پاکستان کے کن کن وزرائے اعظم کو اپنے قتل کیے جانے کا خدشہ رہا؟

ویب ڈیسک

پاکستان کے سابق وزیرِاعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے اپنے خلاف قتل کی سازش کا ذکر کیا ہے، جس سے ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے

واضح رہے کہ عمران خان اپنے قتل کے خدشے کا اظہار کرنے سے قبل اپنی حکومت کے خاتمے کو بھی ایک بیرونی و اندرونی سازش کو قرار دے چکے ہیں

14 مئی کو سیالکوٹ میں ایک بڑے عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’میرے خلاف سازش ہو رہی ہے کہ عمران خان کی جان لے لی جائے، اس سازش کا مجھے علم تھا، میں نے ایک وڈیو ریکارڈ کروائی ہے، اگر مجھے کچھ ہوا تو یہ وڈیو پوری قوم کے سامنے آئے گی۔‘

اس کے اگلے روز 15 مئی کو فیصل آباد میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیرِاعظم نے عوام سے ایک وعدہ لیا کہ ’عوام وعدہ کریں اگر مجھے کچھ ہوا تو ویڈیو دیکھ کر انصاف دلائیں گے؟‘

پھر 16 مئی کو صوابی میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا ’کھانے میں زہر ملایا جائے تو ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے‘

یہ پہلا موقع نہیں کہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر رہنے والی کسی شخصیت نے اس طرح اپنے قتل کی سازش کا خدشہ ظاہر کیا ہو، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وزرائے اعظم قتل بھی ہوئے اور متعدد مرتبہ قتل کی سازش کی آوازیں بھی اُٹھتی رہی ہیں

یہی وجہ ہے کہ عمران خان جب یہ کہتے ہیں کہ اُن کے قتل کی سازش ہو رہی ہے تو اس بات پر یقین کرنے والوں کے پاس مضبوط تاریخی استدلال موجود ہوتا ہے

پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں کمپنی باغ (موجودہ لیاقت باغ) میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے تھے

اس طرح پاکستان کا پہلا وزیرِاعظم اپنی طبعی عمر پوری نہ کر سکا اور قتل کر دیا گیا اور لیاقت علی خان کا قتل پُراسرار معمہ بن گیا، جو آج تک حل نہیں ہو سکا

لیاقت علی خان کے قتل نے پاکستانی سیاست کا کئی لحاظ سے رُخ بدل کر رکھ دیا۔ اِن کے قتل سے ایک دروازہ تو یہ کھلا کہ پاکستان میں وزرائے اعظم قتل بھی ہو سکتے ہیں اور اُن کے خلاف قتل کی سازشیں بھی ممکن بنائی جا سکتی ہیں

اس کے ساتھ ساتھ لیاقت علی خان کے قتل سے سیاسی خلا بھی پیدا ہوا، یہ سیاسی خلا، سیاسی عدم استحکام کو جنم دینے کی وجہ بنا اور اس سیاسی خلا کو ملٹری و سول بیوروکریسی نے کامیاب طریقے سے پُر کرنے کی کوشش کی

یاد رہے کہ لیاقت علی خان کے قتل پر ایک تحقیقاتی کمیشن بھی بنایا گیا تھا، جس کی سربراہی جسٹس محمد منیر نے کی تھی۔ اس کمیشن نے لگ بھگ نو ماہ بعد حتمی طور پر اپنی رپورٹ تیار کی تھی

اس رپورٹ کے مطابق ’لیاقت علی خان کے قاتل کا یہ انفرادی فعل نہیں ہو سکتا تھا، اس کے پیچھے کوئی سازش ہو سکتی ہے‘

پاکستان کے پانچویں وزیرِاعظم حسین شہید سہروردی تھے، جنہیں مختصر وقت کے لیے وزارتِ عظمیٰ کی مسند ملی۔ یہ ستمبر 1956 سے اکتوبر 1957 تک پاکستان کے وزیرِ اعظم رہے

حسین شہید سہروردی کی موت بیروت کے ایک ہوٹل میں دسمبر 1963ع میں ہوئی تھی۔ اُن کی موت کو اگرچہ سرکاری سطح پر ہارٹ اٹیک قرار دیا گیا لیکن سیاسی و سماجی حلقوں میں یہ بحث موجود رہی ہے کہ اُن کی موت طبعی نہیں تھی، بلکہ انہیں قتل کیا گیا تھا

اہم بات یہ ہے کہ ان کی بیٹی بیگم اختر سلیمان بھی اپنے والد کی موت کو ’قتل‘ قرار دیتی ہیں

حسین شہید سہروردی کی حیات سے متعلق بہت ساری اہم اور چونکا دینے والی معلومات بیان کرتے ہوئے ’حسین شہید سہروردی: اے بائیوگرافی‘ میں بیگم شائستہ سہروردی اکرام اللہ لکھتی ہیں ”اُنہوں نے اپنی وکالت کو پھر سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا مگر حکومت نے ایسی سازش کی کہ انہیں کراچی اور لاہور کی عدالتوں میں بطور وکیل رجسٹر نہ کیا گیا اور اُس وقت کے منٹگمری، آج کے ساہیوال میں وہ بطور وکیل رجسٹر ہوئیں“

پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی، لیکن اُس پھانسی کو آج بھی اکثریت پھانسی نہیں بلکہ قتل قرار دیتی ہے اور اُن کے قتل کو اندرونی و بیرونی سازش کا شاخسانہ قرار دیا جاتا ہے

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سابق وزیرِاعظم عمران خان بھی سابق وزیر اعظم بھٹو کے حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ اُن کے خلاف سازش کی گئی

