”بائیکاٹ مری مہم“ ہوٹلوں کا کرایہ پچاس ہزار! حقیقت کیا ہے؟

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – ملک بھر سے چھٹیوں میں سیاحت کے لیے ملکہ کوہسار جانے والے اب وہاں حالیہ برفباری کے دوران پھنسنے والے سیاحوں کو درپیش مشکلات کو دیکھتے ہوئے مری کے بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں

تاہم بائیکاٹ کی یہ مہم مری میں سیاحوں کی ہلاکتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ شدید برفباری کے دوران ہوٹل کے کرائے اور دیگر ضروریات زندگی کے منہ مانگے دام وصول کرنے کے باعث سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہی ہے

واضح رہے کہ سیاحتی مقام مری میں سیر کے لیے جانے والے افراد شدید برفباری میں پھنس گئے تھے۔ وقت پر مدد نہ ملنے کے باعث خواتین اور بچوں سمیت 22 افراد شدید سردی میں ٹھٹھر کر اور گاڑیوں میں ہیٹر چلانے کے باعث دم گھٹنے سے جاں بحق ہوگئے تھے

شوبز سے کنارہ کشی اختیار کرنے والی سابق گلوکارہ رابی پیرزادہ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مری میں برفباری میں پھنسے سیاحوں سے مقامی لوگوں نے اشیائے خورونوش اور ہوٹل کے کرائے کی مد میں بھاری رقم کا مطالبہ کیا۔

رابی پیرزادہ نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک سیاح کی گفتگو شیئر کی ہے، جس میں اس نے مری کے مقامی لوگوں کو منافق قرار دیتے ہوئے مقامی لوگوں کی جانب سے سیاحوں سے بھاری رقم لیے جانے کا انکشاف کیا ہے

رابی پیرزادہ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ پر برف میں پھنسی ایک بس کی تصویر شیئر کرتے ہوئےلکھا یہ تصویر میں نے خود کھینچی تھی۔ اور جو کچھ نیچے کسی بھائی نے لکھا ہے وہ حرف بہ حرف سچ ہے

بقول ان کے، دو رات پہلے مری میں برف میں پھنسے ہوئے خاندانوں کو مری کے لوگ پانچ سو روپے کا ایک انڈہ فروخت کر رہے تھے، ہوٹل کمرے کا کرایہ تیس ہزار سے پچاس ہزار مانگ رہے تھے اور پانی کی بوتل پانچ سو کی بیچ رہے تھے

انہوں نے لکھا ”چھوٹی گاڑی کو دھکا لگانے کا تین ہزار اور بڑی گاڑی کو دھکا لگانے کا پانچ ہزار لے رہے تھے۔ آج سارے مددگار بنے ہوئے ہیں ہوٹل مالکان بھی نیک بن گئے۔ منافق قوم۔ ایک سیاح کی گفتگو‘‘

رابی پیرزادہ کے علاوہ بھی سوشل میڈیا پر اس طرح کی لاتعداد پوسٹس گردش کر رہی ہیں، جن میں اس طرح کی باتیں کی گئی ہیں

یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے، جب مری کے حوالے سے اس طرح کی خبریں منظر عام پر آئی ہوں، بلکہ اس سے قبل بھی ہوٹل مالکان کی طرف سے من چاہے کرایے وصول کرنے اور سیاحوں سے جھگڑنے کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں

لیکن کیا واقعی حالیہ شدید برفباری کے دوران تمام ہوٹل مالکان نے کرائے بڑھا دیے تھے؟

اس حوالے سے مری کے ایک ہوٹل پر کام کرنے والے عمیر عباسی نے بتایا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ مری میں کچھ ہوٹل مالکان نے کرائے بڑھا دیے تھے اور دیگر اشیا بھی مہنگی کر دی تھیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کالی بھیڑیں ہرجگہ ہوتی ہیں اور مری میں صرف مقامی لوگوں کے ہوٹلز نہیں، بلکہ دیگر علاقوں سے آ کر بھی لوگ یہ کاروبار کر رہے ہیں۔ میں خود لاہور کے دو ایسے ہوٹل مالکان کو جانتا ہوں جنہوں نے کمروں کے کرائے بڑھا دیے تھے۔‘

عمیر عباسی نے تصویر کا دوسرا رُخ دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ بعض ایسے ہوٹل مالکان کو بھی جانتے ہیں کہ جیسے ہی ان کو حالات کا پتہ چلا انہوں نے ملازمین کو یہ ہدایات جاری کیں کہ اگر کوئی ضرورت کے وقت آتا ہے، تو اس سے پیسے نہ لیے جائیں

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسی طرح یہاں ایک ایسا ہوٹل بھی ہے جس کی انتظامیہ نے اپنے ہوٹل میں سب کچھ فری کر دیا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’حکومت کو سانحے کے رونما ہوجانے کے بعد ہوش آیا اور انہوں نے لوگوں سے گذارش کی کہ برفباری میں گاڑیوں میں پھنسے افراد کی مدد کی جائے۔ لیکن اس سے قبل ہی مری ہوٹل ایسوسی ایشن کے ذمہ داران یہ اعلان کر چکے تھے کہ ہوٹلوں میں آنے والے افراد کی ہر ممکن مدد کی جائے۔‘

مری میں امدادی کارروائیوں کے بعد حالات معمول کی طرف آنا شروع ہو گئے ہیں تاہم سوشل میڈیا پر بائیکاٹ مری کا ٹرینڈ جاری ہے

متعدد سوشل میڈیا صارفین مری کو چھوڑ کر ملک کے دیگر سیاحتی مقامات پر جانے کا مشورہ دے رہے ہیں، جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ مری کا بائیکاٹ مسئلے کا حل نہیں

ٹوئٹر صارف تسمیہ مغل لکھتی ہیں کہ ’ہم سمجھدار لوگ ہیں ہم جانتے ہیں ہمارے لیے کیا بہتر ہے۔ گھر پر رہیں اور خود کو محفوظ رکھیں۔ ان دنوں مری میں ایک مافیا ہے، جو ہر چیز دگنی قیمت پر بیچ رہے ہیں۔‘

بعض سوشل میڈیا صارفین بائیکاٹ کی مہم پر سوال بھی اٹھا رہے ہیں۔ انہی میں سے خرم میمن بھی ہیں، جن کا خیال ہے کہ ’بائیکاٹ کیوں؟ قواعد ضوابط کے تحت کیوں نہیں چلایا جا سکتا؟ اگر سیاحت ایک انڈسٹری ہے، تو اس کو چلانے والے کہاں ہیں؟‘

انہوں نے مزید لکھا کہ ’کرائے اور سہولیات کا فیصلہ کون کرے گا؟ یہ بے کار ٹرینڈ صرف ایڈمنسٹریشن کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے ہے۔‘

ٹوئٹر صارف طلال خان نے لکھا کہ ’ہم نے کتنی بار مری کا بائیکاٹ کرنے کی کوشش کی، ہر مرتبہ ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ ہر حکومت اس مافیا کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button
Close
Close