پاکستان میں شدید گرم موسم سے فصلیں متاثر، بارشوں کی کمی سے آبی ذخائر بھی کم ترین سطح پر

ویب ڈیسک

جنوبی پنجاب کے شہر خانیوال کے کاشتکار شہزاد یونس اس سال گندم کی برآمد اور مقامی منڈی میں فروخت کے لیے اچھی پیداوار کی توقع کر رہے تھے۔ لیکن مارچ میں فصل کی کٹائی کے وقت ان کے شہر نے غیرمعمولی طور پر گرم اور خشک موسم کا سامنا کیا، جس کے نتیجے میں گندم کی پیداوار گذشتہ سال پچاس من فی ایکڑ سےانتہائی کم ہو کر اس سال صرف تیس من فی ایکڑ رہ گئی

شہزاد یونس نے بتایا ’اس مرتبہ گرمی بہت زیادہ اور بہت جلدی پڑی۔ اس نے ہماری فصل بھی کم کی ہے اور اس کا معیار بھی اچھا نہیں ہے کیونکہ اس مرتبہ بارش بھی نہیں ہوئی ہے‘

سینتیس سالہ شہزاد کا کہنا ہے کہ نہ صرف ان کے آبائی شہر خانیوال بلکہ جنوبی پنجاب کے بیشتر زرعی علاقوں میں زیادہ تر کسان اپنی فصلوں کے لیے پریشان ہیں

دوسری جانب عالمی بنیاد پر کی گئی ایک حالیہ تحقیق کے نتائج کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے عالمی اقتصادی پیداوار کو 4 فیصد خطرہ ہے

وزارت خزانہ کے 2021-2022 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا زرعی شعبہ اس کی معیشت کے لیے نہایت اہم ہے کیونکہ یہ جی ڈی پی میں 19.2 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے اور زرِ مبادلہ کمانے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے

شہزاد کا کہنا ہے ’ہم اس سال اپنی گندم برآمد کرنے کی امید کر رہے تھے لیکن اب شاید یہ صرف مقامی مانگ کو پورا کرنے کے لیے ہی کافی پڑے گی۔‘

خانیوال جس مسئلے کا سامنا کر رہا ہے وہ کوئی معمہ نہیں ہے۔ درحقیقت محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس سال مارچ کا مہینہ اکسٹھ سالوں میں سب سے زیادہ گرم رہا ہے

محکمہ موسمیات کے ایک ماہانہ جائزے میں کہا گیا ہے کہ ’مارچ 2022ع کا مہینہ 1961ع سے لے کر اب تک کا گرم ترین مہینہ تھا۔‘ یہی نہیں بلکہ محکمہ موسمیات کے مطابق گذشتہ ماہ ملک میں بارشیں بھی معمول سے 62 فیصد کم تھیں۔

محکمہ موسمیات پاکستان نے ملک بھر میں کپاس اور گندم کے کاشتکاروں کو اپریل کے مہینے کے لیے بھی الرٹ جاری کر رکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ‘اپریل کے مہینے میں درجہ حرارت بتدریج بڑھے گا۔ اس ماہ میں موسم خشک رہنے اور درجہ حرارت معمول سے زیادہ رہنے کا امکان ہے لہٰذا گندم کی فصل معمول سے جلد پک کر تیار ہونے کی توقع ہے۔‘

ڈائریکٹر جنرل محکمہ موسمیات پاکستان مہر صاحبزادہ خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے کئی شہروں میں مارچ میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت کے تاریخی ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ درحقیقت اس سال تو موسم بہار آیا ہی نہیں

ادھر بہاولپور میں 1959ع کے بعد پہلی بار مارچ میں درجہ حرارت 41 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔ اسی طرح چلاس کے شمالی علاقے میں درجہ حرارت 33.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا، جس نے 1974ع کا سابقہ ریکارڈ توڑ دیا

اس کے علاوہ کراچی کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب 2010 کے بعد پہلی بار درجہ حرارت 42.5 ڈگری تک پہنچ گیا

صاحبزادہ خان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس اس سال بھی معمول سے کم بارشیں ہوئی ہیں، جس کے نتیجے میں ہمارے آبی ذخائر اس وقت ڈیڈ لیول پر ہیں۔ تربیلا ڈیم اب پچاس دنوں سے ڈیڈ لیول پر ہے۔‘

واضح رہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پانچواں سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ملک ہے۔ گذشتہ سال اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی (آئی پی سی سی) کی رپورٹ نے انسانیت کے لیے ایک کوڈ ریڈ جاری کیا تھا

اس کے مطابق اگر دنیا نے موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے ابھی عملی اقدامات نہ کیے تو شدید گرمی کی لہروں، خشک سالی، سیلاب اور خوراک کی کمی کا انتباہ کیا گیا تھا

پاکستان سال در سال گرم ہوتا جا رہا ہے، جس سے فصلیں اور یہاں کے لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ 2018ع میں پاکستان نے اپریل کے گرم ترین مہینے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا، جب اس کے شہر نواب شاہ میں درجہ حرارت 50.2 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا

آئی پی سی سی کی رپورٹ میں خاص طور پر جنوبی ایشیا کا ذکر کیا گیا ہے جہاں گرمی کی لہریں اور نمی سے متعلق گرمی کا دباؤ شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اور یہ غلط بھی نہیں ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس سال صرف مارچ میں بھارت میں ایک درجن سے زیادہ گرمی کی لہریں ریکارڈ کی گئیں

کراچی میں شہری منصوبہ بندی کی پروفیسر نوشین انور اور ان کے ساتھیوں کی تحقیق ہے کہ کراچی دن کے وقت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ اور رات میں 2.5 ڈگری سینٹی گریڈ گرم ہوا ہے، جیسا کہ آئی پی سی سی کی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی ہے

