پاکستان کی کم عمر ترین خاتون ریسر کون اور کہاں سے ہیں؟

نیوز ڈیسک

پشاور – رواں ہفتے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں ایک جیپ ریس میں پاکستان کی کم عمر ترین پندرہ سالہ عائشہ نے خواتین کی کیٹیگری میں پہلی پوزیشن حاصل کی

ریس میں کُل 61 مرد اور خواتین نے حصہ لیا، جن میں شامل ساتویں جماعت کی ایک طالبہ عائشہ تین کلومیٹر برفیلی ٹریک کو ایک منٹ 45 سیکنڈز میں مکمل کرتے ہوئے مقابلے کی فاتح قرار پائیں

کالام کے پہاڑوں میں آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع شاہی گراؤنڈ میں جیپ ریس کا یہ مقابلہ ‘فرنٹئیر فور بائے فور کلب’ نے سوات کی ضلعی انتظامیہ اور پاک وہیلز کے تعاون سے منعقد کیا تھا، جنہوں نے پہلی مرتبہ پاکستان میں موٹر اسپورٹ میں انڈر19 مقابلوں کو بھی متعارف کروایا

اس بار انڈر19 کی فاتح عائشہ کا تعلق سوات سے ہے، ان کا خاندان تعلیم کے سلسلے میں کئی دہائیاں قبل پشاور منتقل ہوگیا تھا

عائشہ نے بتایا کہ ریسنگ کا شوق انہیں بچپن سے تھا اور وہ چاہتی تھیں کہ اس شعبے میں اپنا اور ملک کا نام روشن کریں

انہوں نے بتایا کہ فرنٹئیر فور بائے فور کلب کے صدر بابر خان یوسف زئی میرے والد ہیں۔ وہ خود بھی ایک ریسر ہیں۔ والد کو دیکھ دیکھ کر میں اس جانب مائل ہوگئی

عائشہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے کئی سالوں کی مشق سے مجھے اس قابل بنایا کہ میں باقاعدہ طور پر مقابلوں میں حصہ لے سکوں

عائشہ کے مطابق ”میں نے مقابلوں میں حصہ لینے کا آغاز پچھلے سال کیا تھا، تاہم اپنی بعض غلطیوں کی وجہ سے کچھ خاص کامیابی حاصل نہیں کی. میں نے اپنی غلطیاں ذہن نشین کی ہوئی تھیں اور تہیہ کیا ہوا تھا کہ ان کو نہیں دہرانا۔ پچھلے سال کے مقابلے میں میری خود اعتمادی بھی بڑھ چکی تھی۔ حالانکہ یہ ایک پُرخطر برف سے ڈھکا ٹریک تھا۔“

عائشہ کے بقول اس وقت پاکستان میں کُل دس خواتین ریسرز میں وہ سب سے کم عمر ترین ہیں

انہوں نے دیگر لڑکیوں کے نام ایک پیغام میں بتایا: ’جو لڑکیاں میری طرح ریسر بننا چاہتی ہیں، تو اس کھیل کی تربیت وہ مفت میں فرنٹئیر فور بائے فور کلب سے حاصل کرسکتی ہیں۔ تربیت لینے کے لیے ابتدائی طور پر انہیں جیپ کی بھی ضرورت نہیں۔‘

عائشہ کے والد بابر خان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کی ریسنگ کے شعبے میں دلچسپی اور سنجیدگی سے بہت خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ مستقبل کی ایک کامیاب عالمی ریسر بنیں

انہوں نے کہا کہ ان کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ موٹر اسپورٹ کو پاکستان میں پہچان ملے اور مردوں کے ساتھ خواتین بھی اس میں آگے بڑھیں

انہوں نے کہا کہ میں نے اس کلب کا آغاز دس سال قبل کیا تھا، جو اس وقت پاکستان کے کُل بارہ کلبوں میں سب سے بڑا کلب بن چکا ہے

وہ کہتے ہیں ’کوئی بھی خاتون جو تربیت حاصل کرنا چاہتی ہے، ان کے لیے اس کھیل میں سنجیدگی دکھانا پہلی اور لازمی چیز ہے۔‘

بیک بی جے 40: پاکستان میں تیار رینگلر جیسی شکاری جیپ
فرنٹئیر فور بائے فور کلب کے مطابق، پاکستان میں موٹر اسپورٹ کو 2021 تک قومی کھیل کی حیثیت اور شناخت حاصل نہیں تھی، یہی وجہ ہے کہ پچھلے سال جب اس کو ایک رجسٹرڈ کھیل کی پہچان ملی تو ان کے کلب نے یہ مطالبہ شروع کیا کہ فٹ بال، کرکٹ اور دیگر کھیلوں کی طرح موٹر اسپورٹ میں بھی انڈر 19 کے مقابلے ہونے چاہئیں

کلب کے صدر بابر خان یوسف زئی کہتے ہیں کہ کسی کھیل میں شمولیت کے لیے اٹھارہ سال کی عمر تک انتظار کرنا ایک مضحکہ خیز بات ہے

انہوں نے بعض ناقدین کی جانب سے اس تنقید کو بھی مسترد کیا کہ موٹر اسپورٹ میں لائسنس کی ضرورت ہوتی ہے

ان کے مطابق: ’یہ ایک آف روڈ کھیل ہے اور ٹریک پر مقابلے کے وقت عام سڑک کی طرح اصول لاگو نہیں ہوتے۔ اسی لیے اس میں عمر کی حد یا لائسنس بھی ضروری نہیں ہوتا۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close