انگریزوں کا سر چکرا کر رکھ دینے والے راولپنڈی کے ایک نابینا ٹھگ کی داستان

ویب ڈیسک

کہتے ہیں، جب تک لوبھی لوگ زندہ ہیں، ٹھگ کبھی بھوکے نہیں مر سکتے.. ویسے بھی پیر اُڑتا نہیں، مرید اسے اڑاتے ہیں.. سو حافظ کے اس اعلان کو بے پر کی اڑانے والے مریدوں نے خوب اڑایا اور لالچ کے مارے لوگ جوق در جوق کھنچے چلے آئے…

ہم اکثر یہ تو سنتے آئے ہیں کہ پرانے وقتوں کے لوگ سادے ہوتے تھے لیکن یہ کم ہی سنا ہے کہ پرانے وقتوں کے ٹھگ بھی اپنی مثال آپ تھے

بنارس کے ٹھگ صرف ایک محاورہ نہیں بلکہ ان کی شہرت ہندوستان بھر میں تھی۔ اسی طرح بمبئی کے جیب تراشوں کی شہرت کا بھی ہر سُو ڈنکا بجتا تھا۔ 2018ع میں اس موضوع پر بالی وڈ کی ایک فلم ’ٹھگز آف ہندوستان‘ بھی ریلیز ہو چکی ہے

آپ یہ جان کر حیران ہو جائیں گے کہ آج کے دور کے ممتاز خفیہ ادارے ’انٹیلیجنس بیورو‘ نے جس ادارے کی کوکھ سے جنم لیا ہے، وہ انہی ٹھگوں کی کارروائیوں کے خلاف عمل میں لایا گیا تھا، جس نے ہندوستان بھر سے ایسے گروہوں کا صفایا کیا تھا

ایسا ہی ایک ٹھگ 1879ع میں راولپنڈی میں سامنے آیا جس نے ہزاروں لوگوں کو کنگال کر کے رکھ دیا۔ یہ واقعہ راولپنڈی کے گزیٹیئر 1893-94 میں درج ہے

راولپنڈی کے نزدیک کہوٹہ کا قصبہ، جہاں آج کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز قائم ہیں، وہاں کے گاؤں ناڑا کے ایک گکھڑ خاندان میں 1859ع میں ایک لڑکے کی پیدائش ہوئی ، جو تین سال کی عمر میں چیچک کی بیماری کا شکار ہو کر اپنی بینائی کھو بیٹھا

گھر والوں نے اسے مسجد میں قرآن حفظ کرنے کے لیے بیجھنا، شروع کیا لیکن پانچ سپارے حفظ کرنے کے بعد ہی وہ سلسلہ ترک کر کے ایک فقیر فتح اللہ نوشاہی کا مرید بن گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد وہ کہوٹہ سے اپنے رشتہ داروں کے پاس گوجر خان چلا گیا، جہاں اس نے چالیس روز کی چلہ کشی کی اور ضعیف العقائد لوگوں میں پیر بن بیٹھا

ضعیف الاعتقادی ہمیشہ سے ہی ہمارے معاشرے خاص طور پر غریب طبقے میں عام رہی ہے، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں لوگ اس کے معتقد بننے لگے اور اپنے اپنے مسائل کے حل کے لیے اس ”پہنچے ہوئے“ کے پاس پہنچنے لگے

انہی دنوں وہاں کے ایک مقامی زمیندار کے گھر چوری ہو گئی وہ حافظ کے پاس حاضر ہوا اور کہا کہ اگر اس کا چوری شدہ مال بر آمد ہو جائے تو اس کا چوتھائی حصہ حافظ کو دے گا

اس نے ابتدائی طور پر پانچ روپے بھی حافظ کو دیے (جو کہ اُس وقت کے حساب سے ایک بڑی رقم تھی) لیکن حافظ چوروں کا سراغ نہ لگا سکا اور نہ ہی اس نے زمیندار سے وصول کی گئی رقم واپس کی

