’اگر تم مجھے دیکھو، تو رو دینا۔‘ یورپ میں نمودار ہونے والے پتھر، جو غربت کا اعلان کرتے ہیں

ویب ڈیسک

بارش نہ ہونے اور گرمی کے طویل سلسلے کی وجہ سے یورپ کے کئی ممالک خشک سالی کے باعث متاثر ہیں۔ متعدد دریاؤں میں پانی کی سطح بھی کم ہو رہی ہے

دریاؤں میں پانی کم ہونے کے باعث پُرکھوں کی جانب سے حالات خراب ہونے سے متعلق تنبیہات پر مبنی ’ہنگر اسٹون‘ بھی نمودار ہوئے ہیں، جن پر غربت کی کہانیاں کندہ ہیں

واضح رہے کہ ’ہنگر اسٹونز‘ (قحط سالی کی نشانیاں‘ کہلانے والے یہ پتھر صرف اس وقت نظر آتے ہیں، جب پانی کی سطح انتہائی کم ہوتی ہے

ان پتھروں پر گذشتہ ادوار کے لوگوں کی جانب سے پیغامات کنندہ ہیں، جس سے پرانے دور میں ہونے والی قحط سالی اور اس کے باعث پیش آنے والی مشکلات پر سے پردہ اٹھتا ہے

یہ پیغامات کئی دہائیوں سے لے کر صدیوں تک پرانے ہیں۔ حال ہی میں 8 اگست کو ایک ٹوئٹر صارف کی جانب سے شیئر کیے گئے تھریڈ کے بعد ان کی تصاویر وائرل ہو گئی تھیں

اب تک ملنے والی قدیم ترین نقش کاری سنہ 1616 کی ہے۔ یہ دریائے ایلبے سے ملی اور یہ جرمن زبان میں لکھی گئی تھی

اس پر لکھا ہے ’اگر تم مجھے دیکھو، تو رو دینا۔‘

یہ بہت معروف ’ہنگر اسٹون‘ ہے، کیونکہ اس کی سطح پر کئی خشک سالیوں کی تاریخیں درج ہیں

سنہ 2013 میں چیک رپبلک سے تعلق رکھنے والے آثارِ قدیمہ کے ماہرین کی تحقیق کے مطابق اس پتھر پر سال 1417، 1616، 1707، 1746، 1790، 1811، 1830، 1842، 1868، 1892 اور 1893 درج ہیں۔

ایک اور پتھر پر کندہ عبارت میں لکھا ہے ”زندگی پھر سے پھلے پھولے گی، جب یہ پتھر دوبارہ غائب ہوگا“

ایک اور پتھر پر لکھا ہے ”جس نے مجھے ایک زمانہ پہلے دیکھا تھا، وہ رویا۔ جو مجھے اب دیکھے گا وہ بھی روئے گا“

اسی طرح ایک اور پتھر پر کندہ تحریر میں لکھا ہے ”اگر آپ کو یہ پتھر دوبارہ دکھائی دے تو آپ روئیں گے۔ سنہ 1417 میں پانی کی گہرائی اتنی کم تھی“

ماضی میں جب دریاؤں میں پانی کی سطح کم ہو جاتی تو اس کا مطلب لوگوں کے لیے مشکلات اور غربت ہوا کرتا تھا

خشک سالی کے باعث فصلیں تو تباہ ہوتی ہی ہیں، لیکن یہ ان گزرگاہوں کے خاتمے کا سبب بھی بنتے ہیں، جن کے ذریعے خوراک کی آمدورفت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ اس کے بعد قحط سالی کا دور شروع ہو جاتا

ماضی میں وسطی یورپ، جس میں آسٹریا، چیکیا، جرمنی، ہنگری، پولینڈ اور سؤٹزرلینڈ کے حصے بھی شامل ہیں، کا دارومدار دریاؤں کے کناروں پر موجود زرخیز زمین سے اگنے والی خوراک پر ہوتا تھا

اس حوالے سے جرمن صحافی اولاف کوئنز اپنی ایک ٹویٹ ہیں کہ جرمن زبان میں ان پتھروں کے لیے ’ہنگرسٹین‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جس کا ترجمہ ’ہنگر اسٹون‘ کے طور پر کیا جا سکتا ہے

اس لفظ کو ایک ایسے ہی پتھر پر کنندہ الفاظ سے لیا گیا ہے، جس میں سنہ 1947 کو ’فاقہ کشی کا سال‘ کہا گیا تھا

ماہرین کے مطابق حالیہ برسوں میں خشک سالی وسطی یورپ میں ماحولیاتی تبدیلی کی سب سے نمایاں نشانی بن کر ابھری ہے

ایک اور شہر، جہاں ایسے پتھروں کی بہتات ہے، وہ شمالی چیکیا کا قصبہ ڈیسن ہے اور یہ جرمن سرحد کے قریب واقع ہے۔ یہاں دریائے ایلبے اور پلوسنائس کا ملاپ ہوتا ہے

درجنوں ایسے پتھر دریائے ایلبے کی تہہ میں ملتے ہیں اور اس سے مقامی آبادی کو ماضی کے مشکل ادوار کے بارے میں پتہ چلتا ہے

ایسا ہی ایک ہنگر اسٹون جرمن ٹاؤن شونبیک میں ایک میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ یہ بھی ایک ایسے دریا سے ملا، جہاں پانی کی سطح انتہائی کم ہو گئی تھی

اس پتھر کے آثار سے کشتیوں کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ پانی کی اس کم ترین سطح میں کشتی چلانا ممکن نہیں

اکثر ’ہنگر اسٹونز‘ دریائے ایلبے میں ملتے ہیں، تاہم یہ اس خطے کے دوسرے دریاؤں میں بھی نظر آئے ہیں، جیسے دریائے رہین، دی موسل اور دی ویزر میں

یورپ میں قحط سالی پر نظر رکھنے والے ادارے (ای ڈی او) کے مطابق قحط سالی کے حوالے سے دی گئی تنبیہات کے مطابق یورپ کی ساٹھ فیصد اراضی اس سے متاثر ہے

اٹلی کے شہر منتوا میں پانی کی سطح میں کمی کے باوجود وہاں ’ہنگر اسٹون‘ نظر نہیں آئے۔ تاہم دریائے پو کی تہہ میں دوسری عالمی جنگ کے دوران چلایا گیا ایک ساڑھے چار سو کلو وزنی بم ضرور ملا، جو ابھی تک پھٹا نہیں تھا

گذشتہ ہفتوں کے دوران فرانس اور اسپین جیسے ملکوں نے پانی کے استعمال کو محدود کرنے کی کوشش کی ہے، جہاں حکام مخصوص صورتحال کے دوران پانی کی سپلائی کاٹنے پر مجبور ہوئے ہیں

فرانسیسی حکام نے سات اگست کو اعلان کیا تھا کہ ملک سنہ 1958ع کے بعد سے سب سے شدید قحط سالی سے گزر رہا ہے

روئٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق جرمنی میں دریائے رہین سوئس ایلپس سے بحیرہ شامل کی جانب بہتا ہے اور یہاں بحری جہازوں کی کمپنیوں کو کارگو کی مقداد کم کرنے کا کہا گیا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close