ریکارڈ فاصلے پر واقع ایسا ستارہ دریافت، جو سورج سے بھی پچاس گنا زیادہ بڑا ہے!

ویب ڈیسک

ماہرین فلکیات نے ریکارڈ فاصلے پر واقع ایسے ستارے کی دریافت میں کامیابی حاصل کی ہے، جو سورج سے بھی پچاس گنا زیادہ بڑا ہے!

ماہرین نے اس کا نام ’ائیرنڈل‘ رکھا ہے اور ہبل دوربین کو اب تک نظر آنے والا یہ سب سے دور واقع ستارہ ہے۔ اس ستارے کی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں 12.9 ارب سال لگے ہیں

اگرچہ دوربینیں اتنے فاصلے پر صرف لاکھوں ستاروں پر مشتمل کہکشاؤں کی نشاندہی کر سکتی ہیں لیکن ہبل، ائیرنڈل کی الگ سے تصویر لینے کے لیے ایک ایسے قدرتی عمل کو کام میں لائی جو زوم سے ملتا جلتا ہے

یہ عمل گریویٹیشنل لیسنگ کہلاتا ہے اور اس کا طریقۂ کار یہ ہے کہ اگر نظر کی لائن میں بہت سی کہکشاؤں کا جمگھٹا ہو تو مادے کی اس عظیم جسامت میں موجود اجرام سے نکلنے والی روشنی کو گریویٹیشنل پُل موڑ کر اجاگر کر دیتا ہے

عام طور پر ایسا دوسری کہکشاؤں کے ساتھ ہوتا ہے لیکن اس بار ائیرنڈل لینس ایفیکٹ یعنی عدسے کے اثر کے سب سے کارآمد حصے میں آ گیا تھا

امریکا کی جان ہاپکنز یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالبعلم برائن ویلچ کہتے ہیں ”یہ ہماری خوش قسمتی ہے۔ کسی چیز کی اتنی بلند میگنیفیکیشن (عدسے کی مدد سے بڑا نظر آنا) کی یہ انتہا ہے۔ اگر آپ کو بالکل ٹھیک زاویۂ نظر مل جائے، جیسا کہ اس معاملے میں ہوا، تو میگنیفیکیشن ہزاروں گنا تک بڑھائی جا سکتی ہے“

یاد رہے کہ اس سے پہلے سب سے زیادہ دوری کا ریکارڈ بنانے والے ستارے کا نام آئکارس تھا۔ اس کی تصویر بھی ہبل نے کھینچی تھی۔ اس سے نکلنے والی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں 9 ارب سال لگے تھے

ظاہر ہے کہ ائیرنڈل اس سے کہیں زیادہ فاصلے پر واقع ہے۔ ہم اسے بِگ بینگ کے محض 900 ملین برس بعد دیکھ رہے ہیں یعنی جب کائنات اپنی موجودہ عمر کے حساب سے 6 فیصد پرانی تھی

ائیرنڈل قدیم انگریزی کا لفظ ہے، جس کے معنی ’ستارۂ سحری‘ یا ’طلوع ہوتی روشنی‘ کے ہیں

ہبل سے لی گئی تصویر میں ایک نقطے سے زیادہ کچھ نظر نہیں آ رہا۔ یہ نقطہ بھی ہلالی شکل کی ایک روشنی ہے، جو لینس یا عدسے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے اور اسے ’سن رائز آرک‘ یعنی طلوع آفتاب کی قوس کا نام دیا گیا ہے

اس ستارے کی دریافت کی رپورٹ سائنسی رسالے نیچر میں شائع ہوئی ہے ۔ برائن ویلچ اور ان کی ٹیم کا کہنا ہے ”اس ستارے کے بارے ابھی تو بہت کچھ جاننا باقی ہے“

مثلاً ائیرنڈل کی جسامت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا گیا۔ یہ ہمارے سورج سے کم سے کم پچاس گنا زیادہ بڑا ہے، لیکن اس کا انحصار میگنیفیکیشن کی درست مقدار کے تعین پر ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ اس سے بھی کہیں بڑا ہو، تاہم اگر اس کی جسامت پچاس گنا بھی ہے تو اس کا شمار اب تک نظر آنے والے بڑے ستاروں میں ہوگا

یہ بھی ممکن ہے کہ ہبل نے جس چیز کو دیکھا ہے، وہ دُہری یعنی جوڑے کی شکل میں ہو، یعنی دو ستارے قریب قریب مدار میں گردش کر رہے ہوں۔ البتہ اگر ایسا ہے تو پھر ہم تک بڑے پارٹنر کی روشنی پہنچی ہے کیونکہ وہ ہی حاوی ہوگی

اس ضمن میں بعض ماہرین فلکیات یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ ائیرنڈل یکتا ستارے کی بجائے انتہائی قریب پائے جانے والے ستاروں کا جھرمٹ بھی تو ہو سکتا ہے، لیکن ویلچ کا کہنا ہے کہ اُس عمل کی بھی ایک حد ہے، جب لینسنگ ایفیکٹ نے روشنی کو سگار نما شکل عطا کی ہوگی۔ انہیں یقین ہے کہ ہبل نے ایک ہی یا پھر زیادہ سے زیادہ دو ستاروں کی تصویر حاصل کی ہے

قیاس کا ایک حیران کن پہلو ائیرنڈل کی بناوٹ سے متعلق ہے۔ یہ حاصل شدہ معلومات کو سمجھنے کا انداز ہے، جس سے لگے گا کہ یہ پہلے پیدا ہونے والوں ستاروں میں سے ایک ہے، ایک ایسی چیز، جو بگ بینگ کے نتیجے میں بننے والی نہایت عمدہ گیس سے وجود میں آئی ہے

نظریے کے اعتبار سے کائنات میں چمکنے والے ابتدائی ستاروں میں صرف ہائڈروجن اور ہیلیم گیسیں تھیں۔ ماہرین فلکیات انہیں پاپولیشن III ستارے کہتے ہیں۔ جب ان ستاروں اور ان کے بعد پیدا ہونے والے ستاروں میں بھاری دھاتوں کی ملاوٹ ہوئی تو اس کے بعد ہی وہ فضا وجود میں آئی، جس میں آج ہم رہ رہے ہیں

مگر سورج کی پچاس گنا کمیت والا ستارہ بہت تھوڑے عرصے تک ہی جل سکتا ہے، شاید زیادہ سے زیادہ دس لاکھ سال تک، جس کے بعد اس کا ایندھن ختم ہو جائے گا اور وہ مر جائے گا۔ اسی لیے بگ بینگ کے بعد ایک ابتدائی ستارے کے 900 ملین (90 کروڑ) سال تک زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ایسے الگ تھگ ماحول میں پایا جائے، جہاں گیس میں کسی طرح کی ملاوٹ نہ ہو۔ یہ ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہے

ویلچ کہتے ہیں ”ہاں، ہمیں توقع ہے کہ ائیرنڈل میں بھی کچھ بھاری دھاتیں شامل ہوئی ہوں گی مگر اتنی نہیں، جتنی آج ہمارے ماحول میں ہیں“

ان کا کہنا ہے ”یہ امکان بھی ہے کہ یہ پاپولیشن III ستارہ ہو۔ بعض دوسرے جائزے بتاتے ہیں کہ اس قسم کے ستارے کہکشاؤں کے بیرونی حصوں میں پائے جا سکتے ہیں مگر اس کے لیے ہمیں جیمز ویب جیسی دوربینوں سے حاصل ہونے والی تفصیلی معلومات کی ضرورت ہوگی“

واضح رہے اب جیمز ویب، ہبل کی جگہ لے رہی ہے۔ اسے گزشتہ دسمبر میں لانچ کیا گیا تھا۔ اس کا عدسہ زیادہ بڑا اور تجزیاتی آلات کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ اس لیے یہ امید کی جا رہی ہے کہ یہ وہ تفصیلات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی، جو ہبل کے بس سے باہر تھیں

جیمز ویب دو یا تین ماہ کے اندر سائنسی آپریشن شروع کر دے گی۔ ویلچ اور ان کی ٹیم کو اس نئی رصد گاہ سے ایئرنڈل کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے لیے وقت پہلے ہی متعین کر دیا گیا ہے

لیکن یہ لمحہ ہبل کی لیاقت پر جشن منانے کا ہے۔ اسے 1990ع میں لانچ کیا گیا تھا اور اگرچہ اب اس کی جگہ نئی دوربین لینے والی ہے، مگر ہبل حیران کن دریافتوں میں مصروف ہے

امریکی خلائی ادارے ناسا کی پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر جینیفر وائزمین کہتی ہیں ”ہبل خلائی دوربین بالکل ٹھیک کام کر رہی ہے۔ یہ طاقتور ہے۔ سائنسی اعتبار سے ہمیشہ کی طرح کار آمد ہے اور ہماری نظریں اب اس سائنسی تحقیق پر ہے، جو ہبل آنے والی دنوں میں کرے گی۔ ہم ہبل خلائی دوربین کو جیمز ویب خلائی دوربین کے ساتھ ساتھ کام کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ان دونوں کے ہوتے ہوئے ہم کائنات کے بارے میں وہ بہت کچھ سیکھ پائیں گے، جو پہلے کبھی بھی علم میں نہیں تھا“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close