میں نے دیکھا وہ رو رہی تھی!

محمد خان داؤد

جب وہ ٹھیک تھی تو پیسے کی سخت قلت تھی، جب وہ بیمار رہنے لگی تو پیسہ وافر ہوگیا..

اسے دال پسند نہیں تھی، لیکن آئے دن گھر میں دال ہی پکتی۔ مجھ سمیت گھر کے سبھی افراد دال کو مرغی سمجھ کر کھا جا تے اور وہ دال پکا کر پورا دن یا پوری رات بھوکی رہتی اور بھوکی ہی سو جاتی۔

جب وہ ٹھیک تھی تو اس کے پیر اکثر و بیشتر ننگے رہتے، سخت گرمی میں بھی اور سخت سردی میں بھی.. جب وہ بیمار رہنے لگی، اسے اپنا ہی ہوش نہ تھا، تو میں اس کے لیے شہر کی مارکیٹوں کے سپر اسٹوروں سے جوتوں کی کئی جوڑیاں لے کر آیا.. پر اب وہ جو تے کس کام کے.. سوائے اس کے، کہ جب وہ بہت زیادہ یاد آئے تو ان جوتوں میں رسی ڈال کر اور ان کا ہار بنا کر اپنے کاندھے پر ڈالے اس بات پر ماتم کرتا رہوں، کہ وہ اس گھر میں کیوں بیاہی گئی جہاں اسے کبھی عزت نہیں ملی!

جب وہ ٹھیک تھی تو اس کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے ہوتے.. میں اسے دیکھتا کہ اس کی چھاتیاں نظر آ رہی ہیں.. پر وہ بھی کیا کرتی، کہ اس کی ایک نہیں پر دو بچیاں اب اس کے برابر ہو گئی تھیں… اس کے پاس جو کپڑے تھے، ان کپڑوں سے اس نے ان جوان ہوتی بچیوں کے جسموں کو ڈھک دیا اور خود پرانے ، پھٹے کپڑوں میں آدھی ننگی آدھی ڈھکی چھپی نظر آتی!

میں ﷲ سے کہتا
ﷲ! مجھے جلدی بڑا کر دے، کوئی کام دے دے… میں اسے بہت سے اچھے کپڑے لادوں اوراس کا جسم ڈھک سکوں..
اب بہت سے کپڑے ہیں تھے، پر اسے کچھ خبر نہ تھی
اور اب وہ کپڑے آئے دن میں رات کو پہن کر اس کے بستر پر سو جاتا ہوں..

ہاں تو جب وہ ٹھیک تھی، تو پیسے کی قلت تھی
اور جب وہ بیمار رہنے لگی تو پیسہ وافر ہو گیا..
اب وہ پیسہ مجھے روز سانپ بن کر ڈستا ہے اور میں ہوں کہ خاموشی سے اس ڈسے جانے کی اذیت برداشت کر رہا ہوں..

جب وہ ٹھیک تھی، تو راشن کی دکان کا بل بہت زیادہ آ جاتا تھا اور اس کے سارے دیور اسے گالیاں دیتے، اسے برا بھلا کہتے اور یہ الزام تراشی کرتے کہ اس کے بچے بہت ہیں اور وہ زیادہ راشن کھا جا تے ہیں… یا یہ کمینی چھپ چھپا کر راشن کی دکان سے اپنے لیے الگ سے کچھ منگاتی ہوگی..
جب  بات بڑھ جاتی، گھر کے کچھ لوگ مجھے مارتے پیٹتے اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے گھسیٹتے ہوئے اس دکان والے کے پاس لے جا تے… کیوں کہ میں ہی اس کا بیٹا تھا جو باہر آ جا سکتا تھا، گھر کے مرد جب مجھے گھسیٹتے لے جاتے تو وہ کسی زخمی ہرنی کی طرح، کسی مورنی کی طرح میرے پیچھے بھاگتی.. اور پھر گھر کا دروازہ بند ہو جاتا اور گھر کے مرد دکان  تک مجھے مارتے جاتے، ڈرا تے جاتے، دھمکاتے جاتے اور کہتے کہ اگر اس دکان والے نے بتا دیا کہ تُو اس سے کچھ لیتا رہا ہے، تو پھر تیری اور اس کُتیا کی خیر نہیں!
میں یہ سن کر سہم جاتا، اور راستے میں مجھے  ڈر لگا رہتا، کہ اگر دکان والے نے مجھے دیکھ کر کہہ دیا کہ یہ کچھ لیتا رہا ہے تو پھر…!!!؟
اور پھر خوف کی لہر میرے جسم میں دوڑ  جاتی اور یہ سوچ کر کانپ کر رہ جاتا کہ یہ میری معصوم امی کو نہیں چھوڑیں گے.
وہ مجھے مارتے جاتے، میں ان کے ساتھ گھسٹتا ہوا چلتا رہتا..
اور دل میں دعا کرتا جاتا کہ یا ﷲ، اس راستے کو بہت طویل کر دے، کی وہ دکان کبھی نہ آئے…
لیکن راستہ ختم ہو جاتا اور میری دعاؤں کو منزل نہ ملتی…

راستہ ختم اور میری آزمائش شروع ہو جاتی
گھر کا کوئی مرد کرخت آواز میں دکان دار سے پوچھتا کہ کیا یہ لڑکا تم سے ادھار پر کچھ لیتا رہا ہے؟
دکان دار میری حالت کو دیکھتا اور میں دل ہی دل میں ﷲ کو یوں پکارنے لگتا، جیسے موت کے قریب کوئی شخص پکارتا ہے..
کافی غور کرنے کے بعد دکان دار کہتا
نہیں.. یہ کون ہے؟ آپ کا سودا سلف تو آپ کا بھائی حنیف لے جاتا ہے!

اور پھر اس بدمعاش کے بے رحم ہاتھوں کی گرفت میرے گریبان پر ڈھیلی پڑتے ہی میں گھر کی طرف دوڑ لگا دیتا، جہاں چھ بہنوں اور ماں کے چہروں کو اداسی کے کہرے کے اس پار بے بسی میں لپٹے ہوئے دیکھتا… مجھے دیکھ کر ماں مجھے یوں گلے سے لگا لیتی، جیسے پرندہ اپنے بچوں کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتا ہے…
اور پھر بچے ہوئے آنسوؤں اور گلے میں اٹکی ہوئی ہچکیوں سے بہت روتی… بہت روتی!

پھر وہ بیمار ہو گئی……

جب بھی راشن کی دکان کو دیکھتا تو میں دل ہی دل میں سوچتا کہ میں اماں کو یہ بھی کھلاؤں گا.. وہ بھی کھلاؤں گا…
جو میرا دل کرے گا، وہ بھی کھلاؤں گا اور جو امی کا دل کر ے گا اسے وہ بھی لا دوں گا..
جب میرے پاس پیسے آگئے تو میری یہ معصوم سی خواہش بھی حسرت کا روپ دھار چکی تھی… اب وہ بہت بیمار رہنے لگی تھی، اب میں اسے کیا کھلاتا اور وہ کیا کھاتی… صبح کا دودھ اس کے سرہانے رکھے رکھے رات تک خراب ہوجاتا اور رات کا دودھ رکھے رکھے صبح تک پینے کے قابل نہ رہتا…
وہ شدید بیمار ہو گئی تھی!
میری معصوم امی
میری پیاری امی
میری ان پڑھ امی!
میری بے زباں امی!

جب میں نے دیکھا کہ اسے کوئی کچھ نہیں دیتا۔اس کا شوہر بھی اسے کچھ نہیں دیتا تو میں نے سوچا مجھے کوئی کام کرنا چاہیے اور مجھے کچھ نہیں آتا تھا۔ میں خود بہت مشکلیں اور پریشانیاں جھیل کر انٹرمیڈیٹ کے پہلے سال میں داخل ہوا تھا.. تو مجھے ایک دن میرے دوست نے کہا کہ ہماری ایک میڈم ہے، اس کی بچی کو سندھی کی ٹیوشن پڑھانی ہے، کیا تم پڑھاؤ گے؟
میں نے سوچا کہ مجھے کیا آتا ہے؟ میں نے تو کبھی کسی کو الف بھی نہیں پڑھایا.. لیکن نہ جانے کیا سوچ کر پھر میں نے ہاں کر دی.

میٹرک کے امتحانوں میں بس دو ماہ رہ گئے تھے، میں نے اس لڑکی کو دل و جاں سے سندھی کی ٹیوشن پڑھائی۔ گھر میں بھوک، افلاس، گالیاں، مار کٹائی سب چلتے رہے اور میں ہفتہ میں تین روز مغرب کے بعد اس لڑکی کو سندھی پڑھاتا رہا..
جس دن اس لڑکی کا سندھی کا پیپر تھا۔ پیپر کے دوسرے دن اس لڑکی کی امی نے مجھے آنے کو کہا
میں اس کے گھر گیا، تو وہ بہت ہی عزت سے پیش آئی اور کہا کہ میری بچی کا پیپر بہت اچھا ہوا ہے..
اس نے مجھے مٹھائی کا ڈبہ
اور آٹھ سو روپے دیے……..

میں وہ مٹھائی اور آٹھ سو روپے لیے گھر کی طرف دوڑا.. اس دن وہ راستہ بہت طویل ہو گیا تھا…
میں گھر میں آیا، آتے ہی امی کا پوچھا… وہ باورچی خانے میں روٹیاں پکا رہی تھی… گرمی کے دن تھے اور وہ پسینہ پسینہ تھی۔ میں نے مٹھائی کا ڈبہ اور اپنی زندگی کی کمائی کے پہلے آٹھ سو روپے امی کو دے دیے..
وہ جذبات پر قابو نہ رکھ پائی، اُٹھی اور میرے گالوں کو چومتی رہی۔
اور میں نے دیکھا وہ رو رہی تھی!!!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close