سابق وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ کو پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی حکومت کے خلاف بیرونی سازش سے متعلق خط لہراتے ہوئے کہا تھا کہ ’آج وہی سازش ہو رہی ہے جو بھٹو کے خلاف ہوئی تھی‘

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کتاب ’اگر مجھے قتل کیا گیا‘ میں لکھا تھا ”18 مارچ 1978ع سے میں نے چوبیس گھنٹوں میں سے بائیس یا تیئیس گھنٹے ایک حبس زَدہ، دم گھونٹنے والی موت کی کوٹھڑی میں بسر کیے ہیں۔ میں نے طویل موسم گرما کی حدت اور گرمی اور برسات میں اس کی گھٹن اور بدبو کو برداشت کیا، روشنی کا انتظام ناقص ہے۔ میری بینائی بدتر ہو چکی ہے۔ میری صحت کا شیرازہ بکھر چکا ہے“

جنرل ضیا کی موت کے بعد ایک خبر شائع ہوئی کہ اعتراف کرنے والے شریک ملزموں میں سے ایک کی والدہ نے یہ انکشاف کیا کہ اُن کے بیٹے سے جان بخشی کا وعدہ کیا گیا تھا

اس کہانی کی تصدیق جسے شائع نہیں ہونے دیا گیا، جنرل فیض چشتی کی یادداشتوں Betrayals of Another Kind مطبوعہ 1989ع سے ہوتی ہے۔ جنرل فیض علی چشتی لکھتے ہیں ”جب 4 اپریل 1979ع کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی تو اخبارات میں شور مچا کہ شریک ملزمان کو کیوں پھانسی نہیں دی گئی“

وہ مزید لکھتے ہیں ”جنرل ضیا پر دباؤ بڑھ رہا تھا کہ وہ کوئی فیصلہ کریں۔ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور کور کمانڈرز کی ایک میٹنگ میں جنرل سوار خان (گورنر پنجاب) نے جنرل ضیا سے فیصلہ کے بارے میں پوچھا۔ جنرل ضیا نے کہا چونکہ کوئی چارہ کار نہیں رہا، اس لیے پھانسی دی جائے گی“

جنرل فیض علی چشتی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے ”میں نے جنرل ضیا کو وعدہ یاد دلایا جو اُنہوں نے چاروں ملزموں سے کیا تھا کہ انہیں کچھ نہیں ہوگا، لیکن انہوں نے اپنے وعدے کا پاس نہیں کیا۔ اعتراف کرنے والے ملزمان عدالت میں حاضر ہوئے تو وہ بالکل فٹ اور خوش و خرم نظر آئے، وہ اُن آدمیوں کی طرح دکھائی نہیں دیتے تھے، جو موت کی کوٹھڑیوں سے لائے جاتے ہیں“

کرنل رفیع الدین اپنی کتاب ’بھٹو کے آخری 323 دن‘ میں لکھتے ہیں ’اگر بھٹو صاحب کی اپیل سپریم کورٹ میں منظور ہو بھی جاتی تو بھی انھیں آزاد نہ کیا جاتا‘

’پانچ فروری 1979 کو دس بجے صبح مجھے ایس ایم ایل اے کے ساتھ ڈی ایم ایل اے کے دفتر بلایا گیا جہاں ہمیں بتایا گیا کہ شاید کل مورخہ چھ فروری کو سپریم کورٹ، بھٹو صاحب کی اپیل منظور کرنے کے بعد حکم جاری کرے کہ اُن کو آزاد کر دیا جائے مگر ایسے حکم کے باوجود بھی ان کو جیل سے باہر نہیں جانے دیا جائے گا اور مارشل لا کے تحت کئی اور مقدمات میں مطلوب ہیں، جن کے تحت ان پر الگ مقدمہ چلایا جائے گا‘

وہ لکھتے ہیں ’مجھے صاف صاف بتایا گیا کہ اگر سپریم کورٹ بھٹو صاحب کے لیے آزادی کا حکم بھی صادر کردے کہ انہیں جیل سے نکال دیا جائے تو بھی انہیں جیل سے باہر ہرگز نہیں جانے دیا جائے گا‘

ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بینظیر بھٹو کو بھی 27 دسمبر 2007ع راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا تھا، وہ سنہ 1997ع کے انتخابات کے بعد اپنی جلا وطنی ختم کر کے 18 اکتوبر 2007 کو وطن لوٹیں تھیں

کراچی میں لوگوں کی کثیر تعداد اُن کے شاندار استقبال کے لئے جمع ہوئی لیکن اس موقع پر کارساز میں ہونے والے بم دھماکوں سے کئی افراد موقع پر ہی دَم توڑ گئے. بے نظیر بھٹو کی آمد پر بم دھماکوں کا ہونا، اس بات کا ثبوت تھا کہ حالات اِن کے لیے ہرگز ٹھیک نہیں

بے نظیر بھٹو بھی اس سے قبل اپنے قتل کی سازش جا ذکر کر چکی تھیں، حتیٰ کہ انہوں اپنے قاتلوں کے ناموں کا ذکر بھی کیا تھا لیکن پھر بھی اپنے قتل کا شبہ ظاہر کرنے والے خاتون وزیرِ اعظم آخرِ کار راولپنڈی کے اسی لیاقت باغ میں خودکش حملے میں قتل کر دی گئیں، جس میدان میں لیاقت علی کا قتل ہوا تھا

اور آج وقت کا پہیہ پاکستان کو پھر ایک ایسے مقام پر لے آیا ہے، جہاں ایک اور سابق وزیر اعظم اپنے قتل کی سازش کا ذکر کر رہے ہیں.

یہ بھی پڑھیں:

امریکا، بھٹو اور اسٹیبلشمنٹ: عمران کے ساتھ جو ہو رہا ہے، کیا یہ وہی بھٹو والا اسکرپٹ ہے؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close