لاہور دھماکہ: نو برس کا ابصار ’کراچی پہنچ کر حفظ میں داخلہ‘ لینا چاہتا تھا

نیوز ڈیسک

لاہور – صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گزشتہ روز بم دھماکے میں ہلاک ہونے والے نو برس کے ابصار کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع مظفر آباد کی وادی کوٹلہ کے گاؤں تلگراں سے ہے، جنہیں ان کے ماموں نے بچپن میں گود لیا تھا

لاہور کے علاقے انارکلی میں ہونے والے اس دھماکے میں تین افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ابصار کے والد الطاف اعوان نے بتایا کہ ابصار بدھ کی رات کو کراچی سے آئے ہوئے اپنے ماموؤں، ممانیوں، ایک خالہ اور ان کی بیٹی کے ہمراہ مظفرآباد سے لاہور پہنچا تھا

انہوں نے بتایا کہ آج لاہور میں ابصار سمیت کچھ رشتے داروں کا مینارِ پاکستان سمیت دیگر مقامات پر سیر و تفریح کا پروگرام تھا

بم دھماکے کے وقت ابصار کے ساتھ موجود ایک ماموں فیضان کے مطابق، اُن کے بھائی سلیمان کی کوئی اولاد نہیں تھی لہٰذا اُنہوں نے اپنے بہنوئی آفتاب سے ابصار کو بچپن میں اسی وقت گود لے لیا، جب اس کے والدین کراچی میں ہی رہتے تھے

چنانچہ ابصار زیادہ وقت اپنے ننھیال میں رہا، جبکہ کچھ وقت وہ اپنے والدین کے ساتھ کراچی میں رہا مگر تین سال قبل ابصار والدین کے ہمراہ کراچی سے کشمیر آ گیا۔ پھر اس کا جب جی چاہتا تو کراچی چلا جاتا اور جب جی چاہتا مظفر آباد آ جاتا

اُنہوں نے بتایا کہ گذشتہ ماہ ابصار نے سلیمان بھائی سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ جلدی مظفر آباد آئیں تاکہ وہ ان کے ہمراہ واپس کراچی جا سکے

فیضان نے لاہور میں ہونے والے المناک حادثے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ”آج صبح ہم لاہور پہنچے، لاہور میں قیام و سیر و تفریح کے بعد کل کراچی کے لیے روانہ ہونا تھا۔“

اُنھوں نے بتایا ”ہم سارے ابصار سمیت خاندان کے سات افراد انار کلی کے قریب ایک ہوٹل میں رہائش پذیر تھے، جہاں سے ہم دن کا کھانا کر انار کلی بازار نکل گئے۔“

فیضان کے مطابق ”میں اور دیگر فیملی کے افراد انارکلی بازار میں اندر والی طرف خریداری کر رہے تھے، جبکہ ابصار، میرے بھائی سلیمان اور ان کی اہلیہ بازار کی باہر والی جانب ابصار کے لیے جوتے خرید رہے تھے، کہ اچانک دھماکہ ہوا جس میں یہ تینوں زخمی ہو گئے۔ بھابھی زیادہ زخمی نہ تھیں، اس لیے بھائی نے اپنے زخموں کی پرواہ کیے بغیر بھابھی اور دیگر لوگوں کی مدد سے ابصار کو ہسپتال پہنچایا جہاں وہ آدھا گھنٹہ زندہ رہا اور پھر چل بسا۔“

ابصار کے والد آفتاب کا کہنا ہے کہ ’ابصار کے پیٹ میں بم دھماکے سے نکلنے والے لوہے کے ٹکڑے لگے تھے، جس سے وہ شدید زخمی ہوا اور ہسپتال پہنچ کر اس کے دل کی دھڑکن بند ہو گئی جس سے اس کی موت واقع ہوئی۔‘

ابصار کے باہمت والد آفتاب اعوان دارالحکومت مظفر آباد میں ایک پرائیویٹ ملازمت کرتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’ابصار تیسری جماعت کا طالب علم تھا، جو بہت ذہین اور فرمانبردار بچہ تھا۔ اسے قرآن حفظ کرنے کا بہت شوق تھا، کراچی پہنچ کر وہ حفظ میں داخلہ لینا تھا۔‘

آفتاب کے مطابق ابصار کی والدہ کا تعلق کراچی سے ہے، کچھ دن قبل ابصار کے ماموں و دیگر افراد کراچی سے ان کے گاؤں تلگراں میں ملنے آئے تھے

آفتاب کا کہنا تھا کہ ’ابصار ماموں و دیگر کے ہمراہ کراچی روانہ ہوتے وقت بہت خوش تھا اور میری بدھ کی رات گئے اس سے آخری بار بات ہوئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا، لیکن ہم اس کی رضا پر راضی ہیں۔‘

واضح رہے کہ کالعدم بلوچ نیشنلسٹ پارٹی کے ترجمان مرید بلوچ نے ٹوئٹر پر اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں بینک کے عملے کو ہدف بنایا گیا تھا۔ ان کے مطابق اس متعلق ایک تفصیلی بیان جلد جاری کیا جائے گا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close