حلیم کا سفر… ’آٹھ آنے‘ کی پلیٹ سے کروڑوں کے کاروبار تک!

ویب ڈیسک

حیدرآباد دکن – بھارتی شہر حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والے ممتاز مورخ اور مصنف علامہ اعجاز فرخ بھارت کے اس جنوبی شہر میں حلیم کے متعارف ہونے اور اس کی مانگ و کاروبار کے لحاظ سے عروج پر پہنچنے کی مختصر کہانی یوں بیان کرتے ہیں

”1950ع کی دہائی کے اوائل میں ایرانی نژاد حیدرآبادی تاجر آغا حسین ضابط نے تاریخی چارمینار سے چند سو میٹر کی دوری پر واقع مدینہ ہوٹل میں ایرانی حلیم بنا کر بیچنی شروع کی۔ تب آٹھ آنے یا پچاس پیسے میں اتنی حلیم ملتی تھی کہ انسان کا شکم سیر ہوتا تھا۔ جب لوگ حلیم کو بڑے ہی شوق سے کھانے لگے تو دوسرے ریستوران مالکان نے بھی یہ لذیذ ضیافت بنا کر گاہکوں کی خدمت میں پیش کرنا شروع کی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ شہر حیدرآباد کی کوئی سڑک یا گلی کوچہ ایسا نہیں، جہاں آپ کو رمضان میں حلیم کے دیگیں نظر نہ آئیں۔ دوسرے الفاظ میں کہوں تو ہمارے یہاں اب بغیر حلیم کے رمضان کا تصور بھی محال ہے“

حیدرآباد کے چارمینار علاقے میں جس جگہ پر آغا حسین ضابط کا ہوٹل واقع تھا، اس کا نام پتھر گھٹی ہے اور جس عمارت میں قائم تھا اس کا نام ’مدینہ بلڈنگ‘ ہے جس کی بذات خود اپنی خوبصورت اور دلچسپ تاریخ ہے

حیدرآباد دکن کے آخری نظام نواب میر عثمان علی خان نے مدینہ بلڈنگ 1944ع کے آس پاس تعمیر کروائی تھی اور اس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا کرایہ 1960ع کی دہائی تک مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کی ترقی اور رکھ رکھاؤ کے لیے سعودی عرب جاتا رہا.

گذشتہ سات دہائیوں کے دوران جہاں مختلف مصالحہ جات کے کثرت سے استعمال اور نت نئے تجربوں سے حلیم کے ذائقے میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے وہیں نہ صرف مدینہ ہوٹل کا رنگ و روپ بلکہ اس کے مالکان بھی تبدیل ہوئے ہیں

اب مدینہ ہوٹل اتنا وسیع و عریض نہیں ہے، جتنا اس وقت تھا، جب اس کا نظام دکن میر عثمان علی خان کے ہاتھوں افتتاح ہوا تھا۔ تاہم عرب نژاد حیدرآبادی کاروباری گھرانہ ’جابری خاندان،‘ جس کے پاس اب اس ہوٹل کے مالکانہ حقوق ہیں، نے اسے دلہن کی طرح سجا رکھا ہے

علامہ اعجاز فرخ کہتے ہیں ”حلیم ایک ایرانی ڈش ہے اور لفظ ’حلیم‘ کا لغوی معنی ’نرم‘ یا ’ملائم‘ ہے۔ چونکہ یہ ڈش بہت ہی نرم اور ملائم ہوتی ہے اس وجہ سے حلیم کہلاتی ہے۔“

وہ کہتے ہیں ”حیدرآباد کی حلیم ایرانی حلیم کے مقابلے میں بہت تیکھی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مرچی اور دیگر مصالحوں کا ذوق زیادہ ہے۔ ایران میں بننے والی حلیم میں اتنے مصالحے نہیں ڈالے جاتے، جتنے مصالحے یہاں بننے والی حلیم میں ڈالے جاتے ہیں۔‘

علامہ اعجاز کے مطابق حلیم جسم کو قوت دینے والی ڈش ہے، یہی وجہ ہے کہ روزے دار اس کو افطاری کے وقت کھانا پسند کرتے ہیں۔ اس میں استعمال ہونے والی تین اہم چیزیں جیسے گوشت، گیہوں اور اصلی گھی سبھی مقوی ہیں۔ اب رمضان اور حلیم دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔‘

حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے محقق ڈاکٹر محمد سیف اللہ، جنہوں نے حیدرآبادی کھانوں پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے، نے بتایا کہ حلیم رمضان میں اس لیے زیادہ کھائی جاتی ہے کیوں کہ یہ ایک آسانی سے اور جلد ہضم ہونے والی ڈش ہے