زمیندار نے مقامی اسسٹنٹ کمشنر کے پاس شکایت درج کرا دی۔ لیکن تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ زمیندار کے پاس رقم دینے کا نہ کوئی گواہ تھا نہ ثبوت۔ الٹا حافظ کی نیک نامی کی گواہی دینے کے لیے مقامی بااثر افراد پیش ہوگئے اور کہا کہ حافظ ایک نابینا، غریب اور پارسا شخص ہے

لہذا حافظ کو چھوڑ دیا گیا۔ رہائی کے بعد حافظ نے مشہور کر دیا کہ خدا نے اسے ان مسلمان بھائیوں کی مدد پر مامور کر دیا ہے، جو سود خور مہاجنوں کے قرض تلے دبے ہوئے ہیں۔ اس نے اعلان کیا کہ جو کوئی اس کے پاس ایک روپیہ جمع کروائے گا وہ بدلے میں پانچ روپے پائے گا

کہتے ہیں، جب تک لوبھی لوگ زندہ ہیں، ٹھگ کبھی بھوکے نہیں مر سکتے.. ویسے بھی پیر اُڑتا نہیں، مرید اسے اڑاتے ہیں.. سو حافظ کے اس اعلان کو بے پر کی اڑانے والے مریدوں نے خوب اڑایا اور لالچ کے مارے لوگ جوق در جوق کھنچے چلے آئے. ارد گرد کے لوگ اس کے پاس پیسے لانے لگے اور بدلے میں پانچ گنا وصول پانے لگے

اس طرح جب یہ خبر گرد و نواح میں پھیل گئی تو حافظ کے پاس پیسے لے کر آنے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔ کام برھ گیا تھا سو اب حافظ نے فتح جنگ کے ایک سکھ کو ایک روپے روزانہ کی تنخواہ پر اپنا منشی رکھ لیا۔ وہ وصول شدہ رقم کا اندراج کر کے پیسوں کی ادائیگی کے لیے لمبی لمبی تاریخیں دینے لگا

رقم پانچ گنا کروانے کے لیے آنے والے لوگوں کا تانتا بندھ گیا اور یہ تعداد بڑھنے لگی حتیٰ کہ حافظ نے اپنے دو اور رشتہ دار منشی رکھ لیے۔ کچھ عرصہ تک لوگوں کو رقم کی ادائیگی پانچ گنا کے حساب سے ہوتی رہی جس کی وجہ سے لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ وہ اپنے وقت کا ولی ہے، جس پر رات کو اللہ تعالیٰ پیسوں کی بارش کرتا ہے

حافظ روزانہ رات کو ایک کمرے میں بند ہو جاتا اور چارپائی پر بیٹھ کر سکے چھت کی طرف اچھالتا۔ اس کے حجرے کے باہر جو لوگ اکٹھے ہوتے تھے وہ سکوں کی جھنکار سنتے تو انہیں یقین کامل ہو جاتا کہ اس پر آسمان سے پیسوں کی بارش ہو رہی ہے

اب حافظ نے گوجر خان کے ساتھ ساتھ اپنے آبائی گاؤں ناڑا اور مٹور میں بھی اپنا آستانہ بنا لیا اور مہینے میں کچھ دن وہ اس نئی برانچ میں بیٹھ کر پیسے بٹورنے لگا۔ لالچ کے مارے لوگوں نے اپنی بیٹیوں کے جہیز کے لیے جمع کی گئی رقم بھی حافظ کو آ کر پیش کر دی کہ اس طرح ان کی رقم پانچ گنا ہو جائے گی۔ حافظ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھوکنے کے لیے لمبی لمبی نمازیں بھی پڑھنے لگا، جس سے لوگوں کا اعتماد اور بڑھ جاتا کہ واقعی حافظ پارسا اور پہنچا ہوا شخص ہے

حافظ کی پارسائی اور امارت کو دیکھتے ہوئے اسے موضع للہیال سے ایک لڑکی کا رشتہ بھی مل گیا۔ ایک کے بعد دوسری شادی کے لیے ایک اور عورت سے منگنی بھی رچا لی۔ حافظ کی شہرت اب پورے ضلعے میں پھیل چکی تھی اور اس کے گھر میں پیسے لے کر آنے والوں کا ایک میلہ سا لگنے لگا

اسی دوران کلر سیداں کے کھتری بخشی خوش وقت کے کان کھڑے ہوئے اور وہ حافظ کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے لگا۔ جلد ہی اسے پتہ چل گیا کہ حافظ بہت بڑا ٹھگ ہے، جو سادہ لوح لوگوں کو پیسے پانچ گنا کرنے کے بہانے لُوٹ رہا ہے۔ جب اس نے حافظ کی مکاریوں کی ایک رپورٹ تیار کرکے انگریز افسران کو پیش کی تو وہ حیران رہ گئے کہ ایک نابینا شخص نے کس طرح سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں کو ان کی جمع پونجی سے محروم کر دیا ہے

انگریزوں نے کچھ دن اس کی خفیہ نگرانی کی تو مزید ششدر رہ گئے کہ حافظ نے سادہ لوح لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے کس قدر خوبصورتی سے جال بچھایا ہوا ہے۔ انگریز نے حافظ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے۔ جیسے ہی حافظ کے منشیوں کو اس کا علم ہوا وہ رقم لے کر بھاگ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ حافظ کے پاس اس زمانے میں پچیس ہزار روپے موجود تھے، جو اس نے زمین میں دبا دیے

حافظ کی بدقسمتی کہ شاید کسے نے اسے رقم دفن کرتے دیکھ لیا اور وہ شخص بعد ازاں آنکھ بچا کر اسے نکال لے گیا

ادھر حافظ کو پولیس نے اس کے تین ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا۔ جائے وقوعہ سے صرف 2960 روپے بر آمد ہوئے۔ پولیس نے کچھ مزید رقم جو قریبی کھیتوں میں دفن کی گئی تھی، ملزمان کی نشاندہی پر بر آمد کر لی۔ ملزمان پر مقدمہ چلا اور حافظ کو دھوکہ دہی پر ڈیڑھ سال کی قید با مشقت سزا سنائی گئی جبکہ اس کے ساتھیوں کو بھی مختلف سزائیں سنائی گئیں

چور چوری سے جائے پر ہیرا پھیری سے نہ جائے.. حافظ نے قید سے رہائی پانے کے کچھ عرصہ بعد پھر یہی دھندا دوبارہ شروع کر دیا۔ ایک بار پھر اسے گرفتار کر کے دو سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ حافظ نے پارسائی کے لبادے میں ہزاروں لوگوں کو کنگال کر دیا۔ ایک عرصے تک حافظ کی مکاری علاقے کے لوک گیتوں کا حصہ رہی:
حافظ ناڑے دا پیا روڑی کٹدا ای،
مال لوگاں دا اس نے زوری لٹیا ای
(ترجمہ: ناڑے کے مکین حافظ کو لوگوں کا مال لوٹنے پر قید با مشقت ہو گئی ہے، جہاں وہ پتھر کوٹ رہا ہے)

کہا جاتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، اور یہ بھی کہ لوگ تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے۔ چنانچہ ہر چند سال بعد کہیں نہ کہیں سے ایسے ہی کسی جعلی پیر یا سائیں کی خبر آ جاتی ہے، جو سادہ لوح لوگوں کو روپیہ یا زیور دگنا کرنے کا لالچ دے کر لوٹ لیتا ہے۔ اس قسم کے لیے لوگوں کے لیے ’ڈبل شاہ‘ کی اصطلاح بھی موجود ہے

ایسے کرداروں سے کوئی دور کب خالی گزرا ہے، حافظ ہی کی طرح کا ایک مشہور و معروف ڈبل شاہ کا کیس 2005ع میں وزیر آباد میں پیش آیا جب سبط الحسن نامی ایک اسکول ٹیچر نے لوگوں کو ان کے پیسے ڈبل کرنے کا جھانسا دے کر صرف اٹھارہ مہینوں میں پانچ ارب چالیس کروڑ روپے کی خطیر رقم سے محروم کر دیا

نیب نے 2018ع تک ڈبل شاہ کے متاثرین کو ایک ارب بیس کروڑ کی رقم واپس کی ہے۔ 2012 میں ڈبل شاہ کو عدالت نے چودہ سال کی قید بامشقت کی سزا سنائی تھی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close