بالی ووڈ کی ہندی فلموں میں ساڑھی کا کلچر

ذوالفقار علی زلفی

ہندوستان کی آزادی کے بعد ہندی سینما شعوری یا لاشعوری (گمان غالب یہی ہے شعوری) طور پر بھارتی قوم پرستی کا ترجمان بن گیا ۔ نظریاتی لحاظ سے بھارتی سینما نے نوآبادیاتی اقدار و روایات کے خلاف ہندوستانی جاگیردار اشرافیہ کے اقدار کو اپنا ہتھیار بنایا اور انہی اقدار کو قوم پرستانہ جذبے کے تحت ہندوستانی ثقافت کے نام پر پیش کیا۔ ایک اچھی اور باوقار بھارتی خاتون کی اہم علامت ساڑی/ساڑھی بن گئی۔

ہندی سینما نے ساڑھی کلچر کو فروغ دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ پچاس کی دہائی میں بند گلے اور پورے آستین کی ساڑھی بلاؤز کو مقبول بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہ ساڑھی بلاؤز ناف اور پیٹھ کو بھی ڈھکی رکھتی تھی۔ اس قسم کی ساڑھیوں کو ایلیٹ اور شہری مڈل کلاس خواتین میں مقبول بنانے کا سہرا اداکارہ مدھو بالا، نرگس اور مینا کماری کے سر بندھتا ہے، جنہوں نے اس زمانے کے فیشن پر دور رس اثرات مرتب کئے۔ فلم "شری چارسو بیس (1955) میں اداکارہ نادرہ کی ساڑھی البتہ ایک استثناء ہے۔ نادرہ نے اس ساڑھی میں گردن کے پچھلے حصے کی طرف خاصا حصہ کھلا رکھا تھا۔ فلم میں چوں کہ نادرہ ایلیٹ کلاس خواتین کی نمائندگی کر رہی تھی، اس لیے ان کے اس انداز نے سماج کی بالائی پرت کی خواتین کو خاصا متاثر کیا۔
(بھارتی فیشن رائٹر مہر کاسٹیلو)

بیسویں صدی کی چھٹی و ساتویں دہائی

ساٹھ کی دہائی میں پنڈت نہرو کی پالیسیوں کے باعث بھارت نے صنعت کاری کے شعبے میں کافی ترقی کی اور شہری محنت کش خواتین کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ ہوا۔ پڑھی لکھی خواتین بالخصوص خواتین طلبا پر امریکی فلموں اور مغربی فیشن میگزین کے اثرات بھی مرتب ہو رہے تھے۔ سرکاری و نجی دفاتر اور فیکٹریوں میں کام کرنے والی شہری محنت کش خواتین کو ہندوستانی ثقافت کی جانب متوجہ کرنے کے لیے ہندی سینما نے ساڑھیوں کے ڈیزائنز کو بتدریج بدل دیا۔ ساڑھی کے ساتھ ساتھ شلوار قمیض اور چوڑی دار پاجامہ بھی ہندی سینما کا حصہ بنا۔ شلوار قمیض کو غالباً مسلم شہری خواتین کو متوجہ کرنے کے لیے سینما کا حصہ بنایا گیا۔ ساٹھ کی دہائی میں فیشن پر اثر انداز ہونے والی اداکاراؤں میں شرمیلا ٹیگور، سادھنا اور ممتاز نمایاں رہیں۔ اس دور می‍ں گوکہ وحیدہ رحمان بھی ایک مقبول اداکارہ تھی لیکن اپنے سنجیدہ کرداروں کے باعث وہ فیشن پر اثرانداز ہونے کی قوت سے محروم تھی۔

ممتاز نے شوخ رنگوں اور تتلیوں و پھولوں کے ڈیزائن سے سجے ساڑھیوں کو متعارف کروایا۔ سادھنا اور شرمیلا ٹیگور کی ساڑھیاں نسبتاً سادہ اور آستین کہنیوں تک ہوتے تھے۔ ممتاز نے بعد میں ایک قدم آگے بڑھ کر آستین ہی غائب کردی اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کمر ، پیٹھ اور ناف کو عریاں کرکے دو حصوں میں منقسم ساڑھی کا تصور دیا (فلم: برہمچاری 1968)۔ ساڑھی کے اس ڈیزائن کا نام "ممتاز ساڑھی” رکھا گیا۔ فیشن ایبل ایلیٹ کلاس خواتین نے اس ساڑھی کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔

سادھنا نے فلم "میرے محبوب” (1963) میں شلوار قمیض کے نت نئے ڈیزائن متعارف کروائے۔ سادھنا چوں کہ فیشن پر وسیع اثرات مرتب کرتی تھی اس لیے ان کے ڈیزائن شہری محنت کش خواتین میں بے حد مقبول ہوئے۔

ستر کی دہائی میں مغربی فیشن کا سیلاب آگیا۔ ہندی سینما میں مغربی فیشن کی نمائندگی زینت امان اور پروین بابی نے کی۔ ان دونوں نے اپنی مقبولیت کو استعمال کرکے مغربی فیشن کو سینما کے ذریعے شہری مڈل کلاس خواتین کے لباس کا حصہ بنایا۔ تاہم قوم پرست ہدایت کاروں کے ایک بڑے حصے نے ساڑھی کے فیشن کو برقرار رکھا۔ مغربی لباس کا مقابلہ کرنے کے لئے ساڑھی کے ڈیزائن میں تبدیلیاں کی گئیں۔ فلموں میں جارجٹ اور شیفون کی ساڑھیاں استعمال کی گئیں جن میں مغربی لباس کی مانند جسم کا اچھا خاصا حصہ نظر آتا تھا۔ ان ساڑھیوں میں نہ صرف گلے کو خاصا کھلا رکھا گیا بلکہ ساڑھی بھی ناف سے کافی نیچے چلی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ دانے دار بلاؤز بھی فیشن میں شامل کئے گئے۔ دانے دار بلاؤز کا استعمال غالباً سب سے پہلے ڈمپل کپاڈیہ نے اسکرٹ کے ساتھ فلم "بوبی” (1975) میں کیا۔ شیفون اور جارجٹ کی کھلے گلے کے ساتھ ناف سے کافی نیچے ساڑھی باندھنے کا فیشن زینت امان اور ممتاز کے سر بندھتا ہے۔ بالخصوص زینت امان جنہوں نے ساڑھی کو ایک سیکس سیمبل بنا دیا۔

بیسویں صدی کی آٹھویں و نویں دہائی
ستر کی دہائی میں بھارتی حکومت نے دیہاتی معیشت کو ترقی دینے کی کوششوں کا آغاز کیا۔ دیہاتوں میں ہاتھ سے ساڑھی بنانے کی صنعتیں شروع ہوئیں۔ اس ثقافت میں بنگلہ دیشی ساڑھیوں کا بھی کردار نظر آتا ہے۔ 80 کی دہائی میں ہندی سینما نے ہاتھ سے بنے دیہاتی ساڑھیوں کو شہروں میں متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان ساڑھیوں کو سب سے زیادہ اداکارہ ریکھا، سری دیوی اور ہیمامالینی نے فروغ دیا۔ یہ ساڑھیاں زیادہ تر گہرے رنگوں اور میچنگ بلاؤز پر مشتمل تھے۔ 80 کی پوری دہائی میں ہندی سینما کی پیشکشوں پر اسی قسم کی ساڑھیاں حاوی رہیں۔

اسّی کی دہائی میں بلاؤز کے ڈیزائنز پر بھی بھرپور توجہ دی گئی۔ فلم "سلسلہ” (1981) میں ریکھا کے بلاؤز ڈیزائن نے فیشن کا روپ دھار لیا۔ بعد میں ڈمپل کپاڈیہ نے فلم "ساگر” (1985) اور سری دیوی نے فلم "چاندنی” (1989) میں منفرد اور دلفریب بلاؤز ڈیزائن متعارف کروائے۔ فلم "ارپن” (1983) میں رینا رائے اور پروین بابی کے بلاؤز ڈیزائن بھی منفرد تھے لیکن میرا اندازہ ہے پروین بابی کا ڈیزائن زیادہ خوب صورت ہے۔

