کتابوں اور بابا یحییٰ خاں کے ساتھ

عطاء الحق قاسمی

بچپن سے یہی سمجھتا تھا کہ ادب کا مطلب بزرگوں کا ادب کرنا ہے مگر کالج میں فرسٹ ایئر تک پہنچتے پہنچتے اس صنف کی کچھ کچھ سمجھ آنے لگی تھی بلکہ نثر اور ٹوٹے پھوٹے شعر بھی کہنا شروع کردیئے تھے۔ بی اے تک میں نے ابا جی کی لائبریری جو دینی کتب پر مشتمل تھی میں ’’دخل اندازی‘‘ شروع کردی۔ چنانچہ اسلام، مسیحیت، ہندو ازم وغیرہ کے بارے میں کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ اس دور میں میں نے ابا جی سے قرآن مجید کے پہلے چند سپارے ترجمہ کے ساتھ پڑھے۔ بعد میں مختلف الخیال مسلم دانشوروں کی کتابیں پڑھنے کا اتفاق بھی ہوا، مگر ایم اے تک پہنچتے پہنچتے میرے مطالعہ کا محور ادب ہو کر رہ گیاتھا اور یہ شوق آج بھی جاری و ساری ہے۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ اب کتابوں کا جزوی مطالعہ کرتا ہوں، مجھے کتابوں کے ساتھ یہ فلٹریشن اچھی تو نہیں لگتی مگر جب کبھی پوری کتاب پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں بے شمار مصروفیات آڑے آ جاتی ہیں۔

ایک وقت تھا کہ نامور فکشن رائٹرز اور شاعروں کو پوری دلجمعی سے پڑھا، اس کے علاوہ تنقیدی کتابیں بھی حسب توفیق پڑھتا رہا، جن میں ڈاکٹر جمیل جالبی کی تاریخ اردو ادب کی متعدد جلدیں، ڈاکٹر وزیر آغا کی اردو شاعری کا مزاج،مولانا عبدالسلام ندوی کی اقبالِ کامل، افسانہ نگار طاہرہ اقبال کی وقیع کاوش ’’پاکستانی اردو افسانہ، اس کے علاوہ دو جلدوں میں داس کیپٹل کا سید محمد تقی کا اردو ترجمہ، ڈاکٹر خورشید رضوی کا دو جلدوں میں ’’عربی ادب قبل از اسلام‘‘ کا عظیم کام اور ان کے علاوہ متعدد وقیع نوعیت کی کتابیں پڑھنے کا وقت اور حوصلہ رکھتا رہا۔

اوپر کی سطور میں زیادہ تر ان کتب کا تذکرہ ہے جن کی اشاعت میری نام نہاد بلوغت کے زمانے میں ہوئی، اپنے وجود میں آنے سے پیشتر معرض وجود میں آنے والی کتب جن میں سے کئی ایک کی ’’تاریخ پیدائش‘‘ صدیوں پہلے کی ہے ان کا دانستہ ذکر نہیں کیا کہ ابلاغیات کی کتابوں میں کالم کا مختصر اور اس کا ہلکا پھلکا ہونے کا ’’فتویٰ‘‘ جاری کیا گیا ہے، سو اب میں ان کتابوں کا سرسری تذکرہ کروںگا جو ان دنوں میرے زیر مطالعہ ہیں۔ ان میں ظفر اقبال کےمتعدد شعری مجموعے گاہے گاہے میرے زیر مطالعہ رہتے ہیں تاکہ میں شعر کہنا سیکھ سکوں۔ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کی ایک دقیع تنقیدی کتاب ’’اردو نثر میں طنز و مزاح‘‘ ان سب کے لیے بھی پڑھنا لازمی ہے جو طنز و مزاح لکھنا بلکہ اس کی اصل روح بھی سمجھنا چاہتے ہیں۔ کچھ تازہ کتابیں چند ہفتے پیشتر میری مطالعہ کی میز پر آئی ہیں،ان میں افسانہ نگار عرفان جاوید کی بے مثل کتاب ’’عجائب خانہ‘‘ بھی ہے اور یہ واقعی عجائب خانہ ہی ہے کہ اس کے موضوعات بالکل مختلف ہیں۔ میرے دیرینہ دوست خالد مسعود خان بنیادی طور پر مزاحیہ شاعر تھے مگر کافی عرصے سے وہ کالم بھی لکھ رہے ہیں۔انہوں نے بہت اچھا کیا کہ وقتی موضوعات کی بجائے مستقل نوعیت کے حامل بہت اچھے کالموں کا مجموعہ ’’زمستان کی بارشیں‘‘کے عنوان سے شائع کیا۔ یہی کام بہت خوبصورت انسان عامر خاکوانی نے انجام دیا۔ ان کے دائمی نوعیت کے کالموں کا مجموعہ بھی ’’زنگار‘‘ کے نام سے مارکیٹ میں آیا ہے۔ بہت منجھے ہوئے رائٹر اور صحیح معنوں میں ایک جنٹلمین فاروق عادل نے بہت اچھا کیا جو دوستوں کے اصرار پر اپنے دلچسپ خاکوں کا مجموعہ ’’جو شکل نظر آئی‘‘ کی اشاعت پر رضا مند ہوئے۔

یہاں میں خصوصی طور پر بابا یحییٰ خاں کا ذکر کروں گا، آپ نے مختلف محفلوں میں سیاہ لبادے میں ملبوس، سفید داڑھی اور روشن چہرے والے شخص کو دیکھا ہوگا اور آپ انہیں صرف ایک صوفی سمجھتے ہوں گے مگر میں پورے وثوق سے اور اپنے نقاد دوستوں کی عدم توجہی کی پروا نہ کرتے ہوئے کہوں گا کہ وہ ایک بڑے فکشن رائٹر ہیں ان کی کئی ضخیم کتابیںنہیں آپ ناول کہہ لیں، خود نوشت کہہ لیں، واردات قلبی کہہ لیں، سنگ میل پبلشرز نے شائع کی ہیں مگر ہمارے ہاں کچھ نقادوں کا سکہ رائج الوقت چلتا ہے، جس کتاب پر وہ اپنی شاہی مہر ثبت نہ کریں اس وقت تک اس پر ایمان لانا ’’ادبی بدعت‘‘ سمجھاجاتا ہے۔ میں نے بابا یحییٰ خان کے یہ ناول پڑھے ہیں اور مطالعہ کے دوران ہمیشہ ان میں گم ہو کر رہ جاتا ہوں۔ بابا جی ساری دنیا میں سیاہ لبادے میںگھومتے رہتے ہیں، ان دنوں اللّٰہ جانے کس ملک میں ہوں گے، کس دیار میں ہوں گے، کس دھیان میں ہوں گے مگرآپ یقین کریں وہ جب بھی نمو دار ہوں گے ایک ایسی واردات قلبی کے ساتھ ہوں گے جو ایک بار پھر ادب کے غیر جانبدار قاری کو حیران کردے گی۔

بشکریہ : روزنامہ جنگ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close