”لاڑکانہ کا عمدہ مہک اور مٹھاس والا ’بے نظیر‘ امرود“ کاشتکار ملی بگ اور فروٹ فلائی کا تدارک کیسے کرتے ہیں؟

نیوز ڈیسک

لاڑکانہ – امرود، جسے غریبوں کا سیب کہا جاتا ہے۔ اس کا آبائی وطن شمالی امریکا (میکسیکو) اور جنوبی امریکا (پیرو) کا درمیانی علاقہ ہے، وہاں سے یہ دنیا کے دوسرے ممالک مثلاً کیوبا، کیلیفورنیا، برازیل، ہوائی، ملایا، ہندوستان اور پاکستان میں پھیلا اور غذائی خصوصیات اور اچھا ذائقہ رکھنے کی بدولت اب پوری دنیا میں کاشت ہو رہا ہے۔

امرود کا نباتاتی نام (Psidium guajava) ہے. امرود کا شمار قوت مدافعت بڑھانے والے چند پھلوں میں کیا جاتا ہے۔ یہ ایک اینٹی آکسیڈنٹس پھل ہے، جس میں وٹامن سی، فائبر، کیلشیم، آئرن، سوڈیم، میگنیشیم، بی3، بی6، کاربوہائیڈریٹ، پروٹین اور شوگر پائی جاتی ہے۔ یہ پھل بہت سی خصوصیت کا حامل ہے۔ خاص طور پر نظام انہضام کی بہتری، کولیسٹرول کی بڑھی ہوئی مقدار کو کم کرنے، بڑھے ہوئے وزن کو کم کرنے، جلد کو خوبصورت بنانے اور بہت سی بیماریوں سے محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ طبی تحقیق کے مطابق اس کے کئی دیگر فوائد بھی ہیں

امرود پاکستان کا چوتھا اہم پھل ہے. اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت کی تنظیم (ایف اے او) کے مطابق پاکستان امرود پیدا کرنے والے صف اول کے دس ممالک میں شامل ہے، جو گرم، مرطوب مگر خشک موسم اور اچھی زرخیز زمین سے مالا مال ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان اعلیٰ معیار کے امرود اگاتا ہے، جو برطانیہ، امریکا، افغانستان، مالدیپ، عمان، قطر، متحدہ عرب امارات اور چین سمیت کئی ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔ مٹی کا منفرد معیار، درجۂ حرارت اور امرود اگانے کی ایک طویل تاریخ پاکستانی امرود کو ذائقے اور خوشبو میں خاص بناتی ہے

پاکستان میں امرود کی اوسط قومی پیداوار 4.7 ٹن فی ہیکٹر ہے، جو ضرورت سے کم ہے۔ صوبہ پنجاب میں اس کی وسیع پیمانے پر کاشت شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، اوکاڑہ، قصور، ساہیوال ، ملتان، بہاولپور، بہاول نگر اور فیصل آباد جبکہ سندھ میں لاڑکانہ، دادو، شکارپور، حیدرآباد اور ملیر کے اضلاع میں کی جاتی ہے اور خیبر پختونخواہ کے ہری پور ہزارہ ، ڈیرہ اسماعیل خاں، کوہاٹ، بنوں اور مردان اضلاع قابل ذکر ہیں

لیکن ان سب میں عمدہ مہک اور مٹھاس کے باعث لاڑکانہ کے امرود کو ایک ممتاز حیثیت حاصل ہے. کہا جاتا ہے کہ آپ نے کمرے یا گاڑی میں لاڑکانہ کے امرود رکھے ہوں تو پورا کمرا ان کی خوشبو سے بھر جاتا ہے۔ دوسرا صراحی نما گردن کی وجہ سے دیکھنے میں خوبصورت لگتے ہیں اور دوسرایہ مٹھاس اور ذائقے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے

ایک محتاط اندازے کے مطابق لاڑکانہ اور اس کے گرد و نواح میں امرود کے باغات دس ہزار ایکڑوں پر محیط ہیں

لاڑکانہ میں امرودوں کے باغوں کے مالک اور ایوان زراعت کے صدر سید سراج راشدی کا کہنا ہے کہ مقامی امرودوں کی ایک قسم جس کا نام سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے نام پر رکھا گیا، یہ قسم انتہائی مشہور اور سب سے زیادہ پیداوار دیتی ہے

سراج راشدی کے مطابق لاڑکانہ کا امرود مٹھاس اور مہک کے اعتبار سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ ’لاڑکانہ اور دیگر علاقوں کے امرود میں فرق یہ ہے کہ یہاں کا موسم اور آب و ہوا امرود کو راس آتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ لاڑکانہ کے امرودوں کی نو اقسام مقبول ہیں، لیکن ان میں بے نظیر قسم کاروباری اعتبار سے بہت اچھی ہے۔ اس کے علاوہ بیجوں کے بغیر ایک قسم ہے۔ ایک گلابی رنگ کی قسم ہے، جو لاڑکانہ کی ہے۔ اس کی مہک اور مٹھاس اپنی مثال آپ ہے

انہوں نے بتایا ’اس کے علاوہ ریالی، رمضانی، تھدا رامی، سندھی ونگو اور ایک چھوٹا سندھی امرود ہوتا ہے، جو دیکھنے میں بھی بہت پیارا ہوتا ہے اور کھانے میں بڑی مٹھاس ہوتی ہے۔‘

