کو جب اس بات کا پتہ چلا کہ اس کے گلے کا آپریشن ہوگیا اوروہ اس بیماری سے آہستہ آہستہ ٹھیک ہو رہا ہے تو پنکج بہت خوش ہوئے۔

سن 1980 میں پنکچ ادھاس کا پہلا میوزک البم آہٹ ریلیز ہوا تھا، جس نے ملک گیر شہرت حاصل کی۔ اس کے بعد ان کے کئی اور میوزک البم منظرِ عام پر آئے، جن میں مکرر، ترنم، نایاب اور آفرین قابل ذکر تھے۔

سن 1984 میں انہیں لندن کے مشہور رائل البرٹ ہال میں بھی پرفارم کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا، لیکن انہیں سب سے زیادہ شہرت 1986 میں ریلیز ہونے والی فلم ’نام‘ کے گیت ’چٹھی آئی ہے‘ سے ملی۔ فلم میں بھی یہ گیت پنکج ادھاس ہی پر فلمایا گیا تھا۔ اس گیت کی مکمل کہانی ہم آگے چل کر بیان کریں گے

پنکج ادھاس نے بالی وُڈ فلموں کے لیے بھی سدا بہار گانے گائے، جن میں ’چٹھی آئی ہے‘ کے ساتھ ساتھ ’آج پھر تم پہ پیار آیا ہے‘، ’جیئیں تو جیئیں کیسے‘، ’چھپانا بھی نہیں آتا‘ ، ’نہ کجرے کی دھار‘ ’اور آہستہ کیجیے باتیں، اور ’اِک طرف اس کا گھر‘ جیسے گانے شامل ہیں۔

پنکچ ادھاس کو ان کے فلمی گیتوں کے ساتھ ساتھ غزلوں کی وجہ سے بھی جانا جاتا تھا۔ بھارت اور پاکستان سمیت دنیا کے دیگر خطوں میں پنکچ ادھاس کے گائے ہوئے گیتوں کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی، جب کہ بھارت میں سرکاری سطح پر بھی ان کے فن کا اعتراف کیا گیا۔

پورے کیریئر کے دوران پنکج ادھاس کو موسیقی کی دنیا میں خدمات کے عوض کئی ایوارڈز ملے۔ انہیں 2006 میں انڈین حکومت کی جانب سے غزل گانے اور کینسر کے مریضوں اور تھیلیسیما کے مرض کے شکار بچوں کے لیے فلاحی کام کرنے پر معتبر پدما شری ایوارڈ دیا گیا۔

پنکج ادھاس کے فن کی بدولت انہیں انڈیا کے علاوہ دنیا بھر میں غیر معمولی پہچان ملی۔ ان کو اپنے کیریئر میں کافی عزت و احترام حاصل ہوا۔ انہیں بہترین غزل گلوکار، كے ایل سہگل ایوارڈ، ریڈیو لوٹس ایوارڈ، اندرا گاندھی پریادرشنی ایوارڈ، دادا بھائی نوروجی ملینیم ایوارڈ اور آرٹسٹ ایوارڈ حاصل ہوئے۔

جب پنکج اداس نے ’چٹھی آئی ہے‘ نہ گانے کی ٹھان لی

ایک دن پنکج کے بڑے بھائی منوہر نے فون پر ان سے کہا کہ ان کی وجہ سے انہیں اداکار راجندر کمار سے کیا کچھ سننے کو نہیں ملا۔ راجندر کمار نے یہاں تک طعنہ دیا کہ گلوکار پنکج کو تہذیب اور تمیز چھو کر نہیں گزری اور ان کا رویہ انتہائی غیر پیشہ ورانہ اور غیر اخلاقی ہے۔ پنکج کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ بڑے بھائی منوہر کو کیسے فون پر سمجھائیں۔

پنکج ادھاس کے ذہن میں راجندر کمار سے ہونے والی گفتگو کے الفاظ گونج رہے تھے۔ انہیں یاد تھا کہ راجندر کمار کا انہیں فون آیا تھا، جنہوں نے بتایا تھا کہ وہ اور ان کا بیٹا کمارگور ایک فلم ’نام‘ پروڈیوس کر رہے ہیں

راجندر کمار کے مطابق فلم کے لیے آنند بخشی نے ایک گیت ’چٹھی آئی ہے‘ لکھا ہے اور سبھی کا خیال ہے کہ یہ گیت فلم کا ہیرو نہیں بلکہ اسکرین پر بھی وہی گائے، جس نے گلوکاری کی ہے اور یہ ایک بڑے سے ہال میں عکس بند کیا جائے گا۔ اسی لیے راجندر کمار نے پنکج ادھاس کو خوشخبری سنائی کہ وہ ان کی فلم میں کام کرنے والے ہیں۔

