حکومت کے نشانے پر آنے والا سندھ ہاؤس کیا ہے؟ اور حکومت اب کیا کرنے جا رہی ہے؟

نیوز ڈیسک

اسلام آباد – وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد جہاں بہت سے تنازعات سامنے آئے ہیں ان میں ایک تنازع سندھ ہاؤس سے بھی جڑا ہے جس کی وجہ سے سندھ ہاؤس آج کل خبروں کی زینت بنا ہوا ہے

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ایف فائیو میں جہاں آئینی و قانونی ادارے قائم ہیں وہیں صوبائی حکومتوں کی ملکیت میں کچھ ہاؤسز ہیں جن میں پنجاب، سندھ، کے پی کے، بلوچستان اور کشمیر ہاؤس شامل ہیں

یہ ہاؤسز وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں، جن میں گورنر اور وزرائے اعلیٰ کے مہمان خانے یعنی انیکسیز بنی ہوئی ہیں جن کا استعمال ان کی صوابدید ہے۔ ہر ہاؤس میں رہائشی کمرے ہیں جن کو متعلقہ صوبوں کے وزراء، ارکان اسمبلی، صوبائی حکام اور مخصوص شہریوں کو یومیہ کرائے پر دیا جاتا ہے

وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پہلے الزام لگایا کہ سندھ ہاؤس میں ارکان قومی اسمبلی کو خریدنے کے لیے نوٹوں کی بوریاں کھولی جا رہی ہیں۔ بعد ازاں وفاقی وزراء نے کہا کہ تحریک انصاف کے بارہ منحرف ارکان کو بھی سندھ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا ہے

جب کہ پی ٹی آئی منحرف رہنما راجہ ریاض نے یہ تعداد دو درجن کے لگ بھگ بتائی ہے، جن میں وہ خود بھی شامل ہیں اور علی الاعلان اب وزہر اعظم کے خلاف ووٹ دینے کی بات کر رہے ہیں

پیپلز پارٹی کی جانب سے مرکزی سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سندھ ہاؤس پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جبکہ اپوزیشن کے ارکان اپنے تحفظ کی خاطر سندھ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے ہیں

سندھ ہاؤس اگرچہ اسلام آباد میں موجود ہے لیکن اس کا انتظام و انصرام سندھ حکومت کرتی ہے کیونکہ یہ سندھ کی ملکیت ہے۔ اسی وجہ سے وفاقی حکومت یا اس کا کوئی ادارہ وہاں کوئی ایسی مداخلت نہیں کر سکتا جو ان کے اختیار میں نہیں آتی۔
سندھ ہاؤس کی انتظامیہ کے مطابق سندھ ہاؤس کا قیام 1973-74 میں ذوالفقار علی بھٹو نے عمل میں لایا تھا۔ جس کا بنیادی مقصد صوبائی حکام کے وفاقی دارالحکومت میں آمد کے وقت ان کو مناسب رہائش فراہم کرنا تھا

کیئر ٹیکر محمد ریاست کے مطابق ’پچیس ایکڑ پر پھیلے تاریخی سندھ ہاؤس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسے وزیر اعظم ہاؤس کا درجہ بھی دیا گیا تھا۔ 1988 میں جب بے نظیر بھٹو پہلی مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو وزیر اعظم ہاؤس میں تزئین و آرائش جاری تھی تو انھوں نے سندھ ہاؤس کو وزیراعظم ہاؤس کا درجہ دلوایا تھا۔ اس کے علاوہ بھی دو مواقع پر سندھ ہاؤس وزیر اعظم ہاؤس قرار دیا جا چکا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’سندھ ہاؤس میں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری سمیت سندھ کی متعدد سیاسی شخصیات اور کئی عالمی رہنماؤں نے بھی قیام کیا ہے۔‘

سندھ حکومت کے محکمہ ورکس کے مطابق ’سندھ ہاؤس کا انتظام و انصرام چلانے کے لیے یہاں پر ستانوے ملازمین رکھے گئے ہیں۔ اس میں متعدد بلاکس ہیں جن میں تیس کے قریب کمرے، ہالز، لابیز اور پاکس موجود ہیں۔ جبکہ مزید کمروں کی تعمیر اور وی وی آئی پی بلاک کی تعمیر کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔‘

سندھ ہاؤس میں ایک جامع مسجد بھی ہے۔ ججز کالونی سے ملحقہ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ کے اکثر ججز بھی وہاں نماز کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں

سندھ ہاؤس میں راہداریوں، لابیز اور کمروں میں سندھ کی ثقافت کے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔ حکومت سازی اور دیگر اہم مواقع پر سندھ ہاؤس سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اکثر و بیشتر یہاں پریس کانفرنس کرتے رہے ہیں

پرویز مشرف کے دور میں سندھ ہاؤس بند کر دیا گیا تھا تاہم 2008ع میں پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد اسے دوبراہ کھول کر تزئین و آرائش کی گئی

حال ہی میں بلاول بھٹو زرداری جب سندھ سے لانگ مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچے تھے تو اس سے اگلے دن انھوں نے اپنے ارکان قومی اسمبلی کے اعزاز میں یہاں پر ظہرانے کا اہتمام بھی کیا تھا

سندھ ہاؤس پر سندھ پولیس کی موجودگی پر انتظامیہ کو تشویش

پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے وفاقی دارالحکومت میں واقع سندھ ہاؤس کی حفاظت کے لیے سندھ پولیس کی مدد طلب کرلی، اسلام آباد میں یہ مناظر غیر معمولی ہیں

سندھ ہاؤس صوبائی حکومت کے ماتحت ہے اس طرح ہمیشہ یہاں صوبائی حکومت کا اختیار ہوتا ہے، پنجاب ہاؤس، بلوچستان ہاؤس، اور خیبرپختونخوا ہاؤس میں بھی یہ ہی قانون نافذ العمل ہے

تاہم پی ٹی آئی سے بے وفائی کرنے والے ‘ٹرن کوٹ’ کو مبینہ طور پر سیکیورٹی فراہم کرنے پر اسپیشل سیکیورٹی یونٹ (ایس ایس یو) پر تنقید کے بعد، سندھ پولیس کے اسپیشل یونٹ کا کہنا ہے کہ اہلکاروں کو صرف 23 مارچ کو یوم پاکستان کی پریڈ میں شرکت کے لیے وفاقی دارالحکومت بھیجا گیا ہے

تاہم دعویٰ کیا کہ اسلام آباد میں سندھ ہاؤس میں ہمیشہ اہلکار تعینات کیے جاتے ہیں، سندھ ہاؤس وفاقی دارالحکومت میں صوبائی حکومت کی انتظامی اور رہائشی سہولت ہے

سندھ ہاؤس میں ایس ایس یو کمانڈوز کی تعیناتی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’اس میں کچھ نیا نہیں ہے‘

انہوں نے کہا کہ اہلکار سال بھر سندھ ہاؤس کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے یہاں موجود رہتے ہیں، لیکن اسلام آباد میں ہمارے کمانڈوز یوم پاکستان کی پریڈ میں شرکت کریں گے

ان کا کہنا تھا کہ خصوصی دستے میں سندھ پولیس کے 371 اہلکار شامل ہیں، جن میں 182 ایس ایس یو کے کمانڈوز، 131 ٹریفک پولیس کے اہلکار اور دیگر ضلعی سطح کراچی رینج ریپڈ رسپونس فورس کے 58 اہلکار ہیں، یہ اہلکار یوم پاکستان کی پریڈ میں حصہ لیں گے

عہدیداران کا کہنا ہے کہ عموماً سندھ ہاؤس پر 115 اہلکاروں کا دستہ فرائض انجام دیتا ہے جبکہ اس وقت یہاں 228 افسران اور اہلکار تعینات ہیں

دارالحکومت پولیس کی جانب سے سندھ ہاؤس کی انتظامیہ سے رابطہ کیا تھا تو معلوم ہوا کہ ہاؤس میں سندھ کے قانون سازوں اور اہم شخصیات کی موجودگی کے سبب سیکیورٹی میں اضافہ کیا گیا ہے

عہدیداران کا کہنا ہے کہ مقامی پولیس اور اسلام آباد انتظامیہ بغیر اجازت یہاں داخل ہوسکتی ہے نہ ہی چھاپہ مار سکتی ہے