امرودوں کی بے حد مشہور قسم بے نظیر پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ لاڑکانہ میں نوے کی دہائی میں کمشنر محمد ہاشم لغاری ہوا کرتے تھے. پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ والوں نے ہاشم لغاری کو کہا کہ ہمیں لاڑکانہ کے امرودوں کی اقسام بھیجیں، تو وہ میرے پاس آئے اور مختلف اقسام لے گئے

”انہوں نے نوٹس کیا کہ بے نظیر قسم کی پیداوار بہت زیادہ تھی۔ سب سے زیادہ پھل اسی میں لگا ہوا تھا۔“

’میں نے انہیں بتایا کہ یہ کاروباری قسم ہے، بڑی پیداوار دیتی ہے، تو انہوں نے کہا کہ یہ لاڑکانہ کی ہے اور نوڈیرو ہی میں زیادہ ہے تو کیوں نا اس کا نام بے نظیر رکھا جائے، یوں اس کا نام بے نظیر پڑا۔‘

سراج نے مزید بتایا کہ ’اس کے بعد پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل نے بھی اس قسم کو بے نظیر کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔ اب یہ بے نظیر قسم پورے پاکستان میں مشہور ہے۔‘

سراج کے مطابق لاڑکانہ کے علاوہ پنجاب کے علاقے رحیم یار خان میں بھی ان کے امرود کے باغات ہیں اور دونوں جگہ ایک ہی اقسام کے درخت لگے ہوئے ہیں

’تاہم جو ذائقہ، مہک اور لذت لاڑکانہ کے امرود میں ہے، وہ رحیم یار خان کے امرود کی نہیں اور اس کی بنیادی وجہ صرف موسم ہے لاڑکانہ کی آب و ہوا امرودوں کے لیے بہترین ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ 2018ع میں فروٹ فلائی کے حملے کے بعد پیداوار میں کمی اور مالی نقصان کی وجہ سے کاشت کاروں نے امرودوں کے باغات کاٹنا شروع کر دیے تھے

لاڑکانہ میں 2017ع تک امرودوں کی سالانہ پیداوار 70 ہزار میٹرک ٹن تھی، لیکن جب 2018ع میں امرود کے باغات پر فروٹ فلائی کا حملہ ہوا تو پیداوار سکڑنا شروع ہو گئی اور گذشتہ سال یہ بیس سے پچیس ہزار میٹرک ٹن تک رہ گئی

’کچھ کاشت کاروں نے وفاقی حکومت سے مدد مانگی تو فیصل آباد کی ایوب ایگریکلچرل ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے فروٹ فلائی اور ملی بگ کے حملے کا جائزہ لینے کے بعد کاشت کاروں کو حل بتایا۔‘

انہوں نے کہا کہ : ’کاشت کار اپنے باغات پر ادویات کا اسپرے کر کے درحقیقت اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مار رہے تھے، کیوں کہ امرودوں کے باغات کی دشمن فروٹ فلائی اور ملی بگ کے خاتمے کا حل درحقیقت وہ فصل دوست کیڑے مکوڑے تھے، جو آب و ہوا میں پہلے سے موجود تھے اور جنہیں کاشت کار زہریلی ادویات کا اسپرے کر کے ختم کر رہے تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اب لاڑکانہ کے بیشتر امرود کے باغ بانوں نے زہریلی ادویات کا اسپرے اور مصنوعی کھاد کا استعمال ختم کر دیا ہے۔‘

”اب کاشت کار اپنے باغات کی حفاظت کے لیے قدرتی کنٹرول پر عمل درآمد کر رہے ہیں اور ڈی کمپوزڈ ویسٹ، گڑ، سرسوں کی کھل، سالڈ ویسٹ اور دہی میں آٹھ روز تک تانبے کا ٹکڑا ڈال کر سینکڑوں لیٹرز اپنا فرٹیلائیزر بنا کر اسپرے کرتے ہیں۔“

”وہ دریا کی مٹی، گوبر کی کھاد، شگر مل کی پریس مڈ اور امرودوں کے ویسٹ اور درختوں کے پتوں کو چھ ماہ تک زیر زمین دبا کر اپنی قدرتی کھاد تیار کر رہے ہیں۔“

سراج نے بتایا کہ باغبان ٹرنک نما کھلے صندوقوں میں فروٹ فلائی کے حملے سے خراب ہونے والے امرودوں کو باغات کے بیچ میں رکھ دیتے ہیں، تاکہ فروٹ فلائی ایک جگہ اکٹھی ہو اور جہاں فروٹ فلائی امرودوں میں اپنا لاروا چھوڑتی ہے، وہیں قدرتی طور پر فصل دوست کیڑے مکوڑے بھی فروٹ فلائی کا لاروا کھانے آ جاتے ہیں

”یوں فروٹ فلائی کی نشونما نہیں ہو پاتی اور باغات نقصان سے بچ جاتے ہیں اور اسی طرح سے ملی بگ کے خاتمے کے لیے فصل دوست کیڑے مکوڑوں کو خود پالا جا رہا ہے۔“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close