’حلیم میں استعمال ہونے والے گوشت پوری طرح سے گلے ہوتے ہیں۔ چوں کہ یہ ایک طاقت اور توانائی بخشنے والی ڈش ہے اس وجہ سے بھی اس کو رمضان میں زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ حلیم میں جو بنیادی چیزیں استعمال ہوتی ہیں جیسے گوشت اور گیہوں ان میں پروٹین کی مقدار اچھی خاصی ہوتی ہے۔‘

ڈاکٹر سیف اللہ نے دعویٰ کیا کہ حیدرآباد دکن میں مسلمانوں سے زیادہ ہندو حلیم کھاتے ہیں، جس کے نتیجے میں اب یہ ڈش کچھ جگہوں پر سال کے بارہ مہینے دستیاب رہنے لگی ہے

‘یہاں پر آج کل کم از کم چار اقسام کی نان ویج حلیم بنتی ہے جس میں مٹن حلیم، چکن حلیم، بیف حلیم اور فش حلیم شامل ہیں۔ دنیا کے کسی بھی شہر میں اتنی حلیم نہیں کھائی جاتی جتنی حیدرآباد میں کھائی جاتی ہے۔ اس کاروبار سے ہر سال رمضان میں ہزاروں لوگوں کو کام مل جاتا ہے۔‘

سابق پروفیسر اور مصنف ڈاکٹر آنند راج ورما نے بتایا کہ حیدرآباد میں جتنا انتظار مسلمانوں کو حلیم کھانے کا ہوتا ہے، اس سے زیادہ ہندوؤں کو ہوتا ہے

’آپ کو ہر ایک ریستوران میں جتنے مسلمان حلیم کھاتے ہوئے دکھائی دیں گے، اتنے ہندو بھی نظر آئیں گے. میں خود حلیم بڑے شوق سے کھاتا ہوں۔ مسلمان دوست بھی بھیجتے رہتے ہیں۔

’یہاں کے ہندو اپنے مسلمان بھائیوں پر یقین کر کے ہی حلیم کھاتے ہیں۔ ریستوران والے خدانخواستہ پوٹلے (بھیڑ) کے گوشت کے ساتھ بڑا گوشت (بیف) بھی ملا سکتے ہیں۔ ہم اور آپ پہچان نہیں پائیں گے۔‘

آنند راج ورما کہتے ہیں کہ حیدرآباد میں حلیم افطار کا لازمی جز بن رہی ہے اور ریستورانوں میں بھیڑ کا یہ عالم ہوتا ہے ان میں سے اکثر سحری تک کھلے رہتے ہیں

’آج سے دس بارہ سال پہلے حلیم صرف رمضان میں کھائی جاتی تھی، لیکن اب وہ بات نہیں رہی۔ اب کچھ ریستوران ایسے بھی ہیں جو سال کے بارہ مہینے حلیم بناتے ہیں۔

’ہر ایک ریستوران اپنی حلیم کو بالاتر بتانے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر میرے ذائقے کے مطابق ہر حلیم میں انیس بیس کا ہی فرق ہوتا ہے۔‘

ہریس سے حلیم تک

علامہ اعجاز فرخ کے مطابق حیدرآباد دکن میں حلیم سات دہائی پرانی ڈش ہے اور اس سے پہلے یہاں ایک زمانے میں عربی ڈش ’ہریس‘ بنتی تھی

”ہمارے ہاں حلیم سے پہلے اس جیسی ہی ایک ڈش ملتی تھی جس کا نام ہریس ہے۔ ہریس ایک بہت پرانی عربی ڈش ہے۔ یہ ڈش یہاں ملازمت کے سلسلے میں آنے والے عرب شہریوں نے لائی تھی۔ ہریس میں گیہوں اور گوشت کا استعمال ہوتا تھا۔ یہاں عرب شہری جس علاقے میں رہائش پذیر ہیں، اس کو بارکس کہتے ہیں۔ وہاں ہریس بنتی اور بکتی بھی تھی۔“

علامہ اعجاز کے بقول عرب شہریوں سے پہلے ایرانیوں کا حیدرآباد دکن آنا شروع ہوا تھا، جس کی ایک وجہ یہ تھی شہر کی بنیاد رکھنے والے قطب شاہی حکمران ایرانی النسل تھے۔ ”قطب شاہی عہد حکومت میں ہی ایرانیوں کا حیدرآباد آنا شروع ہوا تھا۔ ایرانیوں نے یہاں کے ذائقے کے مطابق ایرانی حلیم میں دیگر مصالحے جیسے شاہی زیرہ، دارچینی، لونگ، الائچی وغیرہ وغیرہ استعمال کرنے شروع کیے اور اس طرح یہاں یہ ڈش حیدرآبادی حلیم کہلائی جانے لگی جو ایران میں بننے والی حلیم سے ذائقے میں مختلف ہے۔“

علامہ اعجاز نے بتایا ”1950 کی دہائی میں جب مدینہ ہوٹل کی حلیم بہت مشہور ہوئی تو یہ نزدیک میں واقع پیلس ہوٹل اور مکہ ہوٹل میں بھی بننے لگی۔ اس زمانے میں بھیڑ کے گوشت کی بنتی تھی۔ پھر بکرے کے گوشت کی بننے لگی۔ آج کل تو گائے کے گوشت کی حلیم زیادہ فروخت ہوتی ہے کیوں کہ یہ بہت سستی ہوتی ہے۔“

مرزا علی معروف بہ علی سروی کا تعلق آغا حسین ضابط کے خاندان سے ہے اور وہ حیدرآباد کے پاش علاقہ بنجارہ ہلز میں واقع مشہور ریستوران ’سروی‘ کے مالک ہیں

ان کے مطابق ’یہ آغا حسین ضابط ہی تھے جنہوں نے حیدرآباد میں ایرانی حلیم، جو یہاں حیدرآبادی حلیم کے نام سے مشہور ہے، متعارف کرائی۔ پھر 1960 کی دہائی میں اچانک لوگوں کے اندر رمضان میں حلیم کھانے کا شوق بڑھ گیا جو اب ایک جنون کی شکل اختیار کر گیا ہے۔‘

مرزا علی کہتے ہیں کہ حلیم ایک قوت بخش ڈش ہے جو ایران میں عاشورہ کے دن عزاداروں کو ’نذر امام حسین‘ کے طور پر پیش کی جاتی ہے

’یہ روایت آج بھی ایران کے گلی کوچوں میں برقرار ہے۔ وہاں حلیم کی دیگیں عاشورہ کی رات تیار کر کے صبح میں عزاداروں کو نذر امام حسین کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔

’یہاں حیدرآباد میں ہم ایرانیوں کی دربار حسینی کے نام سے ایک قدیم مسجد ہے۔ اس میں بھی ہم نے عزاداروں کو حلیم پیش کرنے کی روایت برقرار رکھی ہے۔ یہ سلسلہ پچھلے پانچ چھ دہائیوں سے جاری ہے۔‘

تاہم حیدرآبادی مورخ سجاد شاہد کے مطابق آغا حسین ضابط سے قبل نظام دکن کے یمنی النسل وزیر سلطان سیف نواز جنگ نے یہاں ہریس متعارف کرائی تھی۔”وہ مہمانوں کو دیے جانے والے عشائیوں میں ہریس کو خاص طور پر اپنے دسترخوان کی زینت بناتے تھے۔“

ڈاکٹر سیف اللہ کہتے ہیں ”حیدرآبادی حلیم ذائقہ کے اعتبار سے ایران، ترکی، عراق اور فلسطین میں بننے والی حلیم سے الگ اور مختلف ہوتی ہے. حلیم اب حیدرآباد کی پہچان بن گئی ہے۔ یہاں سے حلیم بھارت کے دوسرے شہروں یہاں تک کہ دوسرے ممالک برآمد کی جاتی ہے“

حیدرآبادی کھانوں کے ماہر اور مورخ محبوب عالم خان کا کہنا ہے ”حلیم الگ الگ ناموں سے دنیا کے تقریباً تمام مسلم ملک میں بنتی ہے۔ کہیں یہ ہریس تو کہیں حلیم کہلاتی ہے۔ بعض ممالک میں دوسرے ناموں سے بنتی ہے۔ میں نے ترکی میں بھی حلیم یا ہریس کھائی ہے۔ وہاں گیہوں الگ اور گوشت اور اس کا شوربا الگ ملتا ہے۔ پھر دونوں چیزیں ملا کر کھائی جاتی ہیں۔ میں نے پاکستان کے شہر لاہور میں ہریس روٹی کے ساتھ کھایا ہے۔ لاہوری ہریس یا ہریسہ تقسیم ہند سے قبل امرتسر کی ڈش تھی۔ جو آج بدقسمتی سے امرتسر میں نہیں بلکہ لاہور میں ملتی ہے۔“

محبوب عالم خان کہتے ہیں کہ عرب اور دیگر مسلم ممالک میں بننے والی حلیم یا ہریس بھارت اور پاکستانیوں کے ذائقے کے مطابق نہیں ہوتی کیوں کہ اس میں کم مصالحوں کا استعمال ہوتا ہے

