امیج اومکس: تصویروں میں پوشیدہ معلومات ڈھونڈنے کی نئی سائنس

ویب ڈیسک

ورجینیا – تصاویر اب تک کرہ ارض پر زندگی کی دستاویزات کا سب سے وافر ذریعہ ہیں، لیکن ان سے جانداروں کی خصوصیات آسانی سے نہیں نکالی جا سکتیں

مگر اب زندگی کے بارے میں معلومات کے ذریعہ کے طور پر تصاویر زندگی کی دو ارب سالہ ارتقائی تاریخ میں نمونوں کی اہمیت کو سمجھنے اور ماحولیاتی تبدیلی یا جینیاتی تبدیلی کے مستقبل کے اثرات کی پیشین گوئی کرنے کے لیے خصلتوں کا تجزیہ کرنے میں حیاتیات کے ماہرین کی مدد کریں گی

کمپیوٹر، مصنوعی ذہانت اور مشینی اکتساب (مشین لرننگ) جیسے شعبوں میں غیرمعمولی ترقی کی بدولت حال ہی میں سائنس کی ایک نئی شاخ وجود میں آئی ہے جسے ’امیج اومکس‘ یا ’امیجیومکس‘ (imageomics) کا نام دیا گیا ہے

امیج اومکس/ امیجیومکس وہ علم ہے جس میں ’’مصنوعی ذہانت اور مشینی اکتساب کے مختلف طریقے استعمال کرتے ہوئے جانداروں کی تصویروں کا تجزیہ کیا جاتا ہے تاکہ ان کی منفرد ظاہری شکل و صورت (ساخت) کے علاوہ طرزِ عمل اور فطری کردار سے متعلق انفرادی و اجتماعی خصوصیات کے بارے پتا لگایا جاسکے

گزشتہ چند ماہ میں امریکا کے مختلف اداروں کو کروڑوں ڈالر کی فنڈنگ دی گئی ہے تاکہ وہ امیج اومکس کو ترقی دیں اور مزید پختہ کرکے اس قابل بنائیں کہ یہ جانوروں پر تحقیق میں عملی طور پر استعمال ہوسکے

گزشتہ برس ستمبر میں امریکا کی ’نیشنل سائنس فاؤنڈیشن‘ (این ایس ایف) کی 15 ملین (ڈیڑھ کروڑ) ڈالر گرانٹ سے اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی میں ایک نئے ’امیج اومکس انسٹی ٹیوٹ‘ کا آغاز کیا گیا

اسی گرانٹ کے تحت چند روز قبل ورجینیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ورجینیا ٹیک) سے کمپیوٹر سائنس، شماریات اور حیاتیاتی علوم (بایولاجیکل سائنسز) کے شعبوں سے بھی ماہرین کو شامل کرلیا گیا ہے

اس وقت دنیا بھر کے لاکھوں جانوروں کی کروڑوں تصویریں موجود ہیں، جو سائنسی ماہرین، ماحول/ جنگلی حیات سے دلچسپی رکھنے والے عام لوگوں اور سیاحوں کی کھینچی ہوئی ہیں

ڈجیٹل فوٹوگرافی اور سوشل میڈیا میں غیرمعمولی ترقی کے باعث، آج ان میں سے بیشتر تصویریں اور وڈیوز خاصی صاف ستھری ہیں، جنہیں یکجا کرکے سائنسی تحقیق میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ امیج اومکس/ امیجیومکس کا مقصد بھی یہی ہے

مصنوعی ذہانت کی مدد سے، خودکار انداز میں تصویریں شناخت کرنے والے موجودہ کمپیوٹر پروگرامز اور الگورتھمز اس قابل نہیں کہ وہ جانوروں کی ان تصویروں سے بامعنی اور مفید معلومات، درست طور پر اخذ کرسکیں۔ اس کےلیے انہیں خصوصی تربیت دینا ہوگی

امیج اومکس/ امیجیومکس پر تحقیق میں ماہرین یہی کام کریں گے

اوہائیو اسٹیٹ کے ٹرانسلیشنل ڈیٹا اینالیٹکس انسٹی ٹیوٹ کے فیکلٹی کی قیادت میں امیجومکس انسٹیٹیوٹ مطالعہ کا ایک نیا شعبہ تشکیل دے گا، جس میں سائنسدان زمین پر زندگی کے حیاتیاتی عمل کو سمجھنے کی بنیاد کے طور پر جانداروں کی تصاویر کا استعمال کریں گے۔ یہ نیا نقطہ نظر، جسے امیجومکس کہا جاتا ہے، مشینی اکتساب کے طریقہ کار کو استعمال کرے گا تاکہ تصویروں کے حیاتیاتی خصائص جیسے کہ کسی فرد کا برتاؤ یا جسمانی شکل، یا کسی نوع کی مخصوص ڈھانچے کی ساخت بھی معلوم کی جا سکے

امیجومکس حیاتیاتی علم کے ارد گرد الگورتھمک بنیادوں کو تشکیل دے کر علم کی رہنمائی کرنے والی مشین لرننگ کے نمونے کا فائدہ اٹھائے گا اور اسے بڑھا دے گا اور نئے حیاتیاتی علم کے پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی مسلسل رہنمائی اور اصلاح کرے گا

اس سے پہلے کی جینومکس کی طرح، جس نے انسانی جینوم کے مطالعہ پر حساب کا اطلاق کیا، امیجومکس کمپیوٹر سائنس کا فائدہ اٹھائے گا تاکہ سائنس دانوں کو قدرتی امیج کے اعداد و شمار کی دوسری صورت میں غیر معمولی مقدار سے معنی نکالنے میں مدد ملے۔ جن تصاویر کا مطالعہ کیا جائے گا ان میں عجائب گھروں، لیبز اور دیگر اداروں کے ڈجیٹل مجموعوں کے ساتھ ساتھ فیلڈ میں سائنسدانوں کی لی گئی تصاویر، کیمرہ ٹریپ، ڈرون اور یہاں تک کہ عام افراد بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنی تصاویر eBird، iNaturalist اور Wildbook جیسے پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ کی ہیں

سائنسی دریافت کے لیے تصویری ڈیٹا کو استعمال کرنے کی صلاحیت سائنسدانوں کو زبردست سوالات کے جوابات دینے کے قریب لے جائے گی جیسے: کیا زیبرا کے بچے کی پٹیاں اس کی ماں سے ملتی جلتی ہیں، اور پیٹرن کو وراثت میں حاصل کرنے کے لیے جینیاتی طریقہ کار کیا ہو سکتا ہے؟ چمگادڑ کی پرجاتیوں کی کھوپڑیاں ماحولیاتی حالات کے ساتھ کیسے مختلف ہوتی ہیں، اور کون سی ارتقائی موافقت اس میں تبدیلی لاتی ہے؟ کون سی لطیف مورفولوجیکل خصوصیات مچھلی کی قریب سے متعلقہ انواع کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہیں اور کیوں؟

ٹرانسلیشنل ڈیٹا اینالیٹکس انسٹیٹیوٹ کی فیکلٹی ڈائریکٹر اور امیجومکس انسٹیٹیوٹ کی پرنسپل تانیا برجر وولف نے کہتی ہیں ”جانداروں کی بہت سی تصاویر سائنسی قدر کے ساتھ موجود ہیں جن کا ہم صحیح پیمانے پر تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں، لیکن اب یہ بدل جائے گا کہ ہم کس طرح قدرتی دنیا کو دیکھنے اور سمجھنے کے قابل ہیں۔ کمپیوٹر انسانوں کو مختلف طریقے سے تصاویر دیکھنے میں مدد کرتے ہیں اور اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ کیا چیز ہمارے مشاہدے میں نہیں آ سکی“

امید ہے کہ ان کوششوں کے طفیل، آئندہ کچھ ہی عرصے میں یہ شعبہ بھی خاصی ترقی کرجائے گا اور ہم اس قابل ہوجائیں گے کہ مشین لرننگ کو دریافت شدہ جانوروں کی شناخت کے علاوہ نئی اور نامعلوم انواع (species) کی نشاندہی، شناخت اور دریافت میں استعمال کر سکیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close