ملک میں لاپتا ساڑھے 8 ہزار افراد میں سے صرف ایک تہائی کی واپسی کا انکشاف

ویب ڈیسک

اسلام آباد – کمیشن آف انکوائری آن فورسڈ ڈسپیئرنس کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مارچ 2011 سے لاپتا آٹھ ہزار 463 شہریوں میں سے صرف تین ہزار 284 ہی گھر واپس آئے ہیں

رپورٹ کمیشن کے رجسٹرار نے لاپتا افراد کے ورثا کی جانب سے دائر کیس میں جمع کرائی

لاپتا افراد کا سراغ لگانے اور ذمہ دار افراد یا تنظیموں کی ذمہ داری کے تعین کے لیے 2011 میں قائم کمیشن نے انکشاف کیا کہ متعلقہ اداروں نے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کیے جانے کے باوجود ساڑھے پانچ سو کیسز میں زیر حراست افراد کو پیش نہیں کیا

رپورٹ میں کہا گیا کہ مارچ 2011 سے 28 فروری 2022 تک تقریباً گیارہ سالوں کے دوران کمیشن کو جبری گمشدگیوں کی 8 ہزار 463 شکایات موصول ہوئیں، ان میں سے 6 ہزار 214 کیسز کو نمٹا دیا گیا ہے جبکہ 2 ہزار 249 کیسز ابھی زیر تفتیش ہیں

رپورٹ میں کہا گیا کہ 3 ہزار 284 لاپتا افراد کا سراغ لگایا جا چکا ہے اور وہ گھروں کو واپس جا چکے ہیں

اس کے علاوہ 228 لوگوں کے انکاؤنٹر وغیرہ میں ہلاک ہونے کی اطلاع ہے اور متعلقہ پولیس نے ریاست کی جانب سے ایف آئی آر درج کی اور قانون نے اپنا راستہ اختیار کیا

اس کے علاوہ 946 لوگوں کو قانون کے تحت حراستی مراکز میں قید رکھا گیا ہے، متعلقہ حلقوں کی طرف سے اہل خانہ کے ساتھ قیدیوں کی متواتر ملاقاتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جبکہ دہشت گردی اور فوجداری مقدمات کا سامنا کرنے والے 584 لوگوں کو جیلوں میں بند رکھا گیا ہے

رپورٹ میں بتایا گیا کہ مکمل تفتیش کے بعد ایک ہزار 178 کیسز جبری گمشدگیوں کے نہیں پائے گئے کیونکہ ان کیسز میں یہ افراد خود کہیں چلے گئے یا یہ کیسز اغوا برائے تاوان یا ذاتی دشمنی سے متعلق ہیں

رپورٹ میں کہا گیا کہ 2007ع اور 2009ع کے درمیان لاپتا افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کی بڑی وجہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف فوجی آپریشن، خیبرپختونخوا میں پے درپے ڈرون حملے اور کچھ لوگوں کی جانب سے افغان سرحد کی غیر قانونی کراسنگ تھی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ابتدائی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ کمیشن اپنی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا ہے کیونکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہ محض پوسٹ آفس کا کردار ادا کر رہا ہے

عدالت نے مشاہدہ کیا کہ کمیشن کا مقصد جبری گمشدگیوں کے خطرے سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کو مشورہ دینا تھا تاہم کمیشن نے 2011ع میں اپنے قیام کے بعد سے کوئی تجویز پیش نہیں کی

جسٹس من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کمیشن نے جبری گمشدگیوں کے ذمہ دار کسی شخص کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی

درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ متاثرہ خاندانوں کو سماجی اور مالی مشکلات کا سامنا ہے

ایڈووکیٹ راجا مشتاق نے عدالت کو اپنے دو بیٹوں کے بارے میں بتایا جو 2016ع میں اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد کے باہر سے لاپتا ہو گئے تھے، کمیشن نے ان کے بیٹوں کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے تھے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا

ایڈووکیٹ انعام الرحیم نے عدالت کو بتایا کہ کمیشن کے چیئرمین کو ہائی کورٹ کے جج کے مساوی اختیار حاصل ہے لیکن انہوں نے پروڈکشن آرڈرز پر عملدرآمد کے لیے بھی یہ اختیار استعمال نہیں کیا

عدالت نے کیس میں سینئر وکیل فیصل صادق کو عدالت کا دوست مقرر کرتے ہوئے کیس کی سماعت یکم اپریل تک ملتوی کردی

جسٹس من اللہ نے کمیشن کو ہدایت کی کہ لاپتا افراد سے متعلق ریٹائرڈ جسٹس کمال منصور عالم کی رپورٹ آئندہ سماعت تک پیش کی جائے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close