اسی کی دہائی میں داخلی سیاسی تضادات سے عوامی توجہ کو ہٹانے کے لیے ٹی وی پر طویل "رامائن سیریز” چلائی گئی۔ یہ سیریز عوام میں بے انتہا مقبول ہوئی۔ اس سیریز نے جہاں ہندو شدت پسندی کو بڑھاوا دیا وہاں اس کی بدولت گھاگھرا چولی کی ثقافت کو بھی شہری خواتین کے بڑے حصے نے اپنا لیا۔

نوے کی دہائی میں سب سے زیادہ متاثر کن اداکارہ مادھوری ڈکشت رہی ہیں۔ مادھوری نے بھارتی خواتین کے پہناوے پر دور رس اثرات مرتب کئے۔ انہوں نے بلاؤز کو منہا کرکے چولی کی ثقافت کو متعارف کروایا۔ مادھوری کی چولی منفرد تھی۔ اس میں پیٹھ پر صرف ایک یا دو پٹیاں ہوتی تھیں اور باقی پیٹھ مکمل عریاں۔ انہوں نے فلم "بیٹا” (1992) کے گیت "دھک دھک کرنے لگا” ، فلم "کھل نائیک” (1993) کے گیت "چولی کے پیچھے کیا ہے” اور "ہم آپ کے ہیں کون” (1994) کے گیت "دیدی تیرا دیور دیوانہ” وغیرہ وغیرہ کے ذریعے چولی کے فیشن کو عروج پر پہنچا دیا۔

فلم "ہم آپ کے ہیں کون” کے بعد ہندی سینما میں ایک بڑی نظریاتی تبدیلی آئی۔ ہندی سینما نرسہماراؤ کی نیو لبرل پالیسی کی ترجمان بن گئی۔ اس تبدیلی نے ساڑھی بلاؤز کے فیشن پر بھی اثرات مرتب کئے۔ شیفون کی باریک و پلین ساڑھی اور انتہائی کھلے گلے کے بلاؤز ٹریڈ مارک بن گئے۔ تقریباً تمام اداکاراؤں نے اس فیشن کو فروغ دیا لیکن اداکارہ کاجول نے اس بدلاؤ میں اہم ترین کردار ادا کیا بالخصوص فلم "کچھ کچھ ہوتا ہے” (1998) کے ذریعے انہوں نے اس ٹرینڈ کو مضبوط بنیادیں فراہم کیں۔

▪️اکیسویں صدی کا آغاز

نرسہماراؤ کی نیو لبرل پالیسیوں کے تسلسل کے باعث اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں سرمایہ دارانہ فیشن انڈسٹری ایک پُر قوت کردار بن کر سامنے آئی۔ اس انڈسٹری نے سینما اور ٹی وی سے مضبوط روابط قائم کئے۔ اس مضبوط تعلق کی وجہ سے سینما اور ٹی وی نے مغربی فیشن کی آمیزش کرکے شیفون کی ساڑھیوں، بلاؤز اور چولی کے مہنگے اور دلکش ڈیزائن متعارف کروائے۔ یقینی طور پر ان کا ہدف بھارتی ایلیٹ کلاس خواتین اور مغربی ممالک میں مقیم خوش حال بھارتی تھے۔ اس دور میں "این آر آئی” کی حب الوطنی پر مبنی فلمیں بنائی گئیں اور مغرب میں مقیم بھارتی خاتون کی بھارت دوستی کی ایک اہم علامت شیفون کی ساڑھی کی صورت سامنے آئی۔

اس دور کے فیشن پر اثر انداز ہونے والی اداکاراؤں میں ایشوریا رائے، مادھوری، کرینہ کپور ، سشمیتا سین اور پریانکا چوپڑا شامل ہیں۔ اس دور میں پچاس کی دہائی کی سپرہٹ فلموں "دیوداس” (1955) اور "پرینیتا” (1954) کی بالترتیب 2002 اور 2005 کو ری میک بنائی گئیں۔ ان فلموں میں پچاس کی دہائی کی ساڑھی بلاؤز ڈیزائن کو ستاروں اور موتیوں کے ساتھ پیش کیا گیا۔ یہ نہایت ہی مہنگی ساڑھیاں تھیں جو یقیناً عام متوسط طبقے کی خاتون کے لئے نہ تھیں۔

