انڈونیشین ہارر فلم سِجین: ’جو اس فلم کو دیکھنے جا رہا ہے، اس پر بھی فلم میں موجود کالے جادو کا اثر ہو رہا ہے۔۔‘

ویب ڈیسک

”اس فلم کو دیکھنے سینما نہیں جانا، کیونکہ اس میں موجود کالے جادو کا آپ پر بھی اثر ہوسکتا ہے۔۔ میرا دوست یہ فلم دیکھنے گیا تھا، سینما میں دورانِ فلم ہی اس کی طبیعت بگڑ گئی۔“

یہ وہ دعویٰ ہے، جو سوشل میڈیا پر ایک ہارر فلم کے لیے کیا گیا، جس کا نام ’سِجین‘ ہے، یہ فلم 19 جنوری کو پاکستان کے سینما گھروں میں ریلیز کی گئی۔۔ اور 19 جنوری کو کراچی کے سینیما ہال بھر گئے، ایک بھی نشست خالی نہیں تھی۔۔ عجیب بات یہ تھی کہ یہ مجمع کسی ہالی وڈ یا بالی وڈ کی فلم کے لیے جمع نہیں ہوا تھا، بلکہ ایک انڈونیشین فلم کے لیے تھا۔

یہ پہلی بار تھا کہ پاکستان میں انڈونیشیا سے کوئی فلم درآمد کر کے سینیما میں پیش کی گئی ہو اور لوگ اسے یوں جوق در جوق دیکھنے آ جائیں اور وہ بھی تب، جب فلم اردو میں ڈب نہیں کی گئی تھی۔ سجین کو انڈونیشین زبان ہی میں چلایا گیا تھا البتہ سب ٹائٹل انگریزی زبان میں تھے۔

فلم ابھی ریلیز ہی نہیں ہوئی تھی، کہ سوشل میڈیا پر یہ دعوے کیے جانے لگے کہ جو اس فلم کو دیکھنے جا رہا ہے، اس پر بھی فلم میں موجود کالے جادو کا اثر ہو رہا ہے۔۔ ایڈونچر کے دلدادہ عوام یہ سنتے ہی بڑی تعداد میں فلم دیکھنے سینما پہنچنے لگے اور صرف ایک مہینے میں ہی اس انڈونیشین فلم نے پاکستان میں چار کروڑ روپے کا بزنس کر لیا!

یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی فلم کے متعلق اس طرح کے دعوے کیا جا رہے ہیں، ایسی ہی باتیں انگریزی ہارر فلم ’کونجیورنگ 2‘ کے بارے میں بھی کی گئی تھیں، کہ اس فلم کو دیکھ کر اتنے لوگوں کو سینما گھروں میں دل کا دورہ پڑا۔۔ یہ سننا تھا کہ لوگ جوق در جوق اس فلم کو دیکھنے آنے گئے اور یوں یہ فلم سیریز کی پہلی فلم سے زیادہ کمائی کرنے میں کامیاب رہی

ہولی وڈ کی بات تو پھر بھی سمجھ میں آتی ہے کہ یہ فلم بینوں کے لیے اجنبی نہیں لیکن انڈونیشین فلم انڈسٹری ’سجین‘ کی پاکستانی سینما گھروں میں کامیابی اس لیے بھی حیران کن تھی کہ اس کی ڈبنگ تک نہیں کی گئی تھی، اور سب ٹائٹلز کے ساتھ اسے سینما گھروں میں لگا دیا گیا، لیکن اس کے باوجود فلم بینوں کی بڑی تعداد نے اس فلم کو دیکھنے سینما گھروں کا رخ کیا۔

یہ پہلا موقع تھا، جب کسی انڈونیشین ہارر فلم نے پاکستان میں اتنا کامیاب بزنس کیا، جس کی دیکھا دیکھی اب پاکستانی سینما ریونیو کمانے کے لیے مزید ہارر فلمیں لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں

یہ فلم دیکھنے آئے اکثر افراد نے فلم دیکھنے کی وجہ ہارر فلموں کا شوق، اور اس فلم میں کالے جادو اور اس سے منسلک مناظر کے علاوہ یہ بھی بتائی کہ یہ ایک مسلمان ملک میں بنی ہے اور اس میں قرآنی آیات کے ذریعے کالے جادو کا توڑ کیا جاتا ہے۔

سینیما آئی عوام کے خیال میں ہالی وڈ کی فلموں میں کلیسا یا صلیب استعمال ہوتی ہے جبکہ بالی وڈ میں بھگوان کی مورتی یا ترشول استعمال ہوتا ہے۔

’سجین‘ ایک ترکش فلم تھی جس کا یہ ری میک ہے اور یہ فلم دیکھنے ایسے لوگ بھی آئے تھے جو یہ ترکش فلم دیکھ چکے تھے۔

چلیں اب انڈونیشین ہارر فلم انڈسٹری کے بارے میں کچھ حقائق پر بات کرتے ہیں:

2022ء کے ڈیٹا کے مطابق انڈونیشیا کے سینما گھروں میں 61 فیصد وہ مواد لگتا ہے، جو ان کی مقامی انڈسٹری میں بنتا ہے، جن میں سے ایک بڑی تعداد ہارر فلموں کی ہوتی ہے۔ بڑی تعداد میں انڈونیشیا کے عوام اپنی فلمیں دیکھنے سینما گھروں کا رخ کرتے ہیں۔

فلم تجزیہ نگار خولہ اعجاز کے مطابق، انڈونیشین ہو یا ترکیہ کی فلم انڈسٹری، ان میں ہارر فلمیں کلیدی حصہ تصور کی جاتی ہیں۔ اس بات کی مثال یہ لے لیجیے۔ نیٹ فلیکس کھولیے اور انڈونیشن ہارر فلمز لکھیے، فلموں کی ایک بڑی تعداد تک آپ کو رسائی ملے گی، جن میں سے زیادہ تر فلمیں کالا جادو کے گرد گھومتی ہوں گی۔ سب سے بڑی بات مسلم ممالک میں ان کی مقبولیت ہے کیونکہ ان میں زیادہ تر کالا جادو دکھا کر فلم میں خوف کا عنصر شامل کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے نام، امام قرآنی آیات پڑھتے ہیں اور اس طرح کے بہت سے اسباب کی بنا پر پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کے لوگ اس سے خود کو جوڑ پاتے ہیں اور ایسی فلمیں دیسی لوگوں میں دلچسپی پیدا کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سجن نامی فلم پاکستان میں اچھا بزنس کرنے میں کامیاب رہی۔

انڈونیشیا کی چند ہارر فلمیں جو عالمی سطح پر خوب مقبول ہوئیں، ان میں ’منافق‘ سیریز، ’ڈول‘ سیریز جس میں مشہورِ زمانہ ’سبرینا‘، ’تھرڈ آئی‘ سیریز، ’دانور‘، ’کلتی لانک‘ اور ’مے دی ڈیول ٹیک یو‘ شامل ہیں۔

ان فلموں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں خوف ناک چہرے دکھا کر ڈر پیدا کرنے پر زور دینے کے بجائے باقاعدہ کہانی کو شامل کیا جاتا ہے اور پھر جب ان میں کوئی غیر متوقع ٹوئسٹ آتا ہے، تو فلم ناظرین کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فلمیں بڑی بجٹ کی فلمیں نہیں ہوتیں، ان فلموں میں بجٹ کم لگتا ہے جس کی وجہ سے اگر یہ سینما میں فلاپ بھی ہوں تو انہیں نقصان زیادہ نہیں ہوتا لیکن انڈونیشیا کے عوام میں اس طرح کی فلموں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

یہ جاننا بھی یقیناً آپ کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا کہ جنوبی کوریا کی کامیاب انڈسٹری بھی انڈونیشین فلموں کے مواد کی معترف ہے اور اسی بنا پر آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’پیراسائٹ‘ کے پروڈیوسر نے اس میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا اور اب فلم ’ریسپاتی‘ کو انہوں نے پروڈیوس کیا ہے اور ساتھ ہی اس کی بین الاقوامی تشہیر و ریلیز کے رائٹس بھی حاصل کیے ہیں۔

