مان سنڌ جو پٽ آھیان!

عامر لیاقت حسین 

قرآن کریم میں واضح طور پر اللہ تعالیٰ کا ارشادِ پاک ہے ’’پھر اے نبی ﷺ، اللہ کی مہربانی سے تم ان لوگوں کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے ہو اور اگر تم بد خو اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔سو ان کو معاف کر دو اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت مانگو اور اپنے کاموں میں ان سے مشورہ لیا کرو۔اور جب کسی کام کا پختہ ارادہ کر لو تو اللہ پر بھروسہ رکھو۔بے شک اللہ بھروسہ رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘

مگر یہ کیسا لاک ڈاؤن ہے، یہ کیسی اندھیر نگری اور چوپٹ راج ہے کہ کراچی کے تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلی سے مشاورت کے بنا جناب مراد علی شاہ صاحب نے اپنے تئیں ایسا لاک ڈاوْن اہلیان کراچی پر مسلط کیا کہ روزانہ اجرت والے، شکم مزدور میں لگی آتش بھوک کو صبر کے آنسوؤں سے بجھانے پر مجبور ہیں۔

اس پر طرفہ تماشا یہ کہ بقول شاہ صاحب کے’’ ویکسینیشن کرالیں ورنہ پولیس کی چاندی ہو جائے گی‘‘ اور پولیس نے اسے حکم حاکم مرگ مفاجات کے طور پر لیتے ہوئے کوئی ناکہ، کوئی کونا، کوئی کھدرا ایسا نہیں چھوڑا جہاں سے انہیں سونے کے انڈے نہ ملے ہوں جو موٹر سائیکل سوار کہلاتے ہیں…… میں متعصب نہیں ناْہی یہ میری تربیت ہے لیکن عمر کا آدھا حصہ گذر جانے کے بعد اب سمجھ آیا کہ کسی بھی قوم کا کوئی بھی فرد (پوری قوم نہیں) متعصب ہو سکتا ہے۔

اگر وہ اختیارات پر سانپ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھا ہوا بھی ہو، کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک پولیس اور کالی وردی والوں کے پیداگیر تماشے کسی سیمیں پردہ اسکرین پر سنسنی خیز انداز میں عوام کی گوشمالی کے لیے گویا اس طرح دکھائے جارہے ہیں کہ اذہان بدبودار فسادات کے لیے تیار ہوجائیں جنہیں میں اگر لسانی فسادات سے تعبیر کروں تو غیر مناسب نہیں ہوگا۔ بہت عرصے بعد اس شہر نے سکون کا سانس لیا تھا، مدتوں بعد نفرت کی سیاست نے 2018 کے انتخابات میں پولنگ اسٹیشنز پر آخری سانس لی تھی اور طویل وقت گذرنے کے بعد شہریوں کی بھتہ خوروں اور پرچی فروشوں سے جان چھوٹی تھی مگر یہ کیا ہوا؟ یہ کیا کہہ ڈالا بلاول بھائی نے! یہ کیسی زبان استعمال کرنے لگے میرے بھائی بلاول!! کیا فرمارہے ہیں آپ کہ ‘‘ ہم نے ایم کیو ایم سے مقابلہ کیا اور اب پی ٹی آئی نئی ایم کیو ایم بن چکی ہے‘‘۔

حضور والا! سعید غنی بھائی سے امان پاؤں تو کچھ عراض کروں ‘‘آپ نے کبھی مقابلہ نہیں فرمایا بلکہ عبدالرحمن ملک صاحب کو آپ کے والد محترم نے بار بار لندن بھیج کر رام کیا، آپ کے والد کا صدر مملکت کے لیے نام بھی لندن سے پکارا گیا اور تواریخ کے اتنے اوراق آپ سے کیوں پلٹواؤں، ماضی قریب میں آپ نے بزبان نفیس نفس (نفس نفیس الگ اصطلاح ہے) ایم کیو ایم کے اراکین سے عرض کیا تھا ‘‘آپ عمران خان کی حکومت گرانے میں ہمارا ساتھ دیں، ہم سندھ میں آپ کو من پسند عہدوں سے نواز دیں گے‘‘۔ جی ہاں یہ آپ ہی تھے۔

ابھی آپ جوان ہیں، خاکم بدہن نسیان کے مریض نہیں، جو بھول جائیں!! کاش کہ آپ مشاورت کے اس سنہری اصول پر کاربند رہتے جو آپ کی والدہ محترمہ کا طرہ امتیاز تھا۔مجھے یاد ہے کہ ایک جانب کراچی میں پیپلز پارٹی کی حکومت ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن میں مصروف تھی تو عین اسی وقت زیرک بے نظیر بھٹو شہید جناب نبی داد خان کی سربراہی میں ایم کیو ایم کے اجمل دہلوی، شیخ لیاقت، قاضی خالد اور شعیب بخاری سے مذاکرات کی نگرانی بھی فرما رہی تھیں۔ محترمہ بے نظیر کی سیاست بھول گئے کوئی بات نہیں لیکن ان کا مصالحانہ کردار تو نہ بھولیے۔ ان کی باتیں یاد نہ آتی ہوں تو راندہ درگاہ محترمہ ناہید خان اور محترمہ فہمیدہ مرزا کو بلا کر پوچھ لیا کیجیے، ذہن اور دل دونوں صاف رہیں گے…..

اور مراد علی شاہ صاحب،’’ تون منهنجي ماء ْ سنڌ جو پٽ آھین‘‘ آپ کو یاد رکھنا چاہئیے کہ آپ کے والد سید عبداللہ شاہ کو کراچی کے لوگوں نے کبھی پسند نہیں کیا، آپ کے پاس موقع تھا کہ آپ کراچی کے لوگوں کا دل جیت کر انہیں شرمندہ کراتے لیکن آپ ایسا نہ کر سکے۔شاہ صاحب میں بھی سندھ کا بیٹا ہوں لیکن مہاجر ہوں، ہاں مگر اپنی ماں کو کبھی تقسیم ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔

میرے گوشت کا ایک ایک ریشہ اور میرے لہو کا ایک ایک قطرہ میری ماں سندھ کا قرض دار ہے، سائیں جی ایم سید کی گودوں میں پلا بڑھا، پیر شاہ مردان شاہ المعروف پیر پگاڑو کے گھر کا نمک کھایا، شیخ ایاز سے نظمیں سنیں اور سید غلام مصطفی شاہ سے تربیت پائی، غلام مصطفی جتوئی اور ان کے صاحبزادگان نے ہمیشہ عزت دی ، حیدرآباد کے معروف صحافتی گھرانے کے عبدالوہاب نے رہنمائی فرمائی اور میرے پیارے راجا سائیں موجودہ پیر پگاڑو میرے بڑے بھائی ہیں، کسی کو یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ ہم سندھ کے وفادار ہیں لیکن ہاں مہاجر ہیں جیسا کہ آپ سندھی !! اورکوئی بھی سچا مہاجر دھرتی کا غدار نہیں ہوتا۔ میں آپ سے پہلے اپنی ماں سندھ کے لیے کٹنا قبول کر لوں گا لیکن کثیر القومیت شہر کے عوام کو کاٹوں گا نہیں۔

مخلوق خدا جب کسی مشکل میں پھنسی ہو،
سجدے میں پڑے رہنا عبادت نہیں ہوتی..

ہر شخص سر پہ کفن باندھ کے نکلے،
حق کے لیے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی!!!!!

نوٹ: یہ تحریر ایکسپریس نیوز کے شکریے کے ساتھ شائع کی گئی، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close