اسی طرح سینما کی پیشکشوں میں "ون شولڈر بلاؤز” کو بھی فروغ دیا گیا۔ اس بلاؤز کے صرف ایک کندھے پر پٹّی ہوتی ہے جبکہ دوسرا کندھا عریاں رہتا ہے۔ بلاؤز کا یہ نیا ڈیزائن تاحال فیشن میں شامل ہے۔ فلم "محبتیں” (2000) میں ایشوریا رائے نے گلے پر گہرے کٹ والے بلاؤز کا استعمال کرکے کلیویج کو مزید دلکش بنایا۔ بعد میں دیگر اداکاراؤں کے ذریعے بھی اس ڈیزائن کی بھرپور اور کامیاب مارکیٹنگ کی گئی۔ سشمیتا سین نے فلم "میں ہوں ناں” (2004) میں بغیر آستین بلاؤز اور پیٹھ کی جانب انتہائی نچلے حصے پر ساڑھی باندھنے کا چلن پیش کیا۔ سشمیتا سین کی یہ ڈریسنگ ایلیٹ کلاس حلقوں میں کافی پسند کی گئی۔

ہندی سینما میں بکنی کا استعمال نیا نہیں ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد غالباً اداکارہ نوتن وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے فلم "دلی کا ٹھگ” (1958) میں بکنی پہنی۔ دیگر معروف اداکاراؤں میں شرمیلا ٹیگور فلم "ان ایوننگ ان پیرس” (1968) , ڈمپل کپاڈیہ فلم "بوبی” (1973) اور زینت امان فلم "قربانی (1980) شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ہیلن، سونم اور منداکنی سمیت متعدد خواتین بکنی شوٹ کرچکی ہیں۔
تاہم ان تمام اداکاراؤں کی بکنیاں عام مغربی طرز کی تھیں، جو بھارتی خواتین کی زندگی میں پہلے سے ہی شامل تھیں، اس لئے مردانہ بصری جنسی تلذذ کی حد تک ان کی اہمیت ضرور ہے لیکن فیشن پر انہوں نے کوئی خاص اثر نہیں چھوڑا۔ میری نگاہ میں پریانکا چوپڑا وہ پہلی اداکارہ ہیں جنہوں نے دیدہ زیب بکنی پہن کر اسے جدید بھارتی فیشن کا حصہ بنایا۔ انہوں نے فلم "دوستانہ” (2008) میں زرد رنگ کی چمکیلی بکنی چولی کا دلکش ڈیزائن متعارف کروایا جو مغرب اور بھارت کا مرکب ہے۔

اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں جدید ساڑھی بلاؤز فیشن کو فروغ دینے میں ٹی وی ڈراموں کا بھی اہم کردار نظر آتا ہے۔ ان ڈراموں میں "کیوں کہ ساس بھی کبھی بہو تھی” ، "کسوٹی زندگی کی” اور "کہانی گھر گھر کی” خاص طور پر بھارتی خواتین میں بہت زیادہ مقبول تھیں۔ ان ڈراموں میں نت نئے ڈیزائن متعارف کئے گئے۔ شوخ رنگوں کی پلین ساڑھیاں، بیل بوٹوں سے مزین، مختلف رنگوں و ستاروں پر مبنی جدید پیکو سمیت قسم قسم کے بلاؤز دیکھنے کو ملتے تھے۔

ان فلموں و ڈراموں نے بھارتی فیشن انڈسٹری کی ترقی میں نمایاں اضافہ کیا۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی پر بھی فیشن انڈسٹری کا مضبوط قبضہ نظر آتا ہے۔

اکیسویں صدی کی دوسری دہائی
اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں سوشل میڈیا مختلف سماجی تبدیلیوں کا اہم محرک بن کر سامنے آئی۔ سوشل میڈیا کے توسط سے اداکاراؤں نے اپنے پرستاروں سے براہِ راست تعلق قائم کیا۔ ان کے لباس کے نت نئے ڈیزائنز اب صرف سینما اسکرین کے ذریعے عوام تک نہیں پہنچ رہے تھے بلکہ اسمارٹ فون کی صورت بھی پہنچنے لگے۔

