اب درخت کے پتوں سے آلودگی کی شدت کا اندازہ لگایا جائے گا

ویب ڈیسک

شہروں کے آلودہ ماحول میں دھویں کی آلودگی کی پیمائش کے لئے مہنگے اور حساس سینسر لگائے جاتے ہیں، لیکن اب خود درخت کے پتوں پر جمع ہونے والے مقناطیسی ذرات سے آلودگی کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکے گا۔

تفصیلات کے مطابق یونیورسٹی آف یوٹاہ کے ماہرین نے تجربات کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ خود درختوں کے پتے آلودگی کا سینسر بن سکتے ہیں۔

مایرین کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کے دھویں اور رکازی ایندھن جلنے کے بعد معمولی مقدار میں مقناطیسی ذرات خارج ہوتے ہیں، جو پتوں پر جمع ہو کر آلودگی کا ثبوت بنتے رہتے ہیں۔ اس طرح پتوں کو دیکھ کر اطراف کی ہوا اور فضا کے معیار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یوں درختوں کے پتوں پر جمع ہونے والے مقناطیسی ذرات شہری علاقوں میں ہوا کے معیار کی خبر دے سکتے ہیں۔

تاہم مقناطیسی ذرات اتنے باریک ہوتے ہیں کہ عام انسانی آنکھ سے ان کو دیکھ پانا ممکن نہیں  بلکہ انہیں ان حساس میگنیٹو میٹر سے ہی نوٹ کیا جاسکتا ہے، جو ماہرِ ارضیات مختلف تحقیقات میں استعمال کرتے ہیں

ماحولیاتی سائنسدانوں نے پائن (صنوبر) کے درخت کے نوکدار ابھار جمع کئے، جو یونیورسٹی آف یوٹاہ کیمپس کے احاطے میں لگے درختوں سے اتارے گئے تھے۔ ان میں سے تین درخت سڑک کنارے واقع تھے جہاں روزانہ ٹریفک گزرتا ہے جبکہ چوتھا درخت ٹریفک سے دور تھا۔ لیکن اس کا موازنہ اس دَور سے بھی کیا گیا جب روایتی آلات نے یوٹاہ میں ہوا کا معیار بہتر اور بدتر ثابت کیا تھا ۔

الیکٹرون مائیکرو سکوپی اور میگنیٹو میٹر کی بدولت تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ جو پتے فضائی آلودگی کے دَور میں لئے گیے تھے وہ صاف ہوا والی اوقات کے مقابلے میں مقناطیسی ذرات سے تین گنا زائد اٹے ہوئے تھے

دلچسپ بات یہ ہے سائنسدانوں نے آلودہ ترین مقامات والے درختوں کے پتوں سے ٹائٹانیئم، وینیڈیئم اور زرکونیئم جیسے عناصر بھی دیکھے جن کا تعلق براہِ راست گاڑیوں کی آلودگی سے ہوتا ہے۔

اسی تصور کو آگے بڑھاتے ہوئے ماہرین نے تھری ڈی پرنٹر سے صنوبر کے درخت کی ایک مصنوعی شاخ تیار کی جس پر صنوبر درخت کی طرح سوئیاں تھیں۔ اس آلے کے ذریعے وہ مزید تحقیق کرکے یہ جان سکیں گے کہ آیا ان پر بھی مقناطیسی ذرات جمع ہوسکتے ہیں یا نہیں۔ اس کے علاوہ یہ مصنوعی آلہ برسات کی مقدار بھی نوٹ کرتا رہے گا۔

مصنوعی شاخ سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ آخر صنوبر کے اصلی درختوں پر بارش سے مقناطیسی ذرات دھل جاتے ہیں یا نہیں کیونکہ اس صورت میں تحقیقات اور نتیجہ اخذ کرنے میں غلطی ہوسکتی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ مصنوعی درخت کو باآسانی 250 ڈالر میں تیار کیا جاسکتا ہے یہ پورے ماحول اور فضائی کیفیات کا ریکارڈ مرتب کرسکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close