دنیا کا سب سے بڑا حلیم بنانے والا شہر

محبوب عالم خان کا دعویٰ ہے کہ حیدرآباد میں جتنی حلیم بنتی ہے، دنیا کے کسی اور حصے میں نہیں بنتی

’ہر روز سینکڑوں ٹن حلیم بنتی ہے اور کھائی جاتی ہے۔ لیکن یہ اب وہ حلیم نہیں رہی، جس کو ہم گھروں میں بنا کر کھاتے تھے۔ اب یہ کمرشلائز ہو گئی ہے۔

’حلیم میں ایک بڑی تبدیلی یہ لائی گئی ہے کہ ریستوران مالکان اب ثابت گیہوں کی جگہ روا استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے استعمال سے حلیم کا روایتی ذائقہ تبدیل ہوا ہے۔

’اس کے علاوہ ان کے ہاتھ جو بھی مصالحہ آتا ہے وہ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن میں اپنے گھر میں اب بھی اسی طریقے سے حلیم تیار کرتا ہوں جو طریقہ میں نے اپنے باب دادا سے سیکھا تھا۔‘

محبوب عالم خان کہتے ہیں کہ حیدرآباد میں اب بعض ریستوران مالکان چکن کی بھی حلیم بنانے لگے ہیں، جو ایک اچھا تجربہ نہیں ہے

’میرا ماننا ہے کہ چکن کی حلیم اس وجہ سے نہیں بن سکتی کیوں کہ آپ چکن کو گھوٹ نہیں سکتے۔ اب بھارت میں ویجیٹیرین حلیم بھی بننے لگی ہے۔ یہ تجربات صحیح نہیں ہیں۔‘

محبوب عالم خان نے حلیم کھانے کے مضر اثرات کے بارے میں پوچھے جانے پر کہا: ’لوگوں میں صحت بخش خوراک کا شعور تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ وہ کوئی بھی چیز کھانے سے پہلے کئی بار سوچتے ہیں۔ لیکن اگر آپ حلیم یا حیدرآبادی بریانی کھا رہے ہیں تو پھر آپ کو اپنی اس سوچ کے ساتھ سمجھوتہ کرنا ہوگا کیوں کہ حلیم اور بریانی دونوں ہائی پروٹین ڈشز ہیں۔‘

حلیم اور ’تلنگانہ پوٹلہ‘

حیدرآباد کی تاریخ کے مطالعے میں گہری دلچسپی رکھنے والے نوجوان محقق ڈاکٹر حسیب جعفری کہتے ہیں کہ حیدرآبادی حلیم کو غیر معمولی ذائقہ بخشنے میں ’تلنگانہ پوٹلہ‘ یا ’تلنگانہ گوشت‘ کا بڑا کردار ہے۔

’ہمارے یہاں گوشت کی کوالٹی شمالی بھارت کے مقابلے میں بہتر ہے۔ ہم بھیڑوں کی جو نسل پالتے اور کھاتے ہیں اس کا نام تلنگانہ پوٹلہ ہے۔

’اگر ہم بھیڑوں کی اس نسل کی تاریخ میں جائیں گے تو یہ انڈین اور ترکش بھیڑوں کی کراس بریڈ ہے جو آج سے زائد از چار سال سو سال قبل قطب شاہی دور حکومت میں وجود میں آئی

’تلنگانہ پوٹلہ کھانے میں بہت لذیذ ہوتا ہے۔ اگر یہاں کے کسی ڈش کا نسخہ ہم دہلی میں اپنائیں گے تو سب کچھ صحیح کرنے کے باوجود وہ مزہ نہیں آتا جو ہمیں حیدرآباد میں ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی حلیم باقی جگہوں پر بننے والی حلیم یا ہریس کے مقابلے میں زیادہ لذیذ ہوتی ہے۔‘

بہت مشقت والا کام

حیدرآباد دکن میں رمضان شروع ہونے سے کئی ہفتے قبل ہی جگہ جگہ پر حلیم کی بھٹیاں قائم ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ان بھٹیوں کے ایندھن کے لیے لکڑیوں یا گیس کا استعمال کیا جاتا ہے

علامہ اعجاز فرخ کہتے ہیں: ’حلیم بنانا ایک بہت ہی محنت و مشقت والا کام ہے۔ اس کے لیے بھٹیاں بنائی جاتی ہیں اور تانبے کی دیگوں کا استعمال ہوتا ہے۔ گیہوں اور گوشت کو گھنٹوں تک گھوٹا جاتا ہے۔