اسی طرح سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف قومی شناختوں نے بھی اپنی مقامی ثقافت کو فروغ دیا جس کے اثرات فیشن انڈسٹری پر بھی مرتب ہوئے اور انہوں نے مختلف قومی شناختوں کے پہناوے کو فلموں میں استعمال کرنا شروع کیا۔ اس دہائی میں بھی قسم قسم کے جدید فیشنز متعارف کئے گئے جو بھارتی خواتین کی زندگی کا حصہ بنتے گئے۔

فلم "راون (2011) کے گیت "چھمک چلّو” میں کرینہ کپور نے ساڑھی کا ایک انوکھا ڈیزائن پیش کیا۔ انہوں نے کمر پر بیل بوٹوں سے مزین بارڈر کے ساتھ ساتھ خوب صورت نقش و نگار پر مبنی ایک چوڑی پٹی سینے کے درمیان سے گزار کر کندھے پر ڈالی ہوئی تھی۔ کرینہ کپور کے اس انداز کو اعلی طبقے کی خواتین نے وسیع سطح پر اپنایا۔ اس پہناوے کو عام طور پر نجی محافل اور شادیوں میں پہنا گیا۔

اس دہائی میں جہاں بھارتی پنجابی خواتین کی گھیر دار شلوار اور چھوٹی قمیض سینما کے ذریعے شہری ثقافتوں کا حصہ بنی وہاں جنوبی ہندوستان کی دھوتی بھی ایک جدید شکل میں صورت پزیر ہوئی۔ دھوتی کو غالباً سب سے پہلے فیشن پر اثرانداز ہونے والی خوش لباس اداکارہ سونم کپور نے فلم "خوبصورت” (2014) کے گیت "ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے” سے متعارف کروایا۔
تاہم دھوتی ساڑھی کو شمالی ہندوستان میں مقبول بنانے کا اعزاز جنوبی ہند کی قابل فنکارہ انوشکا شیٹھی کو حاصل ہے۔ انوشکا شیٹھی نے فلم "باہو بلی”  (2015-2017) میں متاثر کن دھوتی ساڑھی پہنی۔ اس انداز میں ساڑھی کو دھوتی کی طرح باندھا جاتا ہے جس سے پنڈلیوں کے درمیانی حصے میں دراڑ بن جاتی ہے۔ انوشکا شیٹھی کے ذریعے اس فیشن نے ہندی سینما میں بھی جگہ بنالی اور بعد ازاں متعدد فلموں میں دھوتی ساڑھی کا بھرپور استعمال ہوا۔

جنوبی ہند کی ثقافت کو جدید شمالی فیشن سے ہم آہنگ کرنے کا فیشن البتہ اداکارہ دیپکا پڈکون کے سر جاتا ہے۔ دیپکا پڈکون نے فلم ”چنائی ایکسپریس“  (2013) میں جنوب اور شمال کی ساڑھی ثقافت کو یکجا کرکے پیش کیا۔ دیپکا چوں کہ فیشن پر اثرانداز ہونے والی اداکارہ ہیں اس لئے اس فلم میں ان کے پہناوے نے شمالی ہندوستان میں فیشن کا روپ دھار لیا۔ بعد میں اداکارہ عالیہ بھٹ نے فلم "2 اسٹیٹس” (2014) کے ذریعے اس فیشن کو دو آتشہ کر دیا۔

واضح رہے ان دونوں سے پہلے اداکارہ سوناکشی سنہا فلم "راوڑی راٹھور” (2012) میں بھی ایسی کوشش کرچکی تھی لیکن ان کا فیشن جدت سے محروم اور غیر متاثر کن رہا۔ غالباً اسی لئے فیشن انڈسٹری نے دیپکا اور عالیہ کے بلاؤز ڈیزائن اور ساڑھی کے رنگوں و میچنگ میں زیادہ فنکاری دکھائی۔

