امریکی جیل میں قید ڈاکٹر عافیہ پر ساتھی قیدی کا حملہ

ویب ڈیسک

اسلام آباد : دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ امریکا کی جیل میں قید نیورو سائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو گزشتہ ماہ امریکا کے فیڈرل میڈیکل سینٹر میں ساتھی قیدی نے تشدد کا نشانہ بنایا جس سے انہیں چوٹیں آئیں اور اب وہ روبہ صحت ہیں

دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متاثرہ برادریوں کو بااختیار بنانے کے لیے کام کرنے والی تنظیم CAGE نے 19 اگست کو کہا تھا کہ انہیں صدیقی کے وکلا کی طرف سے پریشان کن اطلاعات موصول ہوئی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ان کے سیل میں ایک قیدی نے حملہ کیا تھا جو کچھ عرصے سے انہیں ہراساں بھی کررہا تھا

بیان کے مطابق قیدی نے ان کے چہرے پر بھرا ہوا گرم کافی کا مگ توڑ دیا

بیان میں کہا گیا کہ پرتشدد حملے کے بعد شدید تکلیف میں مبتلا ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنی حفاظت کے لیے جھک کر بیٹھ گئیں، وہ حملے کے بعد اٹھنے سے قاصر تھیں اور انہیں وہیل چیئر پر سیل سے باہر نکالنا پڑا

یاد رہے پاکستانی نژاد امریکی شہری عافیہ صدیقی کو ایک امریکی عدالت نے امریکی فوج اور ایف بی آئی کے افسران پر افغانستان میں دوران حراست گولی چلانے کے الزام میں فرد جرم میں 86 سال قید کی سزا سنائی تھی

دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ حکام کو پتہ چلا ہے کہ 30 جولائی کو ایک ساتھی قیدی کی جانب سے عافیہ صدیقی پر حملہ کیا گیا تھا

ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن ڈی سی میں ہمارے سفارت خانے کے ساتھ ساتھ ہیوسٹن میں ہمارے قونصل خانے نے بھی فوری طور پر متعلقہ امریکی حکام کے ساتھ اس معاملے کو اٹھایا

◾عافیہ کے مقدمے کا پسِ منظر:

پاکستانی شہری عافیہ صدیقی کی کہانی ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ’ سے جڑی کہانیوں میں سب سے اہم ہے، جو مارچ 2003 میں اُس وقت شروع ہوئی جب  خالد شیخ محمد کو کراچی سے گرفتار کیا گیا، جن پر امریکا نے القاعدہ کے نمبر تین اور نائن الیون حملوں ےک ماسٹر مائنڈ ہونے کے الزامات عائد کر رکھے ہیں

خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے بعد مبینہ طور پر 2003 میں ہی عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی سے لاپتہ ہوگئیں تھیں. لاپتہ ہونے کے پانچ سال بعد عافیہ صدیقی کو امریکا کی جانب سے 2008ع میں افغان صوبے غزنی سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا

امریکی عدالتی دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ‘عافیہ صدیقی کے پاس سے دو کلو سوڈیم سائینائیڈ، کیمیائی ہتھیاروں کی دستاویزات اور دیگر چیزیں برآمد ہوئی تھیں، جن سے اشارہ ملتا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہیں’

دستاویزات میں یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ جب عافیہ صدیقی سے امریکی فوجی اور ایف بی آئی عہدیداران نے سوالات کیے تو انہوں نے مبینہ طور پر ایک رائفل اٹھا کر ان پر فائرنگ کر دی، جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہوگئیں، جس کے بعد انہیں امریکا منتقل کر دیا گیا جہاں 2010 میں انہیں اقدام قتل کا مجرم قرار دے کر 86 سال قید کی طویل ترین سزا سنائی گئی تھی. ان کے وکلا نے 12 سال کی سزا کی استدعا کی تھی جبکہ استغاثہ نے عمر قید کی سزا کا مطالبہ کیا تھا

مقدمے کی سماعت کے دوران ڈاکٹر عافیہ نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ محض کمرے سے فرار ہونے کی کوشش کر رہی تھیں اور کمرے میں موجود ایک شخص نے انہیں دیکھ کر ان پر گولی چلا دی

عافیہ صدیقی کے اہل خانہ اور حامیوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں پاکستان میں گرفتار کیا گیا اور خفیہ ایجنسیوں کے حوالے کیا گیا جنہوں نے بعد میں انہیں امریکی تحویل میں دیا، تاہم امریکی اور پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ انہیں افغانستان میں گرفتار کیا گیا تھا

عافیہ صدیقی نے 1991 اور جون 2002 کے درمیان امریکا میں رہتے ہوئے حیاتیات اور نیورو سائنس میں میساچوئسس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور برانڈیس یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگریاں حاصل کیں اور انہیں ہتھیار چلانے یا ان سے کسی بھی قسم کی واقفیت سے یکسر انکار کیا تھا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close