پنکج ادھاس کے لیے بالی وڈ میں یہ پیشکش غیرمتوقع تھی اور ان کے کیریئر کی ابھی شروعات ہوئی تھی۔ پنکج ادھاس کا خیال تھا کہ وہ بطور اداکار نہیں بلکہ گلوکار زیادہ اپنے لیے سہولت محسوس کرتے ہیں کیونکہ گلوکاری ان کا جنون تھا۔

اس کی ایک وجہ بڑے بھائی منہر ادھاس بھی بنے تھے۔ راجندر کمار کی اس پیشکش کے جواب میں جان چھڑانے کی غرض سے پنکج ادھاس نے یہی کہا کہ وہ تھوڑی دیرمیں ’کال بیک‘ کرتے ہیں۔ پنکج نے جان بوجھ کر یہ کام نہیں کیا۔ اب انہیں کیا معلوم تھا کہ راجندر کمار کی بڑے بھائی سے گہری دوستی تھی اور کئی دنوں تک ’کال بیک‘ نہ کرنے پر انہوں نے اٹھا کر منہرکو فون کیا اور اپنی ناراضگی کا اظہار کر دیا

منہر نے جب پیشہ ورانہ رویے پر لیکچر دے دیا تو آخر کار پنکج سے رہا نہ گیا اور انہوں نے بتا دیا کہ انہوں نے کیوں راجندر کمار کو جواب نہیں دیا۔ اس پر منہر کا کہنا تھا کہ اگر وہ اس فلم کے لیے گانا اور اداکاری نہیں کرنا چاہتے تو اصولی اوراخلاقی ذمے داری یہ بنتی ہے کہ وہ پھر بھی راجندر کمار کو فون کر کے یہ وجہ ان کے گوش گزار ضرور کریں۔

بڑے بھائی کے حکم پر تمام تر ہمت جمع کر کے پنکج نے راجندر کمار کو کال ملائی اور کہا کہ وہ معذرت خواہ ہیں بروقت جواب نہ دے سکے۔ ساتھ ہی وہ بولے کہ وہ اس فلم اور گانے کے لیے دستیاب نہیں۔

اس سے پہلے راجندر کمار وجہ دریافت کرتے، پنکج نے کہنا شروع کیا کہ دراصل ان کا خواب ہے کہ وہ بطور گلوکار اپنے آپ کو تسلیم کرائیں اور راجندر کمار ان سے اداکاری کرانے جا رہے ہیں، اسی لیے وہ فلم ’نام‘ کا حصہ بننے سے قاصر ہیں۔

راجندر کمار نے تسلی کے ساتھ پنکج کی بات سنی اور پھر ان کا سوال تھا کہ ’تم سے کس نے کہا کہ ہم اداکاری کرائیں گے؟‘

راجندر کمار کے مطابق فلم میں ایک ایسی صورت حال ہے کہ ہیرو سنجے دت بھارت سے باہر رہتے ہیں اور پھر ایک روز کسی کنسرٹ میں جاتے ہیں، جہاں ایک گلوکار نغمہ سرائی کر رہا ہے اور اس گیت کا محور بے وطنوں پر ہے کہ کیسے وہ اپنوں سے دور روزگار کے حصول کے لیے وطن چھوڑ دیتے ہیں لیکن ان کی یادیں قریبی رشتے داروں کو بے چین کرتی رہتی ہیں۔

ایسے میں وطن سے آئی چٹھی میں گھرانہ اپنے رنج، دوری اور کرب کا اظہار کرتا ہے اور بول ایسے ہوتے ہیں کہ ہیرو سنجے دت ہی نہیں کنسرٹ میں موجود ہر شخص آبدیدہ ہو جاتا ہے۔

راجندر کمار کا کہنا تھا کہ وہ پنکج اداس سے اداکاری نہیں کرائیں گے بلکہ انہیں بطور گلوکار ہی پیش کریں گے اور وہی اس گیت کو گائیں گے۔ راجندر کمار کے اس انکشاف کے بعد پنکج اداس کی غلط فہمی دور ہوئی اور انہوں نے اسی وقت اس گیت گانے کے لیے ہامی بھر لی۔

گیت کے موسیقار لکشمی کانت پیارے لال تھے جنہوں نے پنکج ادھاس کو مطلوبہ دن اسٹوڈیو میں آنے کا سندیسہ دیا۔ جس روز گیت کی ریہرسل اور ریکارڈنگ تھی۔ پنکج مختلف شہروں میں کنسرٹ کر کے واپس بمبئی لوٹے تھے۔ سفر کی تھکاوٹ سے چُور تھے لیکن پھر بھی شام میں اسٹوڈیو پہنچے۔ نغمہ نگار آنند بخشی، ہدایت کار مہیش بھٹ اور راجندر کمار بھی موجود تھے۔ گانے کی دو تین دفعہ ریہرسل ہوئی اور پھر فیصلہ ہوا کہ اب ریکارڈنگ کی جانی ہے۔