اس دہائی کے وسط میں پہلے سوشل میڈیا پھر سینما میں "ہاف شولڈر بلاؤز” کا چلن بھی شروع ہوا۔ اس قسم کے بلاؤز میں کندھوں کی پٹیاں وہاں سے کھسکا کر بازو پر باندھی جاتی ہیں۔ ہاف شولڈر بلاؤز فیشن کو آگے بڑھانے میں سونم کپور اور کرینہ کپور پیش پیش رہیں۔ بعد میں اس ڈیزائن کو مختلف تبدیلیوں کے ساتھ پیش کیا گیا۔

اس دہائی میں نریندر مودی کی پالیسیوں کے باعث ہندو قوم پرستی بھی ہندی سینما کا حصہ بنی۔ گوکہ ہندو قوم پرستی کے اثرات نوے کی دہائی سے ہندی سینما کو اپنی لپیٹ میں لے رہے تھے لیکن اس زمانے میں یہ اثرات مختلف علامتوں و تشبیہات کی صورت سامنے آرہے تھے۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ہندو قوم پرستی اور حب الوطنی ایک دوسرے میں گُڈمُڈ ہوگئے جس کی وجہ سے ایک بہت بڑی نظریاتی تبدیلی سامنے آئی۔ پچاس کی دہائی کی بھارتی قوم پرستی اب ہندو قوم پرستی کا روپ دھار چکی تھی۔ فیشن انڈسٹری کے سرمایہ داروں نے پینترا بدل کر پچاس کی دہائی کی فلمی ساڑھیوں کو جدید بنا کر قوم پرستانہ نکتہ نظر کے تحت ہندی سینما کا حصہ بنایا۔ ان ساڑھیوں کو یوں تو تقریباً تمام اداکاراؤں نے زیب تن کیا لیکن اداکارہ ودیا بالن کے سنجیدہ خانہ دار کردار زیادہ متاثر کن ثابت ہوئے۔

▪️حرفِ آخر

یہ بحث صرف ساڑھی، بلاؤز اور چولی تک ہی محدود تھا اس لئے فیشن کے دیگر اسٹائل کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس پوری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خواتین کے فیشن کو بدلنے میں ہندی سینما ایک زبردست کردار ادا کرتی رہی ہے۔ فیشن کا اثر مروجہ سماجی اقدار پر بھی پڑتا ہے اور وہ غیر محسوس طور پر بدل جاتے ہیں۔ بساں اوقات سماجی اقدار کے بدلنے سے نئے فیشن کے ضرورت پڑتی ہے۔ دونوں صورتوں میں ہندی سینما ایک طاقت ور محرک بن جاتی ہے۔

فلمیں ہماری زندگی پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ سینما کو محض وقت گزاری کا شعبہ سمجھ کر نظر انداز کرنا درست رویہ نہ ہوگا۔ سینما کے مختلف پہلوؤں کا مشاہدہ کرکے سمجھا جاسکتا ہے کہ فلمیں کس نظریے، سماجی قدر ، فیشن اور کس سوچ کو فروغ دے رہی ہیں۔ ہندی سینما کی اثر پزیری محض بھارت تک محدود نہیں ہے بلکہ یکساں تہذیب و تمدن اور مشترکہ تاریخی روایات کی وجہ سے وہ پاکستانی سماج پر بھی مثبت و منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ اسی طرح ہندی سینما صرف بھارتی سماج کے روایات کو ہی نہیں اپناتی بلکہ وہ پاکستان کے مختلف اقوام کی ثقافت سے بھی بعض چیزیں مستعار لیتی ہے۔ جیسے فلم "تنو ویڈز منو ریٹرنز” (2015) میں اداکارہ کنگنا راناوت نے بلوچ خواتین کے ثقافتی لباس کو پیش کیا۔

نوٹ: اس تحریر کو لکھنے میں قلمکار نے جہاں اپنی طویل فلم بینی کے تجربے و مشاہدے کو استعمال کیا وہاں بھارت کے متعدد فیشن میگزینز اور سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھی جانے والی کتابوں و مضامین سے بھی مدد لی ہے۔ یہ تحریر سانگس ان اردو بلاگ اسپاٹ کے شکریے کے ساتھ شائع کی گئی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close