’اصلی گھی اور زعفران کے استعمال سے اس کا مزہ اور خوشبو بڑھ جاتی ہے۔ اچھی حلیم میں زعفران ضرور ڈالی ہوتی ہے۔‘

ڈاکٹر حسیب جعفری کے مطابق حلیم کی تیاری میں بارہ سے سولہ گھنٹے لگتے ہیں۔

’آپ کو ایک دیگ حلیم بنانے کے لیے کم از کم تین سے چار لوگوں کی ضرورت ہے۔ دو لوگ لگاتار اس کو گھوٹنے کے کام میں لگے ہوتے ہیں۔ اس کی تیاری میں مشینری کی کوئی مداخلت نہیں ہے۔‘

کروڑوں روپے کا کاروبار

ایک اندازے کے مطابق حیدرآباد دکن میں رمضان میں آٹھ سے نو سو کروڑ روپے (تقریباً ساڑھے دس تا بارہ لاکھ امریکی ڈالرز) کی حلیم فروخت ہوتی ہے۔

حلیم کی تیاری میں درکار چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ریستوران مالکان نے اس بار حلیم کی قیمت بڑھا دی ہے۔ مشہور آؤٹ لٹس پر فی کس حلیم پلیٹ کی قیمت دو سو تیس سے تین سو کے درمیان ہے

ڈاکٹر حسیب جعفری کہتے ہیں کہ اس رمضان میں بھی حیدرآباد میں حلیم کی آؤٹ لٹس کی تعداد دس سے بارہ ہزار ہے۔

’حلیم کی وجہ سے رمضان میں کم از کم پچاس ہزار لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ کرونا کی وجہ سے دو سال تک لوگ اچھے سے حلیم نہیں کھا پائے تھے۔ اس بار اس کے کاروبار میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔‘

بھارتی اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق حیدرآباد میں حلیم بنانے والے ہر سال رمضان میں تقریباً ایک لاکھ لوگوں کو عارضی روزگار فراہم کرتے ہیں۔

’اس کے علاوہ بزنس ایڈمنسٹریشن اور دیگر پیشہ ور کورسز کے کم از کم ایک ہزار طلبہ مارکیٹنگ کی تکنیکوں اور حلیم اکنامکس کو سمجھنے کے لیے اپنے عارضی آؤٹ لٹس کھول کر پارٹ ٹائم حلیم بیچتے ہیں۔‘

اخبار نے لکھا ہے کہ حیدرآبادی حلیم کو جغرافیکل انڈیکیشن یا جی آئی ٹیگ ملنے اور کئی مہینوں تک تازہ رکھنے والی جدید پیکیجنگ ٹکنالوجی کے استعمال سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔

حلیم بنانے کا گھریلو نسخہ

بھارتی شہر حیدرآباد دکن کے محبوب عالم خان اپنے گھر میں خود حلیم تیار کرتے ہیں اور اس کا نسخہ شیئر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم آج بھی حلیم لکڑیاں جلا کر تانبے کے برتن میں پکاتے ہیں۔

’گوشت اور گیہوں کی مقدار کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ بغیر ہڈیوں والے گوشت کا ہم استعمال نہیں کرتے کیوں کہ جو ذائقہ ہڈیوں والے گوشت سے ملتا ہے وہ بغیر ہڈیوں والے سے نہیں ملتا۔

’ہم حلیم بنانے کے لیے ایک کلو گیہوں، دو سے ڈھائی یا پھر تین کلو گرام ہڈیوں والا گوشت اور ایک کلو گرام گھی کا استعمال کرتے ہیں۔

’پہلے سے بھگوئے ہوئے گیہوں کو ہاتھ سے کوٹ کر اس کا بھوسا الگ کر لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے گلنے کے لیے پکنے دیا جاتا ہے۔ گیہوں کو گل کر پکنے میں کم از کم دو سے ڈھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔

’اس کے بعد اس میں ہم گوشت کے ساتھ دیسی گھی، کچے یعنی بغیر فرائی کے پیاز، لال مرچ حسب ذائقہ، ہلدی ایک چمچ، گرم مصالحہ (الائچی، شاہی زیرا اور دار چینی)، لہسن، ذائقے کے لیے چٹکی بھر زعفران بھی ڈالتے ہیں۔ حلیم کو تیار کرنے میں کم از کم سات گھنٹے لگ جاتے ہیں۔‘

محبوب عالم خان کچے پیاز کے استعمال کے متعلق کہتے ہیں کہ فرائی پیاز اگر حلیم پکاتے ہوئے ڈالا جائے تو اس کا رنگ کالا ہو سکتا ہے۔

’ہم فرائی پیاز آخر میں حلیم کی اوپری تہہ پر سجاوٹ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close