جنگلات کی تباہی: خاموش تماشائی کب تک؟

رضا ہمدانی

پاکستان میں وائلڈ لائف جو پہلے ہی سے مشکلات کا شکار تھی، اس کو مزید خطرے میں ڈالا گیا ہے۔ گذشتہ ایک دہائی میں وسیع پیمانے پر وائلڈ لائف کی فطری مسکنوں کو تباہ کیا گیا اور انسانی سرگرمیوں کے باعث ان میں تبدیلی آئی ہے

صرف یہی نہیں، بلکہ ملک بھر میں تیزی سے جاری جنگلات کے خاتمے اور غیر قانونی شکار اور کاروبار نے بھی پاکستان میں وائلڈ لائف کو مزید متاثر کیا ہے

پنجاب کا محکمہ وائلڈ لائف پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ ایک طرف انسانی سرگرمیاں اور دوسری جانب موسمی تبدیلی کے باعث صوبہ پنجاب میں حیاتیات کی آماجگاہیں کم ہوتی جا رہی ہیں۔

لیکن ایسا صرف پاکستان ہی میں نہیں ہو رہا کیونکہ موسمی تبدیلی کے باعث دنیا بھر میں وائلڈ لائف متاثر ہو رہی ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب میں مائگریٹری پرندوں میں کافی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پانی کی وہ جگہیںز جہاں یہ پرندے آتے تھے وہ آلودہ ہو چکی ہیں اور ان میں کمی واقع ہو رہی ہے

اقوام متحدہ کے پینل برائے موسمی تبدیلی نے حال ہی میں دنیا کو خبردار کیا ہے کہ موسمی حدت خطرناک حد تک قابو سے باہر ہونے کے قریب ہے اور اس کے ذمہ دار انسان خود ہیں

ان کا کہنا ہے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں شدید گرمی میں اضافہ ہی ہوگا، کمی واقع نہیں ہوگی یعنی شدید گرمی کی لہر، سیلاب اور دیگر شدید موسمی واقعات، جو اس وقت مختلف ممالک میں واقع ہو رہے ہیں، ان میں مزید شدت آئے گی

پاکستان کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے، جو موسمی تبدیلی سے متاثر ہیں۔ پورتو ریکو، میانمار، ہیٹی، فلپائن کے بعد پاکستان کا نام ہے

ایکشن ایڈ اور دیگر تنظیموں کی جانب سے تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمی تبدیلی کو روکنے کے لیے اقدامات اٹھانے کے باوجود سمندری سطح میں اضافے، پانی کی قلت، زراعتی پیداوار میں کمی اور خشک سالی کے باعث خدشہ ہے کہ 2030ع تک پاکستان میں چھ لاکھ افراد بے گھر ہو جائیں گے اور نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے

تاہم اگر موسمی تبدیلی کو روکنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو متاثر ہونے والے افراد کی تعداد دگنی یعنی بارہ لاکھ ہو سکتی ہے

دوسری جانب جنگلات میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ صرف سندھ میں جنگلات میں تشویشناک حد تک جنگلات میں کمی ہوئی ہے اور اب سندھ میں جنگلات محض دو فیصد رہ گئے ہیں

اس کی بڑی وجہ جنگلات میں تجاوزات اور جنگلات کو کاٹنا ہے

جنگلات کے تیزی سے خاتمے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ تین دہائیوں میں دو لاکھ ایکڑ جنگلات کی زمین پر یا تو غیر قانونی طور پر قبضہ کر لیا گیا ہے یا پھر اپنے پسندیدہ لوگوں کو مختلف مقاصد کے لیے الاٹ کر دیا گیا ہے

موسمی تبدیلی کے باعث جنگلات پر دنیا بھر میں توجہ دی جا رہی ہے لیکن پاکستان میں شاید اس کو نہ تو توجہ دی جا رہی ہے اور نہ ہی زیادہ آگاہی

تقسیم ہند کے وقت پاکستان میں جنگلات کُل رقبے کا 33 فیصد تھا جو کہ 1990ع میں کم ہو کر محض 3.3 فیصد رہ گیا۔ اور 2015ع میں اس سے بھی مزید کم ہو کر 1.9 فیصد رہ گیا

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کا کہنا ہے کہ انسانی سرگرمیوں سے وائلڈ لائف کو کئی طرح سے خطرہ ہے

ایک تو یہ کہ ان کے مسکنوں نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور دوسری یہ کہ ان علاقوں کے اس طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے کہ وہ دوبارہ وائلڈ لائف کے رہنے کے لیے نہیں رہ جاتیں

وائلڈ لائف کی آماج گاہوں پر بڑے پیمانے پر قبضہ کر کے یا تو زراعت ہو رہی ہے، یا شہر پھیلتے ہوئے وہاں تک پہنچ گیا ہے

دوسری جانب بہت سی وائلڈ لائف کو اس لیے خطرہ ہے کہ ان کو بڑے پیمانے پر شکار کیا جا رہا ہے اور کچھ کو معدومیت کی جانب بین الاقوامی تجارت یا انسانوں کے ساتھ سامنے کے باعث مار دینے کی وجہ سے دھکیلا جا رہا ہے

لیکن اگر حکومت کوشش کرے تو اسی وائلڈ لائف کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ جیسے کہ ایک وقت تھا جب دریائے سندھ میں محض پانچ سے چھ سو ڈولفن رہ گئی تھی لیکن سندھ وائلڈ لائف کی محنت اور عوام آگاہی مہم کے باعث ڈولفن کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے. لیکن بدقسمتی سے اسی سندھ وائلڈ لائف کا طرز عمل جنگلات کے معاملے میں بلکل برعکس ہے

جنگلات ہماری روز مرہ کی زندگی سے لے کر وہ ہوا، جس میں ہم سانس لیتے ہیں، کا اہم جزو ہے. یہی وجہ ہے کہ جنگلات کو زمین کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے

جنگلی حیات کو خوراک سے لے کر ان کی پناہ گاہ تک جنگلات کی اہمیت کو جتنا زیادہ اجاگر کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔ لیکن اس کے باوجود جنگلات کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہو رہے ہیں اور ہم جنگلات کی اس تباہی کو خاموش تماشائی کی طرح دیکھ رہے ہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close