افغانستان کی منجمد رقم نائن الیون متاثرین کو دینے کے فیصلے پر افغان شہری سراہا احتجاج بن گئے

ویب ڈیسک

کابل – امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے افغانستان کے امریکا میں منجمد سات بلین ڈالرز کی رقم میں سے نصف نائن الیون حملوں کے متاثرین کو دینے کے فیصلے پر افغان شہری سراپا احتجاج ہیں

اطلاعات کے مطابق افغانستان کے دارالحکومت کابل میں افغان شہریوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا ہے، جس کے مطابق افغانستان کے امریکا میں منجمد سات بلین ڈالرز میں سے نصف نائن الیون حملوں کے متاثرین امریکیوں کو دینے کا کہا گیا ہے

افغانوں نے امریکا میں رکھے گئے منجمد افغان اثاثوں میں سے ساڑھے تین ارب ڈالر کی رقم نائن الیون کے متاثرین کو دینے کے لیے امریکی صدر کے حکم کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اثاثے افغانوں کے ہیں

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ہفتے کے روز مظاہرین نے کابل کی عید گاہ مسجد کے باہر جمع ہو کر امریکا سے مطالبہ کیا کہ ان ہزاروں افغانوں کے لیے مالی معاوضہ دیا جائے، جو افغانستان میں گذشتہ دو دہائیوں کے دوران ہلاک ہوئے ہیں

کابل میں ہونے والے مظاہرے کے منتظم عبدالرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’ہمارے افغانوں کا کیا جنہوں نے قربانیاں دی ہیں اور ہزاروں جانیں گنوائیں؟‘

ان کا کہنا ہے کہ وہ جو بائیڈن کے فیصلے کے خلاف کابل بھر میں مزید مظاہرے کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں

کابل میں ہونے والے احتجاج میں مظاہرین نے کتبے اٹھا رکھے تھے، جن میں سے کچھ پر لکھا تھا کہ امریکا بے رحمی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور افغان شہریوں کا پیسہ چرانے میں مصروف ہے

افغان عوام کے علاوہ امریکی صدر کے اس فیصلے پر افغانستان کے سابق سیاستدانوں، اکیڈمکس اور طالبان نے بھی شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ طالبان کے سینیئر ترجمان محمد نعیم وردک نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں لکھا، ”امریکی صدر کی طرف سے افغان قوم کی منجمد شدہ رقم کی چوری اور قرقی، ایک ملک اور ایک قوم کی اخلاقی زوال کی پست ترین سطح ہے‘‘

امریکی حمایت یافتہ سابق افغان حکومت کے مالی مشیر طارق فرہادی نے افغانستان کے مرکزی بینک کے ریزروز کا انتظام اقوام متحدہ کے پاس ہونے پر اعتراض کیا ہے

ان کا کہنا ہے کہ یہ فنڈ انسانی ہمدردی پر امداد کے لیے نہیں ہے، بلکہ ’ملکی کرنسی کو مضبوط بنانے، مالیاتی پالیسی میں مدد اور ملک کی ادائیگیوں میں توازن لانے کے لیے ہیں۔‘

انہوں نے صدر بائیڈن کے حکم کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھایا

فرہادی کا کہنا ہے کہ ’یہ مالی اثاثے افغان عوام کے ہیں، طالبان کے نہیں۔ بائیڈن کا فیصلہ یک طرفہ ہے اور بین الاقوامی قانون سے مطابقت نہیں رکھتا۔ زمین پر کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک کے اثاثے ضبط کرنے کا فیصلہ نہیں کرتا۔‘

جو بائیڈن کے جمعے کے اس حکم نے سوشل میڈیا پر بھی طوفان پرپا کر دیا ہے۔ ٹوئٹر پر ”#امریکہ نے افغان پیسہ چرا لیا“ کا افغان شہریوں میں ٹرینڈ کر رہا ہے

سوشل میڈیا پر بہت سے افغانوں نے لکھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن مشکلات میں گھرے افغان شہریوں کا پیسہ چُرا رہے ہیں اور یہ کہ اس عمل کا امریکا میں دہشت گردی سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے

یہ بات اہم ہے کہ 11 ستمبر 2001ع کو امریکی شہر نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو مسافر طیاروں کے ذریعے نشانہ بنانے والوں میں کوئی ایک بھی افغان باشندہ شامل نہیں تھا

افغانستان میں امریکی یونیورسٹی کے لیکچرر عبیداللہ بہیر نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’ہم دنیا کو یاد دلا دیں کہ نائن الیون کے حملے افغانوں نے نہیں کیے۔ بائیڈن افغان پیسہ چوری کر رہے ہیں۔‘

امریکا میں قائم ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کگلمین نے افغانستان کے اثاثوں سے ساڑھے تین ارب ڈالزر کے دوسرے مقصد کے لیے استعمال کے فیصلے کو ’سنگدلی‘ قرار دیا

کگلمین نے اپنی ٹویٹ میں کہا: ’انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان شہریوں کی امداد کے لیے ساڑھے تین ارب ڈالرز غیر منجمد کرنا بڑا کام ہے لیکن افغان عوام کے پیسے سے دوسرے ساڑھے تین ارب ڈالرز لے کر انہیں کسی جگہ استعمال کرنا گمراہی اور صاف بات ہے کہ سنگدلی ہے۔‘

کگلمین نے کہا کہ صدر بائیڈن کے حکم کی افغانستان میں موجود گہری سیاسی تقسیم سمیت ملکی سرحدوں سے باہر بھی مخالفت کی گئی ہے

انہوں نے ٹویٹ میں کہا: ’مجھے یاد نہیں آ رہا کہ انتہائی مختلف عالمی خیالات رکھنے والے افراد اتنی بڑی تعداد میں افغانستان پر امریکا کے پالیسی فیصلے کے خلاف آخری بار کب متحد ہوئے۔‘

ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ہے امریکی صدر جوبائیڈن کی طرف سے منجمد شدہ اثاثوں کی اس طرح تقسیم افغان معیشت کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہوگا

افغان پالیسی کے تجزیہ کار اور محقق محسن امین کی طرف سے ایک ٹوئیٹر پیغام میں لکھا گیا، ”یہ افغان شہریوں کو ان کی اپنی ہی رقم انسانی مدد کے نام پر دی جانا ہے جبکہ ان کی معیشت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔“

ادھر پاکستان نے بھی امریکی فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ہفتے کو ایک نجی نیوز چینل سے گفتگو میں کہا کہ یہ منجمد اثاثے افغان ملکیت تھے اور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس رقم کے استعمال کا فیصلہ کرنے کا حق صرف افغان شہریوں کو ہے

’ہم چاہتے ہیں افغانوں کی مدد کی جائے۔ افغانستان کے لوگوں کو پیسوں کی اشد ضرورت ہے۔‘

یاد رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعہ 11 فروری کو ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے تھے، جس کے مطابق افغانستان کے امریکا میں منجمد فنڈر میں سے نصف رقم نائن الیون حملوں میں متاثر ہونے والوں میں تقسیم کی جائے گی۔ امریکا میں افغانستان میں منجمد اثاثوں کی مالیت سات بلین امریکی ڈالرز سے زائد ہے

افغانستان کے تقریباً نو ارب ڈالر کے اثاثے بیرون ملک ہیں، جن میں سے سات ارب ڈالر امریکا میں ہیں۔ باقی کے اثاثے جرمنی، متحدہ عرب امارات اور سوئٹزرلینڈ میں ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close