پنکج ادھاس ’سنگر بوتھ‘ میں پہنچے اور پھر گلوکاری کا آغاز کیا۔ اسٹوڈیو کے دوسری جانب لکشمی کانت پیار ے لال گیت ریکارڈ کرانے میں مگن تھے لیکن دوسری ٹیک کے بعد لکشمی کانت اٹھے اور اشارے سے پنکج ادھاس کو روکا اور پھر انہیں دوسرے کمرے تک لے کر گئے۔

لکشمی کانت نے پان کی پیک اگلدان میں منتقل کرتے ہوئے پنکج اداس سے کہا، ’پنکج جی، اس گانے کا جو موڈ ہے، جذبات اور احساسات ہیں، وہ آپ صحیح ڈھنگ سے نبھا رہے ہیں لیکن پھر بھی پتہ نہیں کیوں مجھے کچھ کمی محسوس ہو رہی ہے۔ آپ سُر میں بلاشبہ گا رہے ہیں لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں کچھ کمی ہورہی ہے۔ ‘

پنکج نے کہا، ’میں تو دل کی گہرائیوں سے گا رہا ہوں، سمجھ نہیں آ رہا کہاں کوئی خامی رہ رہی ہے۔‘

موسیقار لکشمی کانت نے تھوڑے توقف سے کہا کہ ’آپ درست کہہ رہے ہیں لیکن چلیں یہ بتائیں کہ آپ کنسرٹ میں کس طرح گلوکاری کرتے ہیں؟‘

پنکج نے کہا، ’کنسرٹ میں تو میں ہارمونیم کے ساتھ فرشی نشست کے تحت گلوکاری کرتا ہوں۔‘

لکشمی کانت اس جواب کے بعد چونکے اور پھر گویا ہوئے کہ ’دو منٹ دیں میں کچھ سوچتا ہوں۔‘ یہ کہہ کر وہ کمرے سے چلے گئے۔

کوئی پندرہ بیس منٹ بعد پنکج کو بلایا گیا تو انہوں نے دیکھا کہ اسٹوڈیو کا بڑا سا ہال اب ریکارڈنگ روم بن چکا تھا۔ ایک بڑی میز یا تخت درمیان میں تھا جہاں ہارمونیم رکھا تھا اور پھر پنکج کو حکم ملا کہ وہ ہارمونیم کے ساتھ بیٹھ کر گلوکاری کا آغاز کریں۔

پنکج کو اپنی مطلب کا ماحول مل چکا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس صورت حال میں پنکج نے ریہرسل کے دوران ایک مکھڑا اور انترا گایا جس کے بعد مکسنگ روم سے لکشمی کانت کی آواز آئی کہ اب فائنل ٹیک کرنے جا رہے ہیں۔

پنکج ادھاس نے کم و بیش سوا سات منٹ کے دورانیے کے اس گیت کو بغیر کسی ری ٹیک کے ریکارڈ کرانا شروع کیا۔ جب گیت ختم ہوا تو انہیں لگا کہ موسیقار ضرور کہیں گے کہ وہ ایک ٹیک اور کر لیں لیکن ان پر خوشگوارحیرت عیاں ہوئی جب موسیقار لکشمی کانت اپنے مکسنگ روم سے نکل کر آئے اور فخریہ انداز میں کہا، ’پنکج جی آپ نے کمال کر دیا!‘

صرف لکشمی کانت ہی نہیں وہاں موجود ہر شخص کے جذبات اور احساسات ایسے ہی تھے۔ پنکج ادھاس کو جب ریکارڈ شدہ گیت ’چھٹی آئی ہے‘ سنایا گیا تو ان کے دل میں یہی خیال آیا کہ یقینی طور پر یہ گانا سپرہٹ ہوگا۔ ریکارڈنگ کے کچھ دنوں بعد پنکج کو اس کی عکس بندی کے لیے بھی بلایا گیا جب تک پنکج میں بلا کا اعتماد آ گیا تھا۔ اسی لیے انہوں نے بڑی آسانی کے ساتھ اس گیت کو عکس بند بھی کرا دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ’نام‘ کے دیگر گانوں جیسے’ اور اس دل میں کیا رکھا ہے‘ اور ’ تو کل چلا جائے گا تو میں کیا کروں‘ بھی کامیابی کے ہر پائیدان میں نمایاں رہے لیکن پنکج اداس کے دکھ اور درد بھری آواز نے جیسے ’چٹھی آئی ہے‘ کو بے مثال کردیا جس کا سحر آج تک قائم ہے۔

وہ گیت جسے پنکج اداس گانا نہیں چاہتے تھے، اسی نے ان کے کیریئر کی نئی راہیں متعین کر دیں۔ آج بھی پنکج اداس کا ذکر اس گیت کے بغیر ادھورا رہتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close