کیا ملک میں آٹے کی قیمت بڑھنے والی ہے؟

ویب ڈیسک

ملک احمد خان پنجاب کے ضلع میانوالی کے زمیندار ہیں، انہیں اپنی تقریباً دو سو کنال زرعی اراضی سے اس سال کوئی دو سو سے زائد گندم کی بوریوں کی پیداوار ہوئی، جبکہ ملک احمد خان کے مطابق انہوں نے گذشتہ سال اسی زمین سے تین سو سے زائد بوریوں کی پیداوار حاصل کی تھی

ملک احمد کا کہنا ہے کہ اس سال ان کی گندم کی پیداوار تقریباً 25 سے 30 فیصد کم رہی

اُنھوں نے بتایا کہ علاقے کے تقریباً ہر زمیندار اور کاشتکار کو اس سال گندم کی پیداوار میں کمی کا سامنا کرنا پڑا

صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے محمود نواز شاہ نے بھی اس موسم میں سندھ میں گندم کی کم پیداوار کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ گندم کی پیداوار گذشتہ سال کے مقابلے میں کم ہوئی، جس کی کئی وجوہات ہیں

واضح رہے کہ پاکستان میں پنجاب اور سندھ گندم پیدا کرنے والے دو بڑے صوبے ہیں اور ملک میں گندم کی ضرورت پورا کرنے کے لیے ان دونوں صوبوں کی پیداوار پر انحصار کیا جاتا ہے

تاہم موجودہ موسم میں گندم کی کم پیداوار کی وجہ سے پاکستان کی وفاقی حکومت نے تیس لاکھ ٹن گندم درآمد کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں وفاقی کابینہ نے منظوری بھی دے دی ہے۔ ملک میں گندم کی کٹائی تقریباً مکمل ہو چکی ہے

ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود زرعی تباہی کا یہ حال ہے کہ گذشتہ دو برسوں سے گندم کی درآمد پر انحصار کر رہا ہے تاکہ ملک میں گندم کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔ گندم پاکستان میں خوراک کا اہم جُزو ہے اور ہر پاکستانی اوسطاً ایک سو چوبیس کلوگرام گندم سالانہ کھا لیتا ہے

ملک کو گندم کی درآمد ایک ایسے وقت میں کرنی پڑ رہی ہے، جب دنیا میں روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی وجہ سے گندم کی عالمی قیمتیں اپنی بلند ترین سطح پر موجود ہیں کیونکہ دنیا میں گندم سپلائی کرنے والے دونوں بڑے ملک یوکرین اور روس ہی ہیں

پاکستان کو درآمدی گندم اس لیے بھی مہنگی پڑ سکتی ہے کہ ایک طرف ملک میں زرِمبادلہ کے ذخائر نیچے کی طرف گامزن ہیں، دوسری جانب ڈالر آج تاریخ کی بلند ترین سطح 193 روپے پر پہنچ گیا ہے، اس لیے پاکستانی روپے کی ڈالر کے مقابلے میں گرتی ہوئی قیمت درآمدی گندم کو پاکستانیوں کے لیے مزید مہنگا کر دے گی

گندم کے شعبے سے وابستہ افراد اور ماہرین کے مطابق اگر گندم کی بلند قیمت اور روپے کی کم قیمت برقرار رہی تو درآمدی گندم پاکستانیوں کے لیے آٹے کی قیمت کو مزید بڑھا دے گی، جو ملک میں پہلے سے موجود مہنگائی کی بلند سطح کو اوپر کی جانب دھکیل دے گی

اس وقت حکومتی اقدامات کی حالت یہ ہے کہ ایک جانب وزیر اعظم شہباز شریف کے پی کے آٹا سستا کرنے کی تنبیہ کرتے ہوئے اپنے کپڑے بیچ کر آٹا سستا کرنے کی مضحکہ خیز سیاسی تقریر جھاڑ رہے تھے، تو دوسری طرف پنجاب میں اسی روز آٹے کس فی کلو گرام 10 روپے تک مہنگا فروخت ہو رہا تھا، جہاں ان کے فرزند وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہیں

پاکستان میں اس سال گندم کی پیداوار کی کیا صورتحال رہی؟

وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت حال ہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں ملک میں گندم کی پیداوار، موجودہ ذخائر اور صوبائی و قومی سطح پر کھپت کے حوالے سے بتایا گیا

رواں سال گندم کی مجموعی پیداوار کا ہدف دو کروڑ انتیس لاکھ میٹرک ٹن لگایا گیا تھا، جبکہ متوقع پیدوار دو کروڑ چھبیس لاکھ میٹرک ٹن تک ہو گی۔ گندم کی ملکی سطح پر مجموعی کھپت کا تخمینہ تین کروڑ میٹرک ٹن لگایا گیا ہے

اجلاس کو بتایا گیا کہ گندم کی حکومتی سطح پر خریداری کے حوالے سے پنجاب نے 91.66 فیصد، سندھ نے 49.68 فیصد، بلوچستان نے 15.29 فیصد جبکہ پاسکو نے 100 فیصد ہدف حاصل کر لیا ہے

مقامی ضرورت کے مقابلے میں گندم کی کم پیداوار کی وجہ سے وفاقی کابینہ نے ملک میں تیس لاکھ گندم کی درآمد کی منظوری دی ہے

واضح رہے کہ گزشتہ برس ملک میں دو کروڑ اٹھائیس لاکھ میٹرک ٹن گندم کی پیداوار ہوئی تھی تاہم یہ پیداوار بھی ملکی ضرورت سے کم تھی اس لیے پاکستان نے بیس لاکھ ٹن گندم بیرون ملک سے منگوائی تھی

گندم کی کم پیداوار کی کیا وجوہات ہیں؟

وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں طے کیا گیا کہ گندم کی پیداوار کے ہدف اور پیداوار میں فرق کی وجوہات میں گندم کی کاشت میں کمی، پانی کی قلت ہے

اس کے علاوہ روایتی طور پر حالیہ حکومتی اجلاس میں بھی گذشتہ حکومت پر ملبہ ڈال کر اپنی گلو خلاصی کر لی گئی

مزید یہ کہ مارچ میں گندم کی امدادی قیمت کے دیر سے اعلان کی وجہ سے کسانوں کی گندم کی کاشت میں 2 فیصد کمی کا رجحان بھی دیکھنے میں آیا۔ اس کے علاوہ تیل کی قیمتوں میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلی یعنی وقت سے پہلے گرمی کی شدت میں اضافہ بھی گندم کے طے شدہ ہدف کے حصول میں بڑی رکاوٹ رہے

زمیندار ملک احمد خان کے مطابق مارچ کے مہینے میں گندم کی فصل کو تقریباً 25 سے 30 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ گندم کے دانے کی نمو بھی ہوتی رہے اور وہ پکتا بھی رہے تاہم اس سال مارچ کے مہینے میں درجہ حرارت میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا اور یہ 30 سے اوپر جا کر 35 اور 38 سینٹی گریڈ تک چلا گیا

اس سے گندم کی فصل تو جلدی پک گئی لیکن دانے کی نمو نہیں ہوئی اور وہ چھوٹا رہ گیا جس کی وجہ سے کم پیداوار ہوئی

عارف حبیب لمیٹڈ پر اجناس کے امور کے ماہر احسن محنتی کہتے ہیں کہ گندم کی کم پیداوار کی وجہ یہ بھی رہی کہ اب پاکستان میں گنے اور کپاس کی فصل کو زیادہ کاشت کیا جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان فصلوں سے زرعی طبقے کو زیادہ مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے

سندھ آباد گار فورم کے وائس چیئرمین محمود نواز شاہ کا کہنا ہے کہ وہ حکومت سے گذشتہ دو سال سے کہہ رہے ہیں کہ وہ گندم پر کوئی واضح پالیسی بنائے کیونکہ گندم پاکستان کے غذائی تحفظ کے لیے لازمی ہے، تاہم زرعی شعبے کی جانب سے کی جانے والی سفارشات پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا

اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کو اس سال ایک ایسے وقت میں گندم درآمد کرنا پڑے گی جب دنیا میں گندم کی قیمتیں بلند ترین سطح پر موجود ہیں۔ اس وقت ایک ٹن گندم کی قیمت عالمی منڈی میں 425 ڈالر کی سطح پر موجود ہیں اور اس میں ترسیل کے اخراجات شامل کرنے سے اس کی پاکستان میں درآمدی قیمت 450 ڈالر فی ٹن تک پڑے گی. یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آٹے کی قیمت بڑھنے کے خدشات سر اٹھا رہے ہیں

محمود نواز شاہ کہتے ہیں کہ حکومت کی اس سلسلے میں پالیسی بڑی عجیب ہے کہ اگر وہ دو چار ارب امدادی قیمت کے نام پر زرعی شعبے کو دے تو گندم کی زیادہ پیداوار حاصل ہو سکتی تھی جس سے گندم کی درآمد پر ملک کے خرچ ہونے والے کروڑوں ڈالر کو بچایا جا سکتا تھا.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close