چین سی پیک منصوبوں میں مزید سرمایہ کاری کیوں نہیں کر رہا؟

ویب ڈیسک

گل زیب خان گوادر کے رہائشی ہیں۔ وہ چھوٹے تاجر ہیں اور درآمدات اور مقامی تجارت سے وابستہ ہیں۔ سال 2015ع سے پہلے انہوں نے پنجاب منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا

لیکن چین کے پاکستان میں سی پیک منصوبہ شروع کرنے کے بعد انہوں نے گوادر میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں امید تھی کہ گوادر دبئی اور سنگاپور جیسا شہر بن جائے گا

ان کا خیال تھا کہ سی پیک اور گوادر بندرگاہ کی تعمیر سے ان کا کاروبار بڑھے گا، تجارت میں اضافہ ہوگا، گھر میں خوشحالی آئے گی۔ وہ نیا گھر بنائیں گے اور بچوں کو بہتر اسکولوں میں داخل کروا سکیں گے، لیکن سات سال گزرنے کے بعد وہ مایوس ہو چکے ہیں

اب گل زیب خان کا کہنا ہے ”سی پیک سست روی کا شکار ہے۔ جتنا سی پیک مکمل ہوا ہے اس کا زیادہ فائدہ چین کو ہے۔ پاکستانی تاجروں کو نہیں۔ میرا کاروبار بڑھنے کی بجائے کم ہو گیا ہے، کیونکہ جن علاقوں میں سامان فروخت کرتے تھے وہاں چینی لوگوں کی سوسائٹیاں بن گئی ہیں اور ہم وہاں جا نہیں سکتے“

انہوں نے بتایا ”اس کے علاوہ چینی کمپنیاں ماہر اسٹاف بھی چین سے لاتی ہیں۔ یہاں تک کہ کھانے پینے اور استعمال کا سامان بھی چین سے آتا ہے۔ اس کے علاوہ سکیورٹی کی صورتحال پریشان کن ہونے کی وجہ سے پنجاب اور سندھ سے سرمایہ کار گوادر کا رخ نہیں کر رہے“

گل زیب خان کہتے ہیں ”ابھی بھی تجارت کے لیے کراچی پورٹ استعمال کی جا رہی ہے۔ میں تو سی پیک کو اس وقت فائدہ مند مانوں گا جب میرا کاروبار بڑھے گا، میری معاشی حالت بہتر ہوگی اور میرے بچے اچھے اسکول میں تعلیم حاصل کریں گے“

پاکستان اور چین کے درمیان بظاہر کشیدگی کے حوالے سے ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ سی پیک معاہدوں کا ہے

وہ کہتے ہیں ’پہلے مرحلے میں انرجی پراجیکٹس مکمل کرنے تھے اور دوسرے مرحلے میں اکنامک زونز بنائے جانے تھے۔ انرجی منصوبوں کی بروقت ادائیگیاں نہ ہونے کی وجہ سے منصوبہ تیز رفتاری سے آگے نہیں بڑھ سکا‘

ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق ’چین نے اس بارے میں کئی طریقوں سے پاکستانی حکام کو آگاہ کیا ہے لیکن پاکستان کی کمزور معاشی صورتحال کی وجہ سے چین کو ادائیگیاں نہیں ہو رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں چینی صدر شی جی پنگ نے براہ راست وزیراعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ چینی سرمایہ کاروں کو قانونی تحفظ دیا جائے‘

ڈاکٹر فرخ سلیم نے مزید کہا ’چین اور پاکستان کے درمیان ہیڈ آف اسٹیٹس کے لیول پر کبھی ایسا مطالبہ نہیں کیا گیا بلکہ یہ معاملات اسٹاف لیول پر ہی ڈسکس کیے جاتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین پاکستان کے ساتھ کمفرٹیبل نہیں ہے اور وہ سی پیک میں مزید سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے‘

2015ع میں پاکستان سے بجلی بحران ختم کرنے کے لیے چینی پاور کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کیے گئے تھے، جن کے مطابق ان کمپنیوں کو منافعے کی گارنٹی دی گئی تھی۔ کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں بجلی پیدا کریں یا نہ کریں حکومت پاکستان کو انہیں ادائیگیاں کرنا ہوں گی

2017ع تک کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں تقریباً 255 ارب روپوں کی ادائیگی کی گئی اور 2022 میں یہ رقم 1200 ارب روپے تک بڑھ گئی ہے، جس میں سے تقریباً 35 فیصد چینی کمپنیوں کو واجب الادا ہے

ایک اندازے کے مطابق 2025 تک یہ رقم 3600 ارب روپوں تک بڑھ سکتی ہے، جس کی ادائیگی پاکستان کے لیے تقریباً ناممکن ہے۔ ان حالات کے پیش نظر چین سی پیک میں مزید سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہے

پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال بھی سی پیک منصوبوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومتوں کے غیر متوقع طور ث تبدیل ہونے اور لانگ مارچ، دھرنوں کے نام پر ملک میں بے یقینی کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے

اس تناظر میں ڈاکٹر فرخ سلیم سمجھتے ہیں ’چینی سرمایہ کاروں کے پاس سرمایہ لگانے کے لیے پوری دنیا ہے۔ پھر وہ سیاسی عدم استحکام کے شکار ملک میں اپنا پیسہ کیونکر لگائیں گے؟ اگر اہل اقتدار سی پیک کی تکمیل میں دلچسپی رکھتے ہیں تو تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک پیج پر لانا ہوگا۔‘

ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ سی پیک پر کام پہلے ہی سست روی کا شکار تھا اور اب تو بالکل ہی بند ہو گیا ہے

وہ کہتے ہیں ’چین پاکستان سے پیچھے ہٹتا دکھائی دے رہا ہے جبکہ چین کو مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ چینی صدر کا پاکستانی وزیراعظم سے بجلی کی ادائیگیوں اور سکیورٹی ایشوز پر بات کرنا پریشان کن صورتحال کی طرف اشارہ کرتا ہے‘

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان سے بھی کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔ سی پیک اتھارٹی کے خاتمے کے منفی اثرات سامنے آ رہے ہیں

واضح رہے کہ موجودہ حکومت نے سی پیک اتھارٹی کو ختم کیا تھا

اشفاق حسن کہتے ہیں ’چین نے اعتراض کیا ہے کہ پچھلے سات سالوں میں سی پیک سے متعلق حکومت پاکستان کی جانب سے مستقل لائحہ عمل طے نہیں کیا جا سکا جبکہ بارہا اس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ حکومت کو سی پیک اتھارٹی ختم نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ کہتے ہیں کہ انرجی معاہدے ’بغیر بڈنگ‘ کے کیے گئے، جو کہ ’بڑی کرپشن‘ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ آج یہی بجلی کے منصوبے پاکستان پر بوجھ ہیں

ڈاکٹر سلیمان شاہ کا کہنا تھا کہ چین جانتا ہے کہ پاکستان ہر مشکل وقت میں اس سے مدد مانگے گا، اس لیے اب چین نے پہلے سے ہی مطالبات شروع کر دیے ہیں

’چینی انجینیئرز اور اسٹاف پر ہونے والے حملوں پر بھی چین کو شدید تحفظات ہیں۔ اپریل 2021 اور جولائی 2022 میں چینی شہریوں پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد سی پیک کے مکمل ہونے کی رفتار میں کمی آئی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں چینی صدر نے وزیراعظم پاکستان سے چینی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم کے پاکستان واپسی کے بعد آرمی چیف کو فوراً چین کا دورہ کرنا پڑا

’لیکن اس دورے کے نتیجے میں کوئی بڑا بریک تھرو نہیں ہو سکا۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق چین اپنے مطالبات پر قائم ہے۔‘

ڈاکٹر سلیمان شاہ کہتے ہیں کہ اطلاعات کے مطابق وزیراعظم مالی امداد کے لیے چین جانے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن چین کی جانب سے حوصلہ افزا پیغامات موصول نہیں ہوئے ہیں۔ چین نے اعتراض کیا ہے کہ سرمایہ کاری کمپنیوں کے حقوق کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور قانونی تحفظ فراہم نہیں کیا جا رہا۔

ڈاکٹر ظفر پراچہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ اگر چین پاکستان کے ساتھ مخلص ہوتا تو سی پیک کے منصوبے کمرشل قرضوں کی بنیاد پر نہ بناتا بلکہ انہیں اپنی جیب سے فنانس کرتا۔ پندرہ سے بیس سال ان منصوبوں سے منافع کماتا اور جب اچھا منافع حاصل کر چکا ہوتا تو اس کے بعد پاکستان کو ملکیت منتقل کر دیتا۔ دنیا میں بڑے منصوبے اسی طرح مکمل ہوتے ہیں

’ایک تو سی پیک سے سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہے اور دوسرا سود سمیت قرض بھی پاکستان نے ادا کرنا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کو سری لنکا کی طرف لے جا رہی ہے۔ چین نے جس طرح سری لنکا کو دو ارب ڈالرز نہ دے کر تنہا چھوڑ دیا اب پاکستان کے ساتھ بھی وہی کرنے والا ہے۔ اس حوالے سے امریکہ، یورپ اور آئی ایم ایف کے خدشات درست دکھائی دیتے ہیں‘

ڈاکٹر ظفر پراچہ کے مطابق ’چین جانتا ہے کہ پاکستان کے پاس ڈالرز ختم ہو چکے ہیں۔ یہ مزید قرض کی ادائیگی کرنے کے لیے بھی ہم سے قرض مانگیں گے، اس لیے سی پیک منصوبوں پر بھی کام نہیں ہو رہا۔ جہاں تک بات ہے سی پیک کے مکمل ہونے کی تو اس کی امید بہت کم ہے۔‘

سی پیک اتھارٹی کے سابق سربراہ خالد منصور کے مطابق اگر چینی سرمایہ کاروں کو مطلوبہ سہولتیں دی جائیں تو وہ کام کی رفتار کو بڑھا سکتے ہیں اور سی پیک پر دوبارہ کام تیز ہو سکتا ہے۔ چینی سرمایہ کاروں کی فائلیں کئی ماہ تک سرکاری دفتروں کے چکر لگاتی رہتی ہیں۔ ون ونڈو آپریشن سے اس مسئلے کا حل نکل سکتا ہے

’اگر آپ سرمایہ کاروں سے اربوں روپے لگوائیں گے اور پھر انہیں ادائیگیوں اور سہولتوں پر تنگ کریں گے تو سی پیک کیسے مکمل ہو سکتا ہے۔‘

ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ سی پیک کی بنیاد جن شرائط پر رکھی گئی تھی اس کا پاکستان کو فائدے سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ سی پیک ملکی ترقی میں اضافے کی بجائے ملک پر ایک بوجھ بن کے سامنے آ رہا ہے، جس کا وزن پاکستان اٹھا نہیں سکتا اور چین مزید سہارا دینے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا

ایسے میں سی پیