امریکا نے ڈرون حملے میں افغان امدادی کارکن اور بچوں کو نشانہ بنادیا

نیوز ڈیسک

کابل : امریکا افغانستان سے انخلا سے قبل اپنے آخری ڈرون حملے میں بھی بے گناہ شہریوں کی جان لے کر اپنے مظالم کی نشانی چھوڑ گیا

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے افغان دارالحکومت کابل میں امریکی ڈرون حملے میں داعش کے دہشت گرد کی ہلاکت کے دعوے کو پنٹاگون اور سی آئی اے کا سفید جھوٹا قرار دیا ہے

امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکی ڈرون حملے نے ایک امریکی این جی او کے لیے کام کرنے والے انجنيئر اور اس کے اہل خانہ کی جان لی

26 اگست کو کابل ایئرپورٹ پر خودکش بم دھماکے میں عام شہریوں، طالبان اور امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد 28 اگست کو امریکا نے کابل کے گنجان آبادی والے محلے میں ایک گھر کے باہر کھڑی گاڑی پر ڈرون حملہ کرکے داعش کے دہشت گرد کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا

اس ڈرون حملے میں سات بچوں سمیت دس  افراد شہید ہوئے تھے۔ شہید کمسن بچوں میں سات سالہ فرزاد، تین سالہ ملیکہ، دس سالہ فیصل، دو سالہ آیت، تین سالہ بن یامین، چار سالہ ارمین اور دو سالہ سمیہ شامل تھے

امریکی حکام نے دعویٰ کیا تھا اس گاڑی میں بارود سے بھرے کین موجود تھے اور جاں بحق شخص امریکی فوجیوں پر حملہ کرنے والا تھا۔ امریکی فوج نے اس گاڑی کو فوری خطرہ قرار دے کر اس پر ڈرون حملہ کر دیا

تاہم نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ڈرون کا نشانہ بننے والی گاڑی افغان الیکٹریکل انجینئر زیماری احمدی کی تھی جو کام سے گھر لوٹا تھا اور امریکی این جی او نیوٹریشن اینڈ ایجوکیشن انٹرنیشنل کا ملازم تھا۔ زیماری نے امریکا میں پناہ گزین بننے کے لیے درخواست بھی دی تھی۔ زیماری احمدی کیلیفورنیا کی امدادی تنظیم کے لیے کام کرتا تھا اور فلاحی کاموں کے باعث اہل علاقہ میں بہت مقبول تھا

وہ اپنے تین بھائیوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ رہتا تھا اور اپنی موت سے قبل اس نے ایک علاقے میں جاکر بچوں میں خوراک بھی تقسیم کی تھی۔ جوں ہی وہ پانی لے کر اپنے گھر کے احاطے میں داخل ہوا تو اس کے بچے، بھتیجے بھتیجیاں اس سے ملنے اس کی طرف لپکے ہی تھے کہ ان پر قیامت ٹوٹ پڑی اور فضا خون آلود ہوگئی

ڈرون حملے کے بعد ہر طرف قیامت کا منظر تھا اور بچوں کے کٹے پھٹے اعضا بکھرے پڑے تھے۔ ایک گھر کے 10 جنازے ایک ساتھ اٹھنے پر ہر آنکھ اشک بار ہو گئی اور پرسوز مناظر دیکھے گئے

امریکی فوج نے کہا تھا کہ زیماری احمدی سفید کار میں سوار تھا جسے آٹھ گھنٹے تک ڈرون کے ذریعے ٹریک کیا گیا تھا۔ وہ کار دھماکہ خیز مواد سے بھری ہوئی تھی۔ لیکن امریکی اخبار نے سیکورٹی کیمرے کی وڈیوز جاری کیں ہیں، جن سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ اس کار میں بارود نہیں بلکہ پانی کے کین رکھے تھے جو زیماری اپنے گھر کے لیے لایا تھا

اپنے اس گھناؤنے اور دہشت گردی پر مبنی حملے کے بعد امریکی فوج کے چیئرمین جوانٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک اے ملی نے وضاحتیں پیش کیں کہ ڈرون حملے کے بعد ایک اور دھماکا ہوا تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کار میں بارود تھا، لیکن نیویارک ٹائمز نے حملے کے فوراً بعد جائے وقوعہ کے معائنے اور جائزے میں بتایا کہ کوئی دوسرا دھماکا نہیں ہوا تھا۔ ماہرین نے بھی واقعے کی وڈیوز اور تصاویر کا جائزہ لینے کے بعد نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ ڈرون حملے کے بعد کوئی دوسرا دھماکہ نہیں ہوا تھا

برطانوی سابق فوجی اور سیکیورٹی مشیر کرس کوب اسمتھ نے اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے سے ہدف کو پہچاننے کی امریکی انٹیلی جنس اور ٹیکنالوجی کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close