دھرتی کی پکار

زین الملوک

پاکستان کا شمار دنیا کے اُن چند ممالک میں ہوتا ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے خطرناک مقام پر موجود ہیں۔ ہم نے اپنی دھرتی ماں کا کبھی سنجیدگی سے خیال نہیں رکھا۔ قدرت نے ہمیں دکھا دیا کہ یہ ہمارے لیے کتنا بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ تیز رفتار ترقی، تغیرِ زمانہ اور سائنسی انقلاب نے ہمیں نیچر (قدرت) سے بہت دور یہاں تک کہ تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ہم نے اپنی ضرورتوں کو بےتحاشا طول دیا اور عیش و آرام حاصل کرنے کے پیچھے اپنے ماحول کو اتنا آلودہ کردیا ہے کہ ہر طرف سے قدرتی آفات ہمارے سر پر منڈلانے لگی ہیں۔ قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال سے اب ان وسائل کی قلت کا شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے

بغیر منصوبہ بندی کے ہم نے آبادی میں اضافہ کیا اور یوں ہماری ضروریات بڑھتی چلی گئیں۔ جنگلات کے بے دریغ کٹاؤ سے بارشیں کم ہوتی گئیں اور ماحول آلودہ ہوگیا۔ یہی نہیں بلکہ قحط سالی میں بھی اضافے کا باعث بنا۔ آبادی کی ضروریات پوری کرنے کےلیے قیمتی زرعی زمینوں پر ہم رہائشی مکانات اور کاروباری مراکز بناتے چلے گئے۔ یعنی شہروں اور دیہات کو وسعت دی اور یوں زمین کا قدرتی سبزہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ ہواؤں کو لطیف سے نہایت کثیف بنادیا۔ چشمے سوکھتے گئے، دریا اور سمندر آلودہ تر ہوتے جارہے ہیں۔ بہت سے چرند و پرند نایاب ہوتے جارہے ہیں اور جو کثرت میں ہیں وہ پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں

یہ ماحولیاتی آلودگی ہی ہے، جس کے باعث سیلاب، لینڈسلائیڈنگ، گلیشیئر پھٹنا، سمندری طوفان، غیر عمومی طوفانی بارشیں اور زلزلے جیسی قدرتی آفات کے نت نئے حادثات رونما ہوتے جارہے ہیں۔ ان قدرتی آفات کی وجہ سے کرۂ ارض پر حیاتیات اور ماحول کا توازن بگڑتا جارہا ہے۔ اس کا ذمے دار انسان خود ہے کیوں کہ اپنی خواہشات کو مقدم رکھ کر قدرتی وسائل کا غیر فطری استعمال آج اسے تباہی کے اس دہانے پر لے کر آیا ہے کہ جہاں اب اسے اپنی بقا کی جنگ لڑنا دشوار نظر آتا ہے۔ اشرف المخلوقات نے اپنے شوق کی تسکین کی خاطر وہ وہ ستم ظریفیاں کی ہیں کہ یہ دھرتی بھی حیران ہوکر زبانِ حال سے کہتی ہوگی کہ ’’تو کیسا اشرف المخلوقات ہے جس کے پاس بہ ظاہر علم ہے شعور نہیں، کھوپڑی ہے دماغ نہیں، اچھے برے کی تمیز نہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کی بقا کی فکر نہیں‘‘

مستقبل کی تیاری
ماحولیاتی آلودگی کی صورت میں جو نقصان ہونا تھا، وہ ہوچکا۔ گزرے زمانے کو ہم دوبارہ پیچھے کی جانب نہیں لے جاسکتے، تاہم! مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کرکے ابھی تک جو وسائل سرِدست موجود ہیں اُنھیں اور اپنے ماحول کو بچاسکتے ہیں۔ مگر کیسے؟ یہاں چند سفارشات سپردِ قرطاس کی جاتی ہیں

1۔ ہمیں جنگلات اور درختوں کی بے جا کٹائی کو ہر قیمت پر روکنا ہوگا۔ اگر اس کٹاؤ کو نہ روکا گیا تو بنی نوعِ انسان کے حالات مشکل سے مشکل تر ہوتے چلے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ اپنی بقا کی جنگ بھی ہار جائے گا

2۔ ہمیں ہر سال لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کے حساب سے نئے درخت لگانے ہوں گے تاکہ موجودہ جنگلات میں اضافے کے ساتھ ساتھ نئے جنگلات اور باغات بھی وجود میں آسکیں۔ یہ درخت درجۂ حرارت میں کمی، آکسیجن مہیا کرنے اور بارشیں برسانے کا ذریعہ ہوں گے۔ اس سلسلے میں چند روز قبل ایک تفصیلی مضمون لکھا تھا، جسے اس لنک سے پڑھا جاسکتا ہے

