بڑھتی ہوئی سیاسی غیر یقینی: حکومت کس سے کیا گارنٹی حاصل کرنا چاہتی ہے؟

ویب ڈیسک

10 اپریل کے بعد بننے والی اتحادی حکومت شش و پنج کا شکار نظر آتی ہے، اس پر پی ٹی آئی کے لانگ مارچ نے اسے مزید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے

”نیوٹریلٹی“ کی مہربانی سے اقتدار میں آنے والے حکومتی عہدیداروں کے اسمبلی اور اخباری بیانات کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھی ایک پیج پر نہیں ہیں، بلکہ ہر وزیر کی اپنی الگ بات ہوتی ہے

کسی کا کہنا کہ قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی تو دوسرا اس کے برعکس یہ کہتے ہوئے سنائی دیتا ہے کہ نومبر میں انتخابات ہوجائیں گے، نتیجے میں عمران خان کا بیانیہ چل رہا ہے۔ سازش کے بعد اب ‘حقیقی آزادی’ کا بیانیہ زوروں پر ہے اور عمران خان نے لانگ مارچ کے لیے کمر کس لی ہے، جبکہ حکومت اسے کسی بھی قیمت پر روکنے پر تلی نظر آتی ہے

چیئرمین تحریک انصاف نے صرف چند دنوں کے نوٹس پر لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے جو واقعی حیران کن ہے۔ کیا وہ بڑے ریاستی کریک ڈاؤن کے باوجود اسلام آباد میں بڑا پاور شو کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے اور اسمبلی کی تحلیل اور عام انتخابات کی تاریخ لے کر واپس جائیں گے؟ اس طرح کے درجنوں سوالات گردش میں ہیں، لیکن اصل پریشانی حکومتی صفوں میں ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا؟ کوئی کچھ بتانے کے قابل نہیں ہے

اس حوالے سے ایک سوال پر ایک وفاقی وزیر کا جواب حیران کن تھا ‘حکومت پندرہ دن کی ہے یا پندرہ ماہ کی، اس بارے میں تو ہمیں بھی نہیں معلوم‘۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ تو پھر ہوگا کیا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ نہیں کہا جاسکتا؟‘

وفاقی وزیر کا کہنا تھا ”صرف چند سیاسی اور عسکری شخصیات کو حقائق کا اندازہ ہے، باقی سارے مفروضے ہیں۔ حالات کا جائزہ لے کر جس میں جتنا سیاسی شعور ہے وہ اس سطح کے تجزیے پیش کر رہا ہے“

بعض تجزیہ نگار اس غیریقینی صورت حال کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اس حکومت کے آنے سے پہلے سمجھا جا رہا تھا کہ اگر "تجربہ کار سیاستدان” اپنے عالمی تعلقات اور انتظامی صلاحیتیں استعمال کرکے معاشی حالات بہتر بنا لیتے ہیں تو اس کے بدلے اسٹیبلشمنٹ عمران خان کی ماضی کی طرح حمایت نہیں کرے گی، اور عام انتخابات کے بعد آئندہ کا اقتداری سیٹ اپ موجودہ اتحادی حکومت کے لیے مزید پانچ سال کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کردے گا

لیکن اقتدار میں آتے ہی یہ یقین بے یقینی میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ نئی حکومت اس وقت اس لیے کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اس کی سیاسی قیمت موجودہ اقتدار سے زیادہ ادا کرنا پڑے گی۔ ایک طرف اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے کا مشکل چیلنج درپیش ہے تو دوسری جانب سپریم کورٹ کے چند گھنٹوں کے ازخود نوٹس کے فیصلے نے اس کی آنکھیں کھول دی ہیں، اب حکومت کے اہم عہدیدار مطالبے کرتے پھر رہے ہیں کہ اس طریقے سے کام نہیں چلے گا، آؤ اور خود نظامِ مملکت سنبھالو، اور سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ یہ بات کس کو کہہ رہے ہیں

شنید ہے کہ وزیرِاعظم میاں شہباز شریف بڑے معاشی فیصلوں کے لیے تیار تھے، لیکن نواز شریف نے انہیں لندن بلاکر روک دیا ہے کہ فی الحال گارنٹیز لی جائیں اور اس کے بعد ہی فیصلے کیے جائیں، انہیں کیا گیا ہے کہ فیصلوں کی سیاسی قیمت ن لیگ کو ادا کرنی پڑے گی جبکہ اقتدار میں شریک دیگر جماعتوں کو مستقبل قریب میں کوئی فرق نہیں پڑے گا

ن لیگ اس لیے بھی محتاط محتاط سی لگ رہی ہے کہ وہ یہ سوچ رہی ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری نے کمال "ایثار” کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ سے لے ایسی تمام وزارت ن لیگ کے پلے کیوں باندھی ہیں، جن کی کارکردگی کا براہ راست اثر عوام پر پڑتا یے جبکہ اپنے فرزند کے لیے وزارت خارجہ منتخب کی ہے. بداعتمادی کی یہ کیفیت بھی نئی حکومت کے آڑے ہے

دوسری جانب ن لیگ کو عمران خان کا اعتماد دیکھ کر لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ان کی پشت پر کسی نہ کسی صورت موجود ہے۔ لہٰذا ان حالات میں نئی حکومت بڑے فیصلے نہیں کر پا رہی

ایک ن لیگی عہدے دار کا کہنا ہے ”جون کے دوسرے ہفتے میں نئی حکومت کو بجٹ پیش کرنا ہے، لیکن عوام کو اس بجٹ میں کیا ریلیف دینا ہے اس پر تاحال بات چیت نہیں ہوسکی، جیسے جیسے وقت بڑھتا جارہا ہے، معیشت مزید غیر مستحکم ہوتی جارہی ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ جب تک ‘گارنٹی’ نہیں ملتی تب تک مزید آگے نہیں بڑھا جا سکتا“

لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو گارنٹی کون دے گا؟ اس سلسلے میں مختلف سیاسی رہنماؤں کو کریدنے کی کوشش کی گئی تو ان کی آراء مختلف تھیں

ایک رہنما کا کہنا تھا کہ ”اگر موجودہ اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرتی ہے تو موجودہ وزیرِاعظم شہباز شریف اتحادیوں کی مشاورت سے نئے آرمی چیف کا تقرر کرسکتے ہیں، لیکن جو حالات ہیں اس سے لگتا ہے کہ معاملات زیادہ آگے نہیں چل سکیں گے، جبکہ موجودہ آرمی چیف نے اپنے عہدے میں مزید توسیع لینے سے انکار کر دیا ہے، لہٰذا نومبر تک اگر یہ حکومت چل جائے اور شہباز شریف آرمی چیف کا تقرر کر بھی دیں تو بھی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ نئے آرمی چیف عام انتخابات میں ان کی کوئی مدد کر سکیں گے، کیونکہ ماضی میں بھی میاں نواز شریف نے جو ضمانتیں لے کر آرمی چیف مقرر کیے تھے وہ بعد میں ان کے کام نہیں آئے“

ایک دوسرے رہنما کی رائے یہ تھی ”اگر بجٹ سے پہلے ہی وزیرِاعظم صدر کو ایڈوائز بھیج کر اسمبلی توڑ دیتے ہیں تو نئے عام انتخابات پھر بھی نومبر سے پہلے ہونا ممکن نہیں، کیونکہ الیکشن کمیشن نے اس سے پہلے انتخابات کے انعقاد سے معذرت کرلی ہے۔ پھر نگران حکومت تین ماہ سے زیادہ کی بن نہیں سکتی، اس لیے صورتحال کوئی آسان نہیں جس کو حل کرلیا جائے“

ایک اور حکومتی رہنما کا مؤقف تھا ’عمران خان کی صورت میں ایک ترچھی نوک والی ہڈی نہ صرف ہمارے بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے بھی گلے میں پھنسی ہوئی ہے، عمران خان کو سیاسی انتشار ہی ان دنوں وارا کھاتا ہے، کیونکہ وہ زیادہ دیر تک مذہب اور ملکی خود مختاری سے متعلق بیانیہ نہیں بیچ سکتے، لیکن جہاں تک زیادہ وقت کا سوال ہے، کیا وہ ہمیں مل بھی سکے گا؟ اگر ہم سخت فیصلوں کا پھندا اپنی سیاسی گردن میں ڈال دیں تو ہمیں اس بات کی ضمانت چاہیے کہ ہم نہ صرف اپنی سیاسی زندگی کو بچالیں گے بلکہ مزید توانا کر کے عمران خان کا مقابلہ کرنے کے قابل بھی بنایا جائے“

انہوں نے کہا ”کیا اس بات کی ہمیں گارنٹی دی جائے گی کہ اسٹیبلشمنٹ بھی ہمیں اسی طرح ریسکیو کرے گی، جس طرح ہم نے اسٹیبلشمنٹ کو ریسکیو کیا“

ان آراء کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ نئی حکومت بُرے طریقے سے پھنس چکی ہے۔ وہ سخت معاشی فیصلے کرنے سے اس لیے ہچکچا رہی ہے. مئی کا آخری ہفتہ کافی اہم سمجھا جا رہا ہے، حکومت نے انتخابی اصلاحات کا فیصلہ کرلیا ہے، اور کوشش کی جائے گی کہ جلد سے جلد انتخابی اصلاحات اور نیب قوانین میں تبدیلیاں کی جائیں، تاکہ اگر آنے والے دنوں میں وہ اقتدار میں نہیں بھی رہتے تو کم از کم اپنے خلاف کرپشن کے مقدمات کے حوالے سے کچھ فوائد انہیں ملتے رہیں

اسی ہفتے عمران خان اسلام آباد میں حقیقی آزادی لانگ مارچ سے خطاب کر رہے ہوں گے، انہیں ڈی چوک تک آنے دیا گیا تو صورتحال مختلف ہوسکتی ہے، اور اگر پریڈ گراؤنڈ تک محدود کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے کوئی کردار ادا کیا تو صورتحال حکومت کے حق میں چلی جائے گی۔ شدید گرمی کے باعث دھرنا ویران جبکہ رات کو میلہ لگتا رہے گا، اور اس سے حکومت کو زیادہ پریشانی نہیں ہوگی

پارلیمان کی راہدریاں ان لوگوں کی وجہ سے بھری بھری نظر ضرور آتی ہیں، جو نئی حکومت کے وزرا سے ملنے، انہیں مبارکباد دینے یا اپنے کاموں کے لیے مختلف شہروں سے آتے ہیں، لیکن 125 کے قریب تحریک انصاف کے ارکان کی غیر موجودگی اس بات کا واضح پتہ دیتی ہے کہ اپنے آخری 14 ماہ رکھنے والی یہ اسمبلی بے رونق ہوچکی ہے، ایوان میں اپوزیشن نہ ہونے کے باعث حکومت یا اس کے حامی ارکان کو ہی حکومت کی اپوزیشن کرنے کا تاثر دینا پڑتا ہے

بجا طور پر اس وقت ملک کی چند شخصیات کو چھوڑ کر باقی پورا ملک سیاسی کنفیوژن کا شکار ہے، کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ کیا ہونے والا ہے۔ وفاقی کابینہ کے ارکان ہوں یا اعلیٰ بیوروکریٹ، بڑے سرمایہ دار ہوں یا حکومت کی دیگر اتحادی جماعتیں، سب بے خبر ہیں، اور یہی بے خبری معاشی طور پر عدم استحکام پیدا کیے ہوئے ہے۔ کسی وزیر کے دفتر میں کوئی کام نہیں ہورہا، کچھ وزرا عجلت میں ہیں، اور انہیں آنے والے دن بھی اپنے وزیر رہنے کا یقین نہیں ہے، اس لیے وزارت کا ‘فائدہ’ حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ سیاسی بے یقینی کا وقفہ کتنا طویل ہوگا، اس بارے میں کوئی بھی حتمی رائے دینے کو تیار نہیں.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close