اسی طرح انڈونیشین فلموں کی مقبولیت کی وجہ سے ان فلموں کی بین الاقوامی سطح پر ڈسٹریبیوشن رائٹس کی طلب زیادہ ہوتی ہے، یوں ان فلموں کو دنیا بھر کے سینما میں لگنے کا موقع مل رہا ہے۔

اگر حالیہ انڈونیشین فلم ’سِجین‘ کی بات کریں تو یہ فلم ترکیہ کی فلم سیریز ’سِجین‘ کی ایک فلم کا ریمیک ہے۔ ترکیہ کی چھ فلموں پر مشتمل ’سجین‘ سیریز ہارر فلموں کے شائقین میں کافی مقبول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد کو انڈونیشیا کی ریمیک فلم کی کہانی کے حوالے سے کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور تھا۔

ترکیہ کی ہارر فلموں کی بات کی جائے تو ان میں ایک خاص پلاٹ ٹوئسٹ ہوتا ہے، جن کی بنا پر شائقین آخری لمحے تک ان سے اپنی توجہ نہیں ہٹا سکتے۔ ان فلموں میں ’ڈبے‘ فلم سیریز، ’بددعا‘، ’سجن‘ اور ’ہدم‘ کو کافی مقبولیت حاصل ہے۔

’سجین‘ فلم کی کہانی ایک ایسی لڑکی کے گرد گھومتی ہے، جو اپنے کزن سے محبت کرتی ہے لیکن کزن کسی اور لڑکی سے شادی کر لیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ لڑکی اس لڑکے کی بیوی پر کالا جادو کروا دیتی ہے، جس کے بعد ان کے خاندان کے ساتھ غیرمعمولی واقعات پیش آنے لگتے ہیں۔

یہ مبالغہ آمیز دعویٰ بھی کیا جا رہا تھا کہ اس فلم میں حقیقی کالا جادو موجود ہے! اس حوالے سے فلم تجزیہ نگار خولہ اعجاز کہتی ہیں ”ترکیہ اور انڈونیشیا کی ہارر فلموں سے خصوصی رغبت رکھنے والی ایک فلم بین کے طور پر میں کہوں گی کہ ان کی ہر فلموں میں حقیقی کالا جادو ہی دکھایا جاتا ہے، تو ایسا سمجھنا کہ اگر اسے دیکھنے چلے گئے تو آپ پر بھی اس کا اثر ہوجائے گا، ایک مفروضہ ہے۔۔ لیکن ایک لحاظ سے یہ مفروضہ فلم کے حق میں مثبت ثابت ہوا اور یوں عوام کی بڑی تعداد میں انڈونیشن ہارر فلم دیکھنے کا شوق اور تجسس پیدا ہوا۔“

واضح رہے کہ یہ فلم ملائیشیا میں اس وقت تنازع کا شکار ہوگئی تھی، جب اس فلم کی تشہیر کے لیے ایک سینیما کے باہر ایک مصنوعی نعش رکھ کر فلم کا ایک سین بنایا گیا تھا۔

تشہیر کے اس طریقے کو عوام کی جانب سے ناپسند کیا گیا تھا اور اسے میت کی توہین قرار دیا گیا تھا۔

بہرحال۔۔ پاکستان میں اس فلم کی کامیابی کے بعد نیوپلیکس سینما میں مارچ میں دو انڈونیشین فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جائیں گی، جن کا موضوع بھی کالا جادو ہی ہے۔ سجن فلم کی ریلیز سے پہلے عوام میں سجن کی مقبولیت کی وجہ سوشل میڈیا پر اس کے حوالے سے چلنے والی افواہیں تھیں، تو کیا اسی طرح کے مبالغہ آمیز دعوے اور افواہیں ہمیشہ ایسی فلموں کو کامیاب کرا سکتے ہیں۔۔ پاکستان ہے، کچھ بھی ہو سکتا ہے بھئی۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close