دہلی میں لاپتہ دلت گلوکارہ کی لاش برآمد

ویب ڈیسک

وہ شہری دفاع کی ایک رضاکار تھیں، جنہوں نے اپنے خاندان کی کفالت کے لیے یوٹیوب پر موسیقی کی وڈیوز اپ لوڈ کرنا شروع کیں۔ جلد ہی، انہوں نے شوز میں پرفارم کرنا شروع کیا اور مقامی سطح پر اپنی شناخت بنائی۔ لیکن پھر دو ہفتے پہلے وہ ایک دن اچانک غائب ہو گئیں

ان کے والد نے بتایا ”وہ اکثر ہریانہ اور دیگر مقامات پر محفلوں اور اسٹیج شوز کے لیے جاتی تھیں۔ وہ خاندان کی واحد کمانے والی تھیں۔ ہم نے آخری بار انہیں 11 مئی کو دیکھا تھا۔ وہ پرجوش تھیں اور کہا کہ وہ ایک میوزک وڈیو ریکارڈ کرنے جا رہی ہیں۔ لیکن وہ واپس لوٹ کر نہیں آئیں“

13 مئی کو اٹھائیس سالہ دلت گلوکارہ کے اہل خانہ نے دہلی پولیس سے رابطہ کیا ’لیکن انہوں نے ہمیں چلے جانے کو کہا۔ ان کے ایک دوست نے ہمیں بعد میں بتایا کہ اس نے ان کا جی میل اکاؤنٹ اپنی ڈیوائس میں لاگ ان کیا تھا۔ انہوں نے گوگل میپ سے آخری فعال مقام کا سراغ لگانے میں ہماری مدد کی‘

بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کی نامہ نگار جگنیسا سنہا کے مطابق اہل خانہ نے بتایا کہ تلاش کے نتیجے میں وہ 16 مئی کو ہریانہ کے ایک کھانے کی جگہ پہنچے۔ گلوکارہ کی بہن اور والد وہاں پہنچے اور دو دن کی کوششوں کے بعد کھانے کے ہوٹل کے مالک سے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ فوٹیج میں خاتون سفید کار سے باہر نکلتی ہوئی نظر آتی ہیں اور ان کے ساتھ پیلی قمیص میں ایک شخص بھی ہے

بعد ازاں پولیس کی تفتیش کے دوران ان کی لاش روہتک میں ایک شاہراہ کے قریب ملی، جس کے بعد خاندان کی مایوسی غصے میں بدل گئی

چند گھنٹوں بعد اور منگل کو ان کے خاندان نے دلتوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم بھیم آرمی کے ارکان اور مقامی باشندوں کے ساتھ مل کر احتجاج کیا اور دعویٰ کیا کہ گلوکارہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی اور ان پر حملہ کیا گیا، پولیس نے ان کی مدد کی ابتدائی درخواستوں کو نظر انداز کیا ہے اور انہیں خود اس واقعے کا سراغ لگانا پڑا

متاثرہ لڑکی کی بہن نے دعویٰ کیا کہ’ہم نے پولیس کو مطلع کیا اور یہاں تک کہ انہیں فوٹیج بھی دی۔ انہوں نے کچھ کرنے سے انکار کردیا اور میرے والد کے ساتھ بدتمیزی کی۔ بعد میں انہوں نے فون کیا اور کہا کہ وہ ایک دن میں گھر آئیں گی۔ پیر کو ہمیں ان کی موت کی خبر ملی‘

پوسٹ مارٹم کے بعد پولیس نے لاش اہل خانہ کو واپس کردی

پولیس کے مطابق گینگ ریپ کا الزام ابھی ثابت ہونا باقی ہے تاہم ان کے پاس ایسی معلومات ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ گلوکارہ کو نشہ آور دوا دی گئی، اغوا کیا گیا اور گلا گھونٹ دیا گیا

پولیس کے مطابق انہوں نے دو ملزمان کو بھی گرفتار کیا ہے، جن کی شناخت روی اور ان کے ساتھی انیل کے نام سے ہوئی ہے- دونوں کی عمر بیس سال ہے اور وہ ایک فنانس کمپنی میں مددگار کے طور پر ملازم ہیں۔ واضح رہے کہ روی کو پہلے ہی ماری جانے والی لڑکی کی جانب سے ریپ کے مقدمے کا سامنا تھا

پولیس نے بتایا کہ دونوں ملزمان نے مبینہ طور پر پوچھ گچھ کے دوران انکشاف کیا کہ انہوں نے لاش کو کہاں دفن کیا تھا۔ پولیس اور اہل خانہ نے بتایا کہ روی اور گلوکارہ کے تین سال قبل تعلقات تھے لیکن اس کے ختم ہونے کے بعد بھی وہ انہیں ہراساں کرتا رہا اور متعدد مواقعوں پر ان پر حملہ کرنے تک گیا

انڈین ایکسپریس نے پولیس ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ملزم نے مبینہ طور پر یہ بھی انکشاف کیا کہ انہوں نے لڑکی کے مشروب میں نیند کی گولیاں ڈالیں اور انہیں کھانے کے لیے لے گئے۔ ذرائع نے بتایا کہ کھانے کے بعد انہوں نے مبینہ طور پر کار میں ان کا گلا گھونٹ کر انہیں قتل کر دیا

ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان کی گاڑی اور اوزار کو برآمد کر لیا ہے، جن کے بارے میں شبہ ہے کہ انہیں اس جرم میں استعمال کیا گیا تھا۔ ایک افسر نے بتایا ’ہمیں اس مقصد کا یقین نہیں ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ روی عصمت دری کے مقدمے کا بدلہ لینا چاہتا تھا جو اس کے خلاف 2019 میں درج کیا گیا تھا‘

پولیس نے ابھی تک خاندان کے ان دعووں کی تصدیق نہیں کی ہے کہ خاتون پر اس کے زخموں کو چھپانے کے لیے کیمیائی مادہ ڈالا گیا تھا

ڈپٹی کمشنر پولیس شنکر چوہدری نے کہا: ہم نے خاندان کی شکایت کی بنیاد پر اغوا کا مقدمہ درج کیا۔ ہماری ٹیموں نے کئی چھاپے مارے اور اتوار کو ہریانہ کے مہام سے دونوں ملزمان کو گرفتار کیا۔

ڈی سی پی نے مزید بتایا کہ ’تفتیش کے دوران انہوں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے خاتون کو قتل کرنے کی سازش کی۔ ایک ملزم نے انہیں فون کیا اور میوزک وڈیو بنانے کے بہانے ملنے کو کہا۔ اس نے گلوکارہ کو نشہ دیا اور قتل کر دیا۔ ملزم نے ان کی لاش روہتک شاہراہ کے قریب دفن کردی۔ ملزمان پہلے مقتول کے دوست تھے‘

یہ مقدمہ اب عدالت میں زیرسماعت ہے۔ تاہم پولیس نے وقت پر کارروائی نہ کرنے کے الزامات کا جواب نہیں دیا ہے

گلوکارہ کے والد نے یاد دلایا کہ 11 مئی کو گھر سے نکلنے کے چند گھنٹوں بعد انہوں نے گلوکارہ کو فون کیا تھا۔ ’انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ٹھیک محسوس نہیں کر رہی تھیں اور سونا چاہتی تھیں۔ یہ ان کے آخری الفاظ تھے۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close