آسکر ایوارڈ میلہ لوٹنے والی فلم ’اوپن ہائمر‘ میں خاص کیا ہے؟ فلم کا تجزیہ

ویب ڈیسک

اتوار کے روز لاس اینجلس میں منعقد آسکرز کی رنگارنگ تقریب میں ‘اوپن ہائمر‘ نے سات ایوارڈز جیت لیے۔ ان میں بہترین فلم کے ساتھ ہی بہترین ہدایت کاری اور بہترین اداکار ی کے ایوارڈز بھی شامل ہیں۔ تقریب مقررہ وقت سے تقریباً پانچ منٹ تاخیر سے شروع ہوئی کیونکہ فلسطین کے حامی افراد ڈولبی تھیٹر کے باہر اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔

کرسٹوفر نولان کو ‘اوپن ہائمر‘ کے لیے بہترین ہدایت کار کا ایوارڈ دیا گیا۔ ترپن سالہ برطانوی ہدایت کار نے پہلی مرتبہ آسکرز ایوارڈ جیتا ہے۔

کیلین مرفی نے دوسری عالمی جنگ کے دوران ایٹم بم بنانے والی ٹیم کی قیادت کرنے والے ماہر طبیعات اوپن ہائمر کا کردار ادا کرکے اپنا پہلا اکیڈمی ایوارڈ جیتا۔ آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے مرفی بہترین اداکار کا ایوارڈ جیتنے والے پہلے آئرش نژاد اداکار بن گئے ہیں۔ اسی فلم میں ریئر ایڈمرل لیوس اسٹراس کا کردار ادا کرنے والے رابرٹ ڈاؤنی جونیئر کو بہترین معاون اداکار کا آسکر ز ایوارڈ ملا ہے۔ یہ ان کا بھی پہلا آسکر ہے۔

’اوپن ہائمر‘ کو بہترین ایڈیٹنگ، بہترین گیت اور سنیماٹوگرافی کے ایوارڈز بھی دیے گئے۔

یوں ’اوپن ہائمر‘ نے بہترین فلم کے اکیڈمی ایوارڈ، بہترین اداکار (کیلین مرفی)، بہترین معاون اداکار (رابرٹ ڈاؤنی جونیئر)، بہترین ہدایت کار (کرسٹوفر نولین)، بہترین موسیقی سمیت سات اعزازات اپنے نام کیے۔

اس فلم میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ اسے دنیا کے سب سے مشہور اور بااثر فلمی ادارے کی جانب سے اتنی پذیرائی ملی؟

اس بارے میں معروف تجزیہ نگار ظفر سید کا کہنا ہے کہ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا پڑے گا کہ بڑی کہانیاں، چاہے وہ فلم کی شکل میں ہوں، ناول ہو یا کوئی اور آرٹ فارم، عمومی طور پر بڑے مخمصوں (dilemma) کے بارے میں ہوتی ہیں، یعنی ان کے کرداروں کو بڑے مسئلے درپیش ہوتے ہیں اور ان کا کوئی آسان حل نہیں ہوتا، اب یہ کردار پر منحصر ہے کہ وہ کس راستے کا انتخاب کرتا ہے۔

فلم ’اوپن ہائمر‘ اس لیے بڑی ہے کہ اس میں ایک نہیں، کئی زبردست مخمصے دکھائے گئے ہیں اور کردار، خاص طور پر مرکزی کردار کیلین مرفی ان سے نمٹنے کی جدوجہد میں سرگرداں ہیں۔

باقی مخمصے تو اپنی جگہ (جن کا نیچے ذکر آئے گا) اس فلم کا مرکزی ایشو بہت بڑا ہے، بلکہ اتنا بڑا جتنا کسی فلم کا ہو سکتا ہے، یعنی پوری دنیا کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے بڑا کوئی قضیہ ہو نہیں سکتا۔

مارٹن اسکورسیزی کی فلم ’کلرز آف دا فلاور مون‘ کی ریلیز کے بعد بہت سے فلم کے ماہرین کو لگا تھا کہ اس سے کوئی دوسری فلم 2024 کا آسکرز نہیں جیت سکتی، لیکن ’اوپن ہائمر‘ دیکھ کر جذباتی ہمدردیاں دھری رہ گئیں، کیوں کہ ’فلاور مون،‘ چاہے وہ کتنی ہی اہم فلم کیوں نہ ہو، اس کا اسکوپ ’اوپن ہائمر‘ کے مقابلے پر بہرحال محدود ہے۔

