سندھ میں بے قابو لَمپی اسکن ڈزیز خطرناک ثابت ہو سکتی ہے

نیوز ڈیسک

محکمۂ لائیو اسٹاک سندھ کے مطابق اپریل کے آخری ہفتے تک صرف سندھ میں چھتیس ہزار سے زائد گائیں اور بھینسیں لمپی اسکن ڈیسز سے متاثر ہوئیں، جن میں سے 428 ہلاک ہو چکی ہیں۔ ویکسینیشن اگر جلد از جلد مکمل نہ ہوئی تو صورتحال ابتر ہو سکتی ہے

واضح رہے کہ 2022ع کے آغاز سے لَمپی اسکن ڈیزیز وائرس سندھ اور پنجاب کے متعدد اضلاع میں پھیل چکا ہے لیکن اس کی شدت کراچی، ٹھٹہ اور ملحقہ علاقوں میں زیادہ ہے

یہ علاقے فی الوقت شدید گرمی کی لہر کی لپیٹ میں ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق گرم و مرطوب آب و ہوا میں لمپی اسکن ڈیزیز ایسی جگہوں پر بہت تیزی سے پھیلتی ہے، جہاں بڑی تعداد میں جانوروں کو ایک ہی جگہ پر باندھا جاتا ہے، جسے عموما "باڑا” کہا جاتا ہے

لمپی اسکن ڈیزیز وائرس کیا ہے؟

محکمہ لائیو اسٹاک سندھ سے وابستہ ڈاکٹر ایس سولنگی کا کہنا ہے ”لمپی اسکن ڈیزیز وائرس کا ڈی این اے دو لڑیوں پر مشتمل ہوتا ہے، جس کا تعلق کیپری پوکس وائرس جین سے ہے۔ جینیاتی لحاظ سے شیپ پوکس اور گوٹ پوکس سے تعلق رکھنے والی وائرس کی یہ فیملی گھروں یا ڈیری فارمنگ کے لیے پالے جانے والے جانوروں کو متاثر کرتی ہے“

ڈاکٹر سولنگی کے مطابق لمپی اسکن ڈیزیز سے پاکستان میں گائے، بھینس اور بیل متاثر ہوئے ہیں۔ تازہ ترین اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ صرف سندھ میں چھتیس ہزار سے زائد جانور اس وائرس کی لپیٹ میں آئے اور 428 اموات ہو چکی ہیں

لمپی اسکن ڈزیز وائرس کیسے پھیلتا ہے؟

اس حوالے سے ڈاکٹر ایس سولنگی کا کہنا ہے ”یہ وائرس جانوروں کے تھوک کے علاوہ ان کو کاٹنے یا ان پر چپک کر بیٹھنے والے مچھر اور مکھیوں کی وجہ سے تیزی سے پھیلتا ہے۔ دنیا کے کئی خطوں میں لمپی سکن وائرس کو "انڈیمک” قرار دیا جا چکا ہے۔ اس وائرس کے کراس بارڈر تیزی سے پھیلنے کی بڑی وجہ جانوروں اور اجناس کی ٹریڈنگ ہے“

ڈاکٹر سولنگی کہتے ہیں ”اس حوالے سے ابھی تک کوئی خاص تحقیق سامنے نہیں آئی لیکن غالب امکان یہی ہے کہ پاکستان میں یہ وائرس کسی ہمسایہ ملک سے جانوروں کی ٹریڈنگ کی وجہ سے منتقل ہوا۔ اور پھر متاثرہ جانوروں کو کاٹنے والے مچھر اور مکھیوں کے ذریعے یہ سندھ کے دارالحکومت کراچی سے دیگر اضلاع اور پنجاب تک پھیلتا چلا گیا“

پاکستان ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن نے بتایا کہ کراچی اور ملحقہ علاقوں میں فروری میں جب یہ وائرس پھیلا تو حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ متاثرہ علاقوں سے جانوروں کی آمدو رفت کو روکا جائے اور نئے خریدے جانے والے جانوروں کو کم از کم پندرہ دن تک دیگر جانوروں سے علیحدہ باندھا جائے، لیکن ہمارے ہاں باڑوں میں اتنی جگہ ہی نہیں ہوتی، جس کے باعث وائرس تیزی سے پھیلا۔ جون سے شروع ہونے والے مون سون سیزن سے اس کے پھیلاؤ میں مزید شدت کا امکان ہے کیونکہ بارشوں کے بعد گندگی، مچھر اور مکھیوں کی بہتات ہوتی ہے

لمپی اسکن ڈزیز کی علامات کیا ہیں؟

ڈاکٹر ایس سولنگی نے بتایا کہ لمپی اسکن ڈزیز کی علامات میں بخار، جانور کی ناک کا بہنا، تھوک یا رال بہنا، بھوک نہ لگنا، جسم پر بڑے بڑے نوڈز یا دانوں کا ابھرنا اور دودھ کی مقدار کم ہونا شامل ہیں، اگر دانے پورے جسم پر پھیل جائیں تو تیزی سے وزن کم ہونے کے ساتھ جانور کی موت واقع ہو جاتی ہے

ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیری فارمنگ اور لائیو اسٹاک سے وابستہ افراد زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ اگرچہ سندھ میں تربیت یافتہ وٹرنٹی ڈاکٹرز کی شدید کمی ہے لیکن حکومت پوری کوشش کر رہی ہے کہ ڈیری فارمرز کو اس حوالے سے مکمل آگاہی دی جائے

ویکسینیشن کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟

سندھ بھر میں لمپی اسکن ڈزیز وائرس وائرل کے سامنے آتے ہی پاکستان ڈرگ ریگولیرٹی اتھارٹی نے دو ویسکین منظور کر کے ترکی اور اردن سے تقریباً چار لاکھ ویکسین درآمد کیں اور فوری طور پر متاثرہ جانوروں کی ویکسینیشن کا آغاز کیا گیا۔ چونکہ بڑی تعداد میں ویکسین کی درآمد مہنگی ہے، لہٰذا کوشش کی جارہی ہے کہ آغا خان لیبارٹریز اور دیگر تحقیقی اداروں کی مدد سے ویکسین پاکستان میں تیار کر لی جائے، جس میں کم از کم آٹھ ماہ لگیں گے

کیا وائرس انسانوں میں منتقل ہوتا ہے؟

فروری 2022ع میں لمپی اسکن ڈزیز کے کیسز سامنے آتے ہی ہر طرف افواہوں کا بازار گرم تھا۔ کراچی اور ملحقہ علاقوں میں بڑی تعداد میں لوگوں نے دودھ اور گائے کا گوشت کا استعمال ترک کر دیا تھا۔ جس کے بعد آغا خان یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف ایفیکشن پری وینشن نے ایک الرٹ جاری کر کے یہ واضح کیا کہ لمپی اسکن وائرس انسانوں میں منتقل نہیں ہوتا۔ حفاظتی اقدامات کو مد نظر رکھتے ہوئے دودھ اور گوشت کو اچھی طرح ابال اور پکا کر استعمال کیا جانا ضروری ہے

البتہ اس کے برعکس مصر کی ایک محققہ صائمہ احمد کمال کی تحقیق انسانوں میں لمپی وائرس کے کچھ کیسز کی نشاندہی کرتی ہے

یہ بھی پڑھیں: گڈاپ کے عبداللطيف بلوچ نے لمپی اسکن ڈزیز سے متاثر اپنے جانوروں کا علاج کیسے کیا؟

صائمہ غزا اینیمل ہیلتھ ریسرچ سینٹر سے وابستہ ہیں۔ ان کی تحقیق کی مطابق 2019ع میں جب مصر میں لمپی اسکن ڈزیز کی وبا پھیلی تو غزا، الفییوم اور الشرقیہ صوبوں میں انسانوں میں بھی لمپی اسکن ڈزیز کے متعدد کیسز نوٹ کیے گئے۔ ان میں اکثریت ڈیری فارمرز کی تھی، جو متاثرہ جانوروں کے ساتھ براہ راست تعلق میں تھے۔ ان ڈیری فارمرز کے جسم پر بڑے بڑے دانے اور پھوڑے نوٹ کیے گئے تھے

معاشی نقصان کتنا ہے؟

طبی ماہرین کے مطابق حیوانات میں لمپی اسکن ڈزیز کا پہلا کیس 1929ع میں زیمبیا میں سامنے آیا۔ جبکہ اس کی پہلی وبا 1988ع میں مصر میں پھیلی۔ افریقی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد 2013ع میں یہ سعودی عرب، اردن، شام، عراق، اسرائیل، ترکی میں، 2015ع میں روس، آرمینیا اور دیگر ہمسایہ ممالک میں پھیلا۔ جبکہ ایشیا میں اس کے کیسز 2020ع سے سامنے آنا شروع ہوئے

ورلڈ آرگنائزیشن فار اینیمل ہیلتھ اس وائرس کو اپنی ہائی الرٹ لسٹ میں شامل کر چکا ہے کیونکہ متعدد ممالک کی معیشت پر اس وبا کے انتہائی منفی اثرات سامنے آئے ہیں۔ پاکستان ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں فروری اور مارچ کے مہینوں میں اس حوالے سے بڑے پیمانے پر افواہیں پھیلائی گئیں جس سے ڈیری کی اشیاء اور گوشت کی فروخت سے وابستہ افراد کا کاروبار 70 سے 60 فیصد کم ہو گیا

ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ بڑی تعداد میں جانوروں کے بیمار پڑنے اور ہلاکت سے ڈیری فارمرز ویسے ہی دباؤ کا شکار ہیں۔ ویکسی نیشن کو جلد از جلد مکمل کرنے کے ساتھ کراس بارڈر جانوروں کی آمدورفت کو روکنا ضروری ہے۔ ورنہ اگلے چند ماہ میں صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے، جس کا براہ راست اثر لائیو اسٹاک کی صنعت پر پڑے گا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close