دستورِ زباں بندی کی تازہ حلال حرام رپورٹ

وسعت اللہ خان

سال دو ہزار اکیس کے گیارہ ماہ کے دوران ایک سو آٹھ نئی گرفتاریوں کے بعد دنیا کی جیلوں میں پڑے صحافیوں کی تعداد دو سو ترانوے تک پہنچ گئی ہے۔کم ازکم چوبیس صحافی اس عرصے میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض ادا کرتے ہوئے قتل ہوئے

دیگر اٹھارہ صحافیوں کی موت ایسے حالات میں ہوئی جن کی وجوہات کا حتمی تعین فی الحال مشکل ہے۔یہ اعداد و شمار صحافیوں کے تحفظ اور آزادیِ اظہار کے امور سے متعلق بین الاقوامی تنظیم سی پی جے کی تازہ رپورٹ میں سامنے آئے ہیں

اگرچہ ہر ملک میں صحافیوں کو پابندِ سلاسل کرنے کے لیے طرح طرح کے قانونی جوازات کا سہارا لیا جاتا ہے، مگر جو مجموعی تصویر بن رہی ہے اس کے مطابق دنیا میں حقائق کی آزادانہ ترسیل کے ضمن میں ریاستوں اور غیر ریاستی عناصر کی قوتِ برداشت سال بہ سال کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ سی پی جے کا کہنا ہے کہ پچھلے چھ برس سے سال بہ سال پابندِ سلاسل صحافیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے

اکثر حکومتیں خبر کا آزادانہ بہاؤ کنٹرول کرنے کے لیے تمام دستیاب حربے استعمال کرنے میں پہلے سے زیادہ سنجیدہ ہیں اور یہ کام اب کھلم کھلا ہو رہا ہے۔ یعنی سرکاروں میں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی آمرانہ مزاج زور پکڑتا جا رہا ہے اور اس کا ایک بڑا سبب ایسی حرکتوں پر نگاہ رکھنے یا نوٹس لینے والے اداروں، فورمز بالخصوص عدالتی نظام پر ہر جانب سے اور ہر انداز میں مسلسل بڑھتا دباؤ بھی ہے

سی پی جے نے انیس سو بانوے سے اعداد و شمار جمع کرنے شروع کیے۔ مگر سال دو ہزار اکیس ختم ہونے سے پہلے پابندِ سلاسل صحافیوں کی مجموعی تعداد نے گزشتہ انتیس برس کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ان انتیس برسوں میں کم ازکم چودہ سو چالیس صحافی فرائض کی انجام دہی کے دوران موت کا شکار ہوئے

رپورٹ کے مطابق رواں برس کئی نئی تبدیلیاں اور واقعات بھی دیکھنے میں آئے، جنہوں نے میڈیا کے پیشے کو اور خطرناک بنا دیا۔ مثلاً ہانگ کانگ اور شن جیانگ صوبے میں آزادانہ رپورٹنگ کا دائرہ مزید تنگ کرنے کے لیے نئے اور کڑے قوانین کا سہارا لیا گیا

بیلا روس میں حزبِ اختلاف کے خلاف کریک ڈاؤن ، فروری میں میانمار میں فوج کی جانب سے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سول سوسائٹی اور میڈیا کو مسلسل ہدف بنانے کا پرتشدد ریاستی رجحان اور شمالی ایتھوپیا میں نسلی خانہ جنگی میں شدت جیسی پیش رفت نے میڈیا کارکنوں کی زندگی مزید اجیرن کر دی ۔ امسال  پہلے گیارہ ماہ میں چین میں ساٹھ صحافی گرفتار ہوئے جو کہ کسی ایک ملک میں گرفتاریوں کی سب سے بڑی تعداد ہے

میانمار میں چھبیس، مصر میں پچیس ، ویتنام میں تئیس اور بیلاروس میں انیس صحافی گرفتار ہوئے۔  ہانگ کانگ میں گزشتہ برس قومی سلامتی کے تحفظ کے نام پر ایک نیا قانون نافذ ہوا جس کے تحت تخریبی سرگرمیوں اور علیحدگی پسندانہ رجحانات کی حوصلہ افزائی اور غیرملکی طاقتوں سے ساز باز کے الزام میں عمر قید بھی ہو سکتی ہے۔ اس قانون کے تحت ہانگ کانگ کی تاریخ میں پہلی بار متعدد صحافیوں پر مقدمات قائم کر کے انھیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا

گزشتہ کئی برس کی طرح اس برس بھی میکسیکو نے صحافت کے لیے سب سے پرتشدد جنوبی امریکی ملک ہونے کا اعزاز برقرار رکھا۔یہاں کے صحافیوں کو ایک مدت سے بدعنوان افسر شاہی اور ڈرگ مافیا سمیت متعدد جرائم پیشہ منظم گروہوں کی جانب سے دہرے جسمانی خطرے کا سامنا ہے

رپورٹ میں ترکی کا بھی تذکرہ ہے، جہاں چند برس پہلے صحافیوں کی ریکارڈ تعداد جیلوں میں تھی، مگر اب ترکی عالمی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔ سعودی عرب میں اگرچہ اس برس صحافت سے منسلک افراد کی گرفتاریاں کم تعداد میں ہوئی ہیں، لیکن میڈیا قوانین کی سختی اور نفاذ میں کوئی لچک نظر نہیں آ رہی

جن ممالک میں گرفتار صحافیوں کی تعداد میں گزشتہ برسوں کی نسبت بظاہر کمی دیکھنے میں آئی وہاں ریاستی اداروں نے آزادانہ رپورٹنگ کنٹرول کرنے کے لیے جدید ترین سراغرساں آلات کے وسیع استعمال اور انٹرنیٹ سے متعلق قانون سازی میں سختی اور صحافیوں کو گمنام طریقوں سے انفرادی طور پر ہراساں کرنے کے رجحان کو نیا ہتھیار بنا لیا ہے۔ یہ ہتھیار متعدد حالتوں میں قید کرنے یا منہ بند کرنے کے روایتی ہتھکنڈوں سے زیادہ موثر ثابت ہو رہا ہے

رپورٹ میں کہا گیا کہ اس برس برما اور ایتھوپیا میں اطلاعات کی آزاد رسائی روکنے کے لیے کسی بھی پرتشدد حربے کا استعمال دیگر ممالک کے موازنے میں زیادہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ رپورٹ میں بھارت اور بنگلہ دیش کا بھی تذکرہ ہے۔ مگر ان ممالک میں چونکہ سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کو خاموش رکھنے کا رجحان زیادہ ہے اور صحافیوں کو براہِ راست نشانہ بنانے یا قید کرنے کے واقعات دیگر ممالک کی نسبت تعداد میں کم ہیں۔اس لیے دونوں ممالک اس رپورٹ کی عالمی رینکنگ میں نیچے ہیں

اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان ممالک میں میڈیا براہِ راست یا بلاواسطہ دباؤ یا خوف کا شکار نہیں۔ اگر بلاواسطہ دباؤ کو معیار بنا کے کوئی رپورٹ مرتب کی جائے تو لگ بھگ دو سو ممالک میں سے شائد بیس تا پچیس ممالک ہی ایسے نکلیں جہاں میڈیا بلا خوف اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائی میں آزاد ہو

سی پی جے جیسے اداروں کی رپورٹوں سے اگرچہ میڈیا کی سال بہ سال حالتِ زار کا تو اندازہ ہو جاتا ہے، لیکن کیا اس طرح کی رپورٹوں کی روشنی میں حکومتیں کچھ نہ کچھ خجل ہو کر اپنے اپنے رویوں پر تھوڑی بہت مثبت نظرِ ثانی بھی کرتی ہیں؟ اس کے شواہد نہ ہونے کے برابر ہیں

وہ ممالک جن کے نام ایسی رپورٹوں میں آتے ہیں، انہیں بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیتے ہیں۔ البتہ کسی حریف ملک کا نام بھی اگر اس میں شامل ہو تو اس کے خلاف جاری پروپیگنڈہ مہم میں ان اعداد و شمار کا حوالہ دینے سے کبھی نہیں چوکتے۔ یعنی ہر ملک کے لیے ایسی رپورٹیں بیک وقت حلال بھی ہیں اور حرام بھی۔

(بشکریہ ایکسپریس نیوز)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close