ظفر سید کے مطابق، اس میں کوئی شک نہیں کہ ’اوپن ہائمر‘ بڑے کینوس کی بڑی فلم ہے، جس کا نہ صرف دورانیہ عام فلموں سے طویل ہے (پورے تین گھنٹے!)، بلکہ اس میں کرداروں، کہانیوں اور واقعات کی بھی بھرمار ہے۔ موجودہ دور کے عام رواج کے برعکس کرسٹوفر نولین نے اسے ڈجیٹل نہیں بلکہ فلم پر شوٹ کیا ہے، اور اس میں کمپیوٹر گرافکس کی بجائے اصل اسپیشل ایفیکٹ استعمال کیے گئے ہیں۔

اس فلم میں دوسری جنگِ عظیم کا وہ حصہ دکھایا گیا ہے، جس میں امریکہ اور جرمنی کے درمیان ایٹم بم بنانے کی دوڑ جاری ہے۔ دونوں ملکوں کو خوف ہے کہ اگر دوسرے نے پہلے ایٹم بم بنا لیا تو وہ فوری طور پر جنگ جیت جائے گا۔

جرمنی نے ایٹم بم بنانے والی ٹیم کا انچارج مشہور طبیعات دان ہائزن برگ کو بنایا، جب کہ امریکہ نے اسی ہائزن برگ کے شاگرد رابرٹ جے اوپن ہائمر کو ایک بڑی ٹیم بنا کر اس کا سربراہ مقرر کر دیا اور خزانے کے منہ کھول دیے کہ جتنی مرضی خرچ آئے، جلد سے جلد ایٹم بم تیار کر لیا جائے، ورنہ ہٹلر نے پہلے بم بنا لیا تو جرمنی جنگ جیت جائے گا۔

امریکہ کے اس منصوبے کو ’مین ہیٹن پروجیکٹ‘ کا نام دیا گیا اور اس کا شمار انسانی تاریخ کے چند سب سے بڑے منصوبوں میں ہوتا ہے اور اس کا شمار اہرامِ مصر اور دیوارِ چین کی تعمیر جیسے منصوبوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ نولین نے اپنے موضوع سے انصاف کرتے ہوئے ’اوپن ہائمر‘ فلم کو فلمی دنیا کا بڑا پروجیکٹ بنا دیا تاکہ وہ اسے مین ہیٹن پروجیکٹ کے شایانِ شان قرار دیا جا سکے۔

فلم کی کہانی زیادہ تر امریکہ والے حصے پر مرکوز ہے، جس میں اوپن ہائمر (جن کا کردار کیلین مرفی نے ادا کیا) اور ان کی ٹیم سرتوڑ کوشش کر رہی ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو، ایٹم بم تیار کر لیا جائے۔

لیکن اسی دوران امریکی سائنسدانوں کو ایک زبردست مخصمے کا بھی سامنا ہے۔ ٹیم میں شامل بعض سائنس دان یہ خدشہ ظاہر کرنے لگے کہ اگر ایٹم بم پھٹا تو اس سے کرۂ ہوائی میں موجود آکسیجن جل اٹھے گی اور پوری دنیا بھسم ہو جائے گا۔

لیکن دوسری جانب اگر فوری طور پر ایٹم بم نہ بنایا گیا تو جرمنی پہل کر جائے گا، اور وہ بلاتامل یہ بم برطانیہ اور امریکہ کے خلاف استعمال کرے گا۔ گویا ’آگے کنواں، پیچھے کھائی‘ والا معاملہ ہے۔

فلم کے مرکزی کردار اسی زبردست تضاد کا شکار دکھائے گئے ہیں، جس نے ان کی راتوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ پھر جب بم ناگاساکی اور ہیروشیما پر گرائے جاتے ہیں تو اوپن ہائمر کا سکون برباد ہو جاتا، اور انہیں اپنے تخلیق کے بھیانک نتائج بار بار ستانے لگتے ہیں۔

لیکن دوسری جانب ’اوپن ہائمر‘ میں ایک اور بڑا مخمصہ ہے اور وہ یہ ہے کہ نوجوانی کے دور میں اوپن ہائمر کی ہمدردیاں کمیونزم کے ساتھ تھیں، اس لیے امریکہ میں بہت سے لوگ انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ وہ امریکہ اور امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔

جب مین ہیٹن پروجیکٹ کے چند سال کے اندر اندر سوویت یونین نے بھی ایٹم بم بنا لیا تو اوپن ہائمر اور ان کے ساتھیوں پر انگلیاں اٹھیں کہ انہوں نے بم کا راز اپنے کمیونسٹ ساتھیوں کو دے دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ معاملہ بھی تھا کہ ٹیم کے بعض ارکان زیادہ طاقتور ہائیڈروجن بم بنانا چاہتے تھے مگر اوپن ہائمر نے انہیں ویٹو کر کے ایٹم بم پر اکتفا کی۔

یہی وجہ ہے کہ اوپن ہائمر، جو بم بنا کر ہیرو بن گئے تھے، ان پر انہی الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا جس میں لیوی سٹراؤس نامی اس زمانے کے وزیرِ کامرس پیش پیش تھے، جو ہر صورت میں اوپن ہائمر کو گرانا چاہتے تھے۔ فلم میں ان کا کردار ’آئرن مین‘ رابرٹ ڈاؤنی جونیئر نے ادا کیا ہے اور اس پر ایوارڈ بھی لے اڑے۔

فلم میں مقدمے کی کارروائی بلیک اینڈ وائٹ میں دکھائی گئی ہے، جسے بم بنانے کی جدوجہد کے رنگین حصوں کے ساتھ بار بار انٹر کٹ کیا گیا ہے، اور کرسٹوفر نولین کے مشہورِ زمانہ انداز میں فلم بار بار ماضی اور حال میں سفر کرتی رہتی ہے۔

سو فلم کا ایک کمال تو اس میں دکھائے گئے بڑے اخلاقی مخمصے ہیں، دوسری جانب امریکی نظامِ حکومت اور فیصلوں پر بھی کڑی تنقید بھی شامل ہے۔

فلم میں کیلین مرفی کی اداکاری کمال کی ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صرف آسکرز ہی نہیں، اس سال اداکاری کے تقریباً تمام بڑے ایوارڈز جیتے ہیں، جن میں برٹش اکیڈمی فلم ایوارڈز، گولڈن گلوبز، سکرین ایکٹرز گلڈ ایوارڈ، وغیرہ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ فلم تکنیکی اعتبار سے بھی شاندار ہے۔ ماضی اور حال، بلیک اینڈ وائٹ اور رنگین، امید اور خدشہ، دوستی اور دشمنی جیسے متضاد عناصر کو کمال مہارت سے ایک ہی لڑی میں گوندھا گیا ہے۔

ظفر سید لکھتے ہیں: مجھے فلم کے ایک پہلو نے فوراً ہی گرفت میں لے لیا۔ نوبیل انعام یافتہ طبیعات دان رچرڈ فائن مین بھی فلم میں دکھائے گئے ہیں، اگرچہ ان کا نام لے کر شناخت نہیں کیا گیا اور وہ چند سیکنڈ کے لیے نظر آتے ہیں۔ لیکن جونہی میں نے مین ہیٹن پروجیکٹ میں شامل ایک سائنس دان کو بونگو بجاتے دیکھا، میں فوراً سمجھ گیا کہ یہ فائن مین ہیں۔

پھر ایٹمی دھماکے کے دوران فائن مین وہ واحد سائنسدان ہیں، جنہوں نے آنکھوں پر حفاظتی چشمے نہیں لگا رکھے۔ فائن مین نے اس کا ذکر اپنی آپ بیتی میں کیا ہے۔

اس سے کرسٹوفر نولین کی باریک بینی کا اندازہ ہوتا ہے کہ ایک بےنام کردار، جو چند سیکنڈ کے لیے اسکرین پر نظر آتا ہے، اسے کتنا درست انداز میں دکھایا گیا ہے، تو باقی فلم پر کتنی محنت کی گئی ہوگی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close