پرفیسر نوشین انور نے انکشاف کیا کہ آج تک گرمی کی لہر یا دائمی گرمی سے نمٹنے کے لیے وفاقی یا صوبائی سطح پر کوئی ایکشن پلان موجود نہیں ہے

لیکن اکیلے ایکشن پلان سے بحران حل نہیں ہوگا۔ اس پر عمل درآمد کی ضرورت بھی ہوگی جس کے لیے وسائل درکار ہوں گے۔ اس کے باوجود ڈیزاسٹر مینجمنٹ بجٹ میں گرمی سے متعلقہ ہنگامی حالات کے لیے ابھی تک بمشکل کوئی رقم مختص کی گئی ہے

ایک بڑا مسئلہ ڈیٹا اور پالیسی بنانے کے لیے قابل اعتماد ڈیٹا ہے

نوشین انور بتاتی ہیں کہ کراچی میں محکمہ موسمیات کے پاس صرف ایک موسمی اسٹیشن ہے اور وہ بھی جناح ایئرپورٹ پر۔ سنگاپور کے مقابلے میں، جو کراچی جیسے منطقہ حارہ خطے میں واقع ہے اور اس کی آبادی بہت کم ہے لیکن پھر بھی اس کے پاس ساٹھ سے زیادہ خودکار موسمی اسٹیشن ہیں

نوشین انور کا کہنا ہے کہ ‘کراچی میں صرف ایک موسمی اسٹیشن کی وجہ سے یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ کراچی جیسے شہر پر گرمی کا کیا اثر ہوتا ہے۔ اور یہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ آئندہ چند ماہ موسم کے لحاظ سے پاکستان کے لیے زیادہ اچھے نہیں لگ رہے ہیں۔‘

پاکستان کے محکمہ موسمیات نے باقی ماندہ موسم گرما کے لیے شدید اور غیر متوقع موسم کی پیش گوئی کی ہے، جس میں اپریل میں معمول سے کم بارشیں اور جون میں ضرورت سے زیادہ بارشیں ہوں گی

نوشین انور کہتی ہیں ”ہمیں موسمیاتی تبدیلی کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا قومی مکالمہ ہے جس کی ہمیں ابھی ضرورت ہے“

موسمیاتی تبدیلی سے عالمی اقتصادی پیداوار کو 4 فیصد خطرہ ہے: تحقیق

موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا کے ایک سو پینتیس ممالک پر کی گئی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے 2050ع تک عالمی سطح پر سالانہ اقتصادی پیداوار میں چار فیصد کمی ہونے کا امکان ہے، جس سے دنیا کے بہت غریب ممالک کو غیر متناسب طور پر سخت نقصان پہنچ سکتا ہے

ممالک کو ان کی معیشتوں کی صحت کی بنیاد پر کریڈٹ اسکور دے کر درجہ بندی کرنے والی کمپنی پی اینڈ ایس گلوبل نے منگل کو ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں سمندر کی سطح میں اضافے کے ممکنہ اثرات، گرمی کی لہر میں باقاعدہ اضافہ، خشک سالی اور طوفانوں کا جائزہ لیا گیا

ایک ایسے بنیادی منظر نامے میں، جہاں دنیا کی بیشتر حکومتیں سائنسدانوں میں ’آر سی پی 4.5‘ کے نام سے جانی جانے والی بڑے پیمانے پر موسمیاتی تبدیلی اور نئی حکمت عملیوں سے کنارہ کشی اختیار کر رہی ہیں، کم اور کم درمیانی آمدنی والے ملکوں میں امیر ملکوں کے مقابلے میں اوسطاً 3.6 گنا زیادہ مجموعی گھریلو پیداوار کے نقصانات ہونے کا امکان ہے

بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان اور سری لنکا میں لگنے والی جنگلات کی آگ، سیلاب، بڑے طوفانوں اور پانی کی قلت سے مراد یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں جی ڈی پی 10 سے 18 فیصد خطرے میں ہے، جو شمالی امریکا کے مقابلے میں تقریباً تین گنا ہے اور سب سے کم متاثرہ خطے یورپ سے 10 گنا زیادہ ہے

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وسط ایشیا، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ اور سب صحارا افریقہ کے خطوں کو بھی بڑے نقصانات کا سامنا ہے، مشرقی ایشیا اور بحر الکاہل کے ممالک کو سب صحارا افریقہ کی طرح خطرات کی سطح کا سامنا ہے، لیکن بنیادی طور پر ان کو گرمی کی لہر اور خشک سالی کے بجائے طوفان اور سیلاب کی وجہ سے وہ خطرات لاحق ہیں

خط استوا یا چھوٹے جزیروں کے آس پاس کے ممالک زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں، جبکہ زراعت جیسے شعبوں پر زیادہ انحصار کرنے والی معیشتیں بڑے سروس سیکٹر والے ممالک کے مقابلے زیادہ متاثر ہوتی ہیں

زیادہ تر ممالک کے لیے آب و ہوا کی تبدیلی سے متاثر ہونے والے نقصانات پہلے ہی بڑھ رہے ہیں، انشورنس فرم سوئس ری کے مطابق گزشتہ دس سالوں کے دوران صرف طوفان، جنگلات کی آگ اور سیلاب نے عالمی سطح پر جی ڈی پی کو تقریباً 0.3 فیصد نقصان پہنچایا ہے

ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن نے بھی یہ حساب لگایا ہے کہ اوسطاً گزشتہ پچاس سالوں سے دنیا میں ہر روز کہیں نہ کہیں موسم، آب و ہوا یا پانی سے متعلق آفت آئی ہے، جس سے روزانہ کی بنیاد پر ایک سو پندرہ اموات اور دو سو دو ملین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close