انہوں نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت سے درخواست کی جائے تو ہم ہاؤس میں تعینات اہلکاروں کو سفری سہولیات فراہم کرنے کے پابند ہیں

سینئر پولیس اور انتظامیہ کے افسران کا کہنا ہے کہ عموماً احتجاج اور دھرنوں کے دوران حکومت صوبوں کی پولیس سے معاونت کا مطالبہ کرتی ہےلیکن یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے جب اپوزیشن جماعت کی جانب سے اسلام آباد میں موجود سندھ ہاؤس کی حفاظت کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مدد طلب کی ہے

سندھ ہاؤس میں ناراض حکومتی اراکین: وزیر اعظم عمران خان کے پاس اب کیا آپشنز ہیں؟

پاکستان کی سیاست میں عدم اعتماد کی تحریک کی گرما گرمی میں جمعرات کا دن اہم ترین دنوں میں سے ایک رہا اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے چار منحرف ارکان اسمبلی سندھ ہاؤس اسلام آباد سے منظر عام پر آئے ہیں

اس سے پہلے حکومتی وزرا اور خود عمران خان کی جانب سے ایسے دعوے کیے گئے تھے کہ سندھ ہاؤس میں ان کی جماعت کے اراکین کو رکھا گیا ہے

یہ بھی الزام لگایا گیا کہ سندھ ہاؤس میں ہی ’ووٹ خریدنے کے لیے رقوم تقسیم‘ کی جا رہی ہے مگر اپوزیشن، خاص طور پر پیپلز پارٹی کی طرف سے ان الزامات کی تردید کی گئی تھی۔ مگر ان تمام تردیدوں پر اُس وقت پانی پھرا جب مقامی میڈیا سے منسلک بعض اینکرز کو سندھ ہاؤس میں ان اراکین تک رسائی دی گئی

سامنے آنے والی ویڈیوز میں راجہ ریاض دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے ہمراہ ’24 ارکان ہیں جو ضمیر کے مطابق ووٹ دیں گے‘

اس کے علاوہ ایک ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی نور عالم خان اور باسط بخاری سمیت بعض اراکین بھی وہیں موجود ہیں

اس صورتحال کو کئی تجزیہ کار حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ منحرف ہونے والے ان اراکین کو اب سامنے کیوں لایا گیا اور اب وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

اسی بارے میں سینیئر تجزیہ کار اور صحافی سلیم بخاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ان کے خلاف کوئی عدم اعتماد آ نہیں سکتی اور اگر آئے تو کامیاب نہیں ہو سکتی مگر اپوزیشن کے اس اقدام نے ان کے اس دعوے کی قلعی کھول دی ہے

سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے گذشتہ 48 گھنٹوں میں اپنے بیانات کا رُخ بدلا اور ضمیر فروشی اور ہارس ٹریڈنگ کرنے کے الزامات عائد کیے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے وزرا اور مشیروں نے بھی دھمکی آمیز زبان‘ استعمال کرنا شروع کر دی

انہوں نے کہا کہ بظاہر ’اس قسم کے بیانات نے ان حکومتی اراکین کو یہ اقدام اٹھانے پر مجبور کیا جو بنیادی طور پر یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ انھوں نے تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کرنی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دوسری وجہ یہ ہے کہ ایسے ارکان یا اتحادی جماعتیں جو حکومت سے علیحدہ ہونے کا سوچ رہے ہیں اپوزیشن نے اپنے اس اقدام سے ان کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ ہمارے پاس عددی برتری ہے اور وہ جلد اپنا فیصلہ کر لیں اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔

سینیئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ بھی اپوزیشن کی عددی برتری سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’آج یہ تو ثابت ہوا کہ اپوزیشن کے پاس گنتی پوری ہے اور وہ تحریک عدم اعتماد کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتے ہیں اور یہ کام وہ بغیر اتحادیوں کے بھی کر سکتے ہیں۔ اب اگر اتحادی ان سے ملتے ہیں تو پھر یہ ایک رسمی کارروائی ہی رہ جائے گی۔‘

تاہم سہیل وڑائچ یہ بھی سمجھتے ہیں اب سیاست میں ایک نہایت منفی ہلچل ہو گی اور شورش اس قدر بڑھ سکتی ہے کہ کسی تیسرے فریق کو بیچ میں آنا پڑے گا

سہیل وڑائچ کے مطابق ’پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملک میں یہ کام آئین یا قانون کے مطابق نہیں ہو سکتا، اس لیے ڈر ہے کہ یہ معاملہ لڑائی جھگڑے اور شورش تک جائے گا اور اس میں کسی تیسرے فریق کی نوبت اور مداخلت کا موقع ملے گا اور یہ تیسرا فریق عدالت بھی ہو سکتی ہے اور فوج بھی‘

ان کے مطابق فوج اُس وقت دخل دے سکتی ہے جب حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے اور سیاسی جماعتوں کو اس پر قائل کرنے کی کوشش کر سکتی ہے کہ سب قانون کے مطابق ہو

سلیم بخاری نے ان اراکین کے ٹی وی پر چلنے والے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان سب نے پیسے لینے کے الزامات کو رد کیا البتہ ان سب نے مشترکہ طور پر یہ کہا کہ انھیں عمران خان کی پالیسیوں سے اختلاف ہے اور خراب طرز حکمرانی کے باعث اپنے حلقوں میں شرمندگی ہے اس لیے وہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ منظر نامہ کسی اچھی صورتحال کی جانب اشارہ نہیں کرتا اور اگر حکومت کی جارحیت پسندی اسی طرح جاری رہی جیسے انھوں نے پارلیمنٹ لاجز میں کیا اور اب بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومتی ایجنسیوں کو ایم این ایز کے پیچھے لگا دیا ہے، تو یہ پاکستان کی سیاست میں اچھا شگون نہیں۔

حکومت کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

ایک سوال پر سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن کی عددی برتری ظاہر کرنے کے بعد تین چار آپشنز کی بات ہوتی رہی ہے جس میں ایک یہ کہ وہ ملک میں ایمرجنسی لگا دیں گے جس کے بعد ہر چیز رُک جائے گی لیکن ایسا کرنے کی صورت میں ایمرجنسی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا اور ممکنہ طور پر پہلی ہی سماعت پر یہ فیصلہ واپس ہو جائے گا۔‘

دوسری طرف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد اسمبلیاں توڑنے کا آپشن پہلے ہی ختم ہو گیا اور آخری آپشن ان کے پاس یہ ہے کہ وہ خود استعفیٰ دے دیں اور نئے انتخابات کا اعلان کروا دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تینوں صورتوں میں عمران خان کا نقصان ہونے جا رہا ہے۔

سہیل وڑائچ نے بھی اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحریک کا مقابلہ جلسوں سے نہیں ہو سکتا۔

’اگر جلسوں سے مقابلہ کرنا ہے تو صرف جلسے ہی کریں اور یہ واضح ہے کہ اس وقت پی ٹی آئی کو عوامی مقبولیت حاصل نہیں۔ یہ ہم کئی ضمنی انتخابات میں دیکھ چکے ہیں۔ اس لیے عام انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کو کوئی خاص کامیابی کا امکان نہیں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ ’اس لیے عمران خان کے پاس واحد راستہ یہی ہے کہ وہ اسی قانونی طریقے سے اس تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں جو آئین کے مطابق ہے۔‘

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ اپوزیشن کے اس اقدام نے ’ٹرننگ پوائنٹ‘ پیدا کیا اور حکومت کے پاس اس وقت سوائے اس کے کہ وہ اپنی پارٹی کے معاملات کو دیکھے اور صورتحال درست کرے اور کوئی چارہ نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اپنے اتحادیوں کو اپنے ساتھ رکھنے کی آخری کوشش کرے، جو ان کے تحفظات ہیں ان کو دور کرنے کی ضمانت دے اور اگر صرف تقریروں اور سخت زبان سے صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش کی گئی تو حالات اس سے بھی زیادہ بگڑ سکتے ہیں۔

اس سوال پر کہ یہ اراکین اس وقت سامنے کیوں آئے، سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ اس وقت اپوزیشن حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے اور یہ سلسلہ آئندہ کچھ دن تک جاری رہے گا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close