3۔ کرۂ ارض کی بقا کےلیے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ہوا، پانی اور مٹی کو آلودگی سے بچائیں۔ اس آلودگی میں طبعی، کیمیائی اور حیاتیاتی ہر طرح کے اوصاف شامل ہیں جو انسانی زندگی کے ساتھ صنعتی ترقی، طرزِ رہائش اور تہذیبی سرمائے کو انتہائی نقصان کی حد تک متاثر کررہے ہیں۔ ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہم غیر ضروری آلودگی نہیں پھیلائیں گے جس میں دھواں، گیس، ایسڈ کے قطرے، پلاسٹک، لوہا، کھاد اور شور شرابا سبھی شامل ہیں

4۔ ہم دانستہ اور نادانستہ دونوں طرح سے ہوا کی آلودگی میں کتنا حصہ ڈالتے ہیں اور اس کے کیا اثرات نکلتے ہیں، کبھی سوچا بھی ہے؟ نہیں ناں! ہم غیر ضروری طور پر گاڑی اور موٹر سائیکل چلاتے ہیں جس سے نہ صرف قیمتی ایندھن کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ ایندھن سے زہریلا دھواں بھی نکلتا ہے اور یوں متعدد بیماریوں کے ساتھ روز کئی انسان لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کم فاصلے پر ہم پیدل ہی چلیں اور گاڑی کا استعمال صرف ضرورت کے وقت ہی کریں۔ ایک گاڑی میں کئی لوگ بیٹھ کر اپنی ملازمتوں پر چلے جائیں یا پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کریں۔ نیز اپنی گاڑیوں کا سائیلنسر بھی ٹھیک کروائیں

چترال، گلگت بلتستان، دیر، سوات اور کوہستان وغیرہ میں ایندھن کا واحد ذریعہ لکڑی ہے۔ ہمارا کھانا پینا، نہانے اور کپڑے دھونے کا پانی اور جسم کو حرارت پہنچانے جیسے تمام کاموں کےلیے لکڑی جلانا پڑتی ہے۔ سال کے بارہ مہینے اگر بلاناغہ لکڑی جلائی جائے تو سوچیے کتنے درخت سالانہ کی بنیاد پر کٹتے ہوں گے۔ مزید یہ کہ ان لکڑیوں اور آگ سے کتنا خطرناک دھواں نکل کر ہمارا ماحول آلودہ کرتا ہوگا۔ اس دھویں کی وجہ سے پہاڑی علاقوں کے مکینوں کی بینائی کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ، سانس، کھانسی، دل اور دمے کی بیماریاں عام ہیں۔ ایندھن کےلیے لکڑیاں جلانے کے بجائے حکومت کو متبادل ذرائع (مثلاً گیس اور بجلی کی بلاتعطل فراہمی) عوام کو دینے ہوں گے تاکہ ایک طرف ہم بیماریوں سے بچ جائیں اور دوسری طرف اپنے قیمتی ذخائر کو آنے والے وقت کےلیے بچا سکیں

5۔ ملازمت اور تجارت کی غرض سے ایک دفتر سے دوسرے دفتر، شہر یا ملک جانا عام سی بات ہے۔ لیکن کورونا وبا نے ہمیں آن لائن میٹنگ، آن لائن شاپنگ، ویبینار اور حسبِ ضرورت گھر سے کام کرنے کے طریقے سکھا دیے ہیں۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے سے جسمانی تھکاوٹ کے ساتھ ساتھ قیمتی وقت کا ضیاع، پیسے اور دوسرے وسائل کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں آن لائن پلیٹ فارم اپنانے سے ان تمام تکالیف اور بے جا اخراجات سے بچنا ممکن ہے۔ یوں ہم ماحولیات اور اس زمین پر مختلف آلودگیوں کو کم کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ تاہم! اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ گھر پر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا جائے۔ یہاں صرف غیر ضروری اسفار سے روکنے کےلیے متبادل طریقے بتائے گئے ہیں

6۔ دنیا کے مختلف ممالک اور شہروں میں کئی تقاریب، نمائشیں، کھیلوں کے مقابلے اور میلے لگتے ہیں لیکن ایسے پروگرامات کے اختتام پر پتہ چلتا ہے کہ ان تمام واقعات نے ماحول پر کتنا منفی اثر ڈالا ہے۔ ان پروگرامات کا انعقاد کرانے والے ان کی مختلف سرگرمیوں کا باعث بننے والے کچرے وغیرہ کا اکثر نہیں سوچتے اور یوں دو چار دن کی موج مستیوں کے بعد بے تحاشا پلاسٹک بیگز، بوتلیں، بچا ہوا کھانا، سگریٹ کے ٹکڑے، میوہ جات کے چھلکے اور نہ جانے کیا کچھ اس خوب صورت دھرتی پر بوجھ بنتے ہیں۔ ماحول کی خوب صورتی برقرار رکھنے اور ایسی گندگی کو پھیلنے سے بچانے کےلیے ایسے تمام پروگرامات کے منتظمین کو سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا اور ٹھوس لائحۂ عمل کے تحت منصوبہ بندی کرنی ہوگی ورنہ آپ کی وقتی رونقیں طویل مایوسیوں کا باعث ہوں گے

7۔ عام طور پر یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ اکثر لوگ پلیٹ میں کھانا بھر تو لیتے ہیں مگر وہ پورا کھا نہیں پاتے۔ لہٰذا بہت سا کھانا ضائع ہوجاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال دنیا میں ایک اعشاریہ تین بلین ٹن کھانا ضایع کیا جاتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم کم پکائیں، ضرورت اور اپنی اشتہا کے مطابق ہی نکالیں اور کھانا ضائع نہ کریں۔ ضرورت پڑے تو ہم مزید لے سکتے ہیں۔ اس طرح ہم ماحول کی سب سے بڑی ضرورت غذا کا حسبِ ضرورت استعمال کرسکتے ہیں اور بلاوجہ ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔

مزید یہ کہ:
چھوٹے چھوٹے اقدامات انفرادی طور پر لے کر بھی ہم اپنے ماحول کو سازگار، معطر اور پرکیف بنا سکتے ہیں۔ مثلاً: نل یا ندیوں سے پانی کا غیر ضروری اخراج بند کرکے، غیر ضروری برقی آلات کااستعمال ختم کرکے، روایتی بلب یا ٹیوب کی جگہ جدید دیرپا ایل ای ڈی لگا کر، اپنے آس پاس صفائی کا خیال رکھ کر، غیر ضروری خریداری سے پرہیز کرکے، ماحول کی بہتری سے متعلق آگاہی مہم چلا کر، دوبارہ قابلِ استعمال اشیا کو استعمال میں لاکر، پائیدار مصنوعات خرید کر، گوشت اور دودھ سے بنی اشیا کا استعمال کم کرکے، اپنے قیمتی وسائل بچا کر، اور چارجر، استری اور ٹی وی کے تار ساکٹ سے نکال کر وغیرہ۔ یہ بظاہر چھوٹے چھوٹے اقدامات ہیں لیکن ان کے اثرات ماحول پر بہت مثبت اور دیرپا ہوں گے

آئیں! اپنا احتساب کریں کہ ہم نے کس طرح اور کہاں کہاں سے اس دھرتی ماں کو نوچ ڈالا ہے اور کون کون سا حصہ نوچنے سے رہ گیا ہے یا کون کون سا حصہ نوچنے کے بعد ابھی تک رفو کے قابل ہے۔ ایک ایسا نظام بنائیے کہ اِسے مزید نوچنے کا سوچنے پر ہمارا دل خون کے آنسو روئے اور ہم اسے مزید بربادی سے بچائیں۔ درج بالا نکات پر عمل کرکے اور ان کے علاوہ کئی اور اقدامات سے اپنی دھرتی ماں کو ہمیشہ ہمیشہ کی تباہی سے بچا سکتے ہیں۔ یہ زمین جو ماحولیاتی فساد کی آماجگاہ بن گئی ہے، اپنی اپنی سطح پر کام کرکے اسے جنت کا گہوارہ بنا سکتے ہیں

آئیے! عہد کیجئے اور اس عہد کو نبھانے میں ہر فرد اپنا حصہ ڈالے کہ آج کے بعد ہم کوئی ایسا کام نہیں کریں گےجس سے ہمارا خوب صورت ماحول آلودہ ہو، ہماری معطر فضا تعفن کا منظر پیش کرے اور آنے والی نسلیں ہمیں بد دعا دیں۔ بلکہ ہم اس کی بقا کےلیے کوشاں رہیں گے اور اسے سرسبز و شاداب رکھیں گے۔

بشکریہ: ایکسپریس نیوز

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close