سری لنکا کا راجاپکشے خاندان کون ہے اور کیسے دہائیوں سے اقتدار میں ہے؟

ویب ڈیسک

”کیا آپ کے ملک میں راجاپکشے ہی واحد ذات ہے؟“ یہ سری لنکا میں ایک مشہور لطیفہ ہے کہ ایک (فرضی) چینی اہلکار ملک کے دورے پر آئے تو تمام اہم شخصیات کی ذات راجاپکشے سن کر حیران رہ گئے

مگر یہ قابلِ فہم ہے کہ یہ لطیفہ کیسے وجود میں آیا۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ گذشتہ دو عشروں سے اس ملک کے اقتدار پر راجاپکشے خاندان کی مضبوط گرفت ہے

لیکن اب یہ غلبہ خطرے میں ہے۔ سری لنکا سنہ 1948ر میں برطانیہ سے اپنی آزادی کے بعد سے اب تک کے بدترین اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے اور کئی ماہرین نے موجودہ مسائل کا ذمہ دار غلط اقتصادی فیصلوں کو قرار دیا ہے

حکومت کو بڑا دھچکا لگ چکا ہے۔ پیر 9 مئی کو وزیرِ اعظم (اور سابق صدر) مہندا راجاپکشے نے اپریل سے ملک بھر میں جاری مظاہروں کے پیشِ نظر استعفیٰ دے دیا۔ مہندا موجودہ صدر گوتابایا راجاپکشے کے بڑے بھائی ہیں

سیاسی پنڈت اسے سری لنکا کی سیاست کا ایک بہت بڑا واقعہ قرار دے رہے ہیں۔ بی بی سی نیوز ویب سائٹ کی ایشیا ایڈیٹر عائشہ پیریرا کہتی ہیں ’مہندا راجاپکشے کا استعفیٰ ایک ایسے شخص کی قسمت میں شرمناک تبدیلی ہے، جو کئی برسوں سے ملک کا طاقتور ترین شخص تھا۔‘

مہندا راجاپکشے ایک ایسے خاندان کے سب سے مشہور رکن ہیں، جو کبھی بھی قومی سطح کی سیاست میں بڑی قوت نہیں رہا تھا

ان کا تعلق جنوبی شہر ہمبنتوتہ کے زمیندار گھرانے سے ہے اور مہندا پہلی مرتبہ جب 1970ع میں رکنِ پارلیمان منتخب ہوئے تو وہ اس مقام تک پہنچنے والے ملک کے کم عمر ترین شخص تھے۔ پھر 80 کے عشرے میں مہندا اور اُن کے بڑے بھائی چمل دونوں ہی پارلیمان کے لیے منتخب ہوئے

مہندا کو سنہ 87 سے 89 تک جاری رہنے والی ایک بائیں بازو کی بغاوت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرنے پر شہرت ملی۔ اُنہوں نے اس معاملے میں اقوامِ متحدہ سے مداخلت کی بھی اپیل کی تھی

سنہ 1994ع میں اُنہیں ملک کے نئے صدر چندریکا کماراٹنگا نے وزیرِ محنت مقرر کیا۔ دس برس بعد وہ وزیرِ اعظم بن گئے اور سنہ 2005ع میں اُنہوں نے بہت کم مارجن سے صدارت کا عہدہ بھی حاصل کر لیا

اس کے بعد وہ سنہ 2005ع سے 2015ع تک دو ادوار کے لیے صدر رہے۔ سنہ 2009ع میں اُن ہی کے دورِ حکومت میں تقریباً تیس سال تک جاری رہنے والی تامل بغاوت کا خاتمہ ہوا

ان پر اس دوران کرپشن اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات بھی لگے، بالخصوص نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے۔ اس ملک کی 75 فیصد آبادی سنہالی بودھ ہے. لیکن وہ ہمیشہ ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں

لیکن ان تمام تر تنازعات کے باوجود راجاپکشے خاندان سری لنکن سیاست پر اجارہ داری قائم کرنے میں کامیاب رہا۔ گوتابایا کے پاس وزارتِ دفاع میں ایک سینیئر عہدہ تھا اور کئی لوگ خانہ جنگی سے نمٹنے پر ان کی تعریف کرتے ہیں

چمل زراعت، ماہی گیری اور آبپاشی سمیت کئی وزارتیں سنبھال چکے ہیں اور اُن کے ایک اور بھائی بیزل کے پاس کچھ عرصے تک مالیات اور اقتصادی ترقی کے محکمے رہے ہیں

ان چار بھائیوں کے علاوہ بھی اس خاندان کے کئی ارکان عوامی عہدوں پر رہے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں مہندا کے بیٹے نمل اور یوشیتھا ہیں۔ نمل حال ہی میں سری لنکا کے وزیرِ کھیل رہ چکے ہیں اور یوشیتھا اپنے والد کے استعفے تک وزیرِ اعظم کے چیف آف اسٹاف تھے

لیکن اس خاندان کو سنہ 2015ع میں صدارتی انتخاب میں مہندا کی غیر متوقع شکست سے دھچکا پہنچا تھا۔ وہ چار سال بعد ایک مرتبہ پھر اقدار میں آئے اور اس مرتبہ اقتدار کی باگ ڈور گوتابایا کے ہاتھ میں تھی۔ سری لنکن آئین کے تحت سابق صدر دوبارہ انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے تھے

ایک عام رائے کے مطابق قوم پرست ایجنڈا کے ساتھ نئے صدر نے امن و امان کی صورتحال کے ساتھ خاندان کے پرانے تعلق کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔ اپریل 2019ع میں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے حملوں میں ڈھائی سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے

لیکن اس کے باوجود خاندان کے خلاف کرپشن کے الزامات دبے نہیں بلکہ کووڈ کی عالمی وبا کے بعد پیدا ہونے والے اقتصادی بحران کے دوران ایک مرتبہ پھر ابھر کر سامنے آئے

عائشہ پیریرا کا کہنا ہے ”کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ مہندا راجاپکشے نے ملک کی دولت لوٹنے کے لیے اپنے خاندان کا راستہ ہموار کیا“

سری لنکا میں مظاہروں کے دوران خاندان سے ملک کا ’لوٹا پیسہ‘ واپس کرنے کے لیے بورڈز اور نعروں کی صورت میں مطالبات سامنے آتے رہے

یہی وہ وقت تھا جب راجاپکشے خاندان میں تقسیم پیدا ہونے لگی۔ اپریل کے اواخر میں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ مہندا اور گوتابایا کے درمیان خلیج گہری ہو گئی ہے اور دونوں بھائیوں کے درمیان حامیوں پر کنٹرول کرنے کی رسہ کشی جاری ہے

اقتصادی بحران کے باعث کئی لوگ جو کبھی گوتابایا کے حامی تھے، اب ملک کی سڑکوں پر ’گوتا گھر جاؤ‘ کے نعرے لگاتے نظر آتے ہیں

حکومت مخالف مظاہرین نے حکومت کے حامی مظاہرین کی جانب سے اپنے ایک پرامن احتجاجی کیمپ پر حملے کے بعد وزیرِ اعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوا بولنے کی کوشش کی

فوراً ہی ملک بھر میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے اور بپھرے ہوئے مظاہرین نے راجاپکشے خاندان کی کئی املاک کو جلا دیا، جن میں ہمبنتوتہ میں اُن کا آبائی گھر بھی شامل ہے

مشتعل مظاہرین نے اُن کے والدین کے مزارات اور یادگار کو بھی تباہ کر دیا۔ صدر گوتابایا پر الزام ہے کہ اُنہوں نے یادگار کی تعمیر کے لیے سرکاری خزانے کا بے جا استعمال کیا

اس کے باوجود صدر کا کہنا ہے کہ وہ اقتدار چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے حالانکہ اُن کے تقریباً تمام وزرا استعفیٰ دے چکے ہیں اور کئی ارکانِ پارلیمان حکومت کی حمایت سے دستبردار ہو چکے ہیں

جمعہ 6 مئی کو گوتابایا نے ایک ماہ میں ملک میں دوسری مرتبہ ہڑتال ہونے کے بعد ہنگامی صورتحال کا نفاذ کر دیا تھا

راجاپکشے اب بھی اقتدار سے بے دخل نہیں ہوئے ہیں، لیکن سری لنکن سیاست پر اُن کی بظاہر آہنی گرفت اب کمزور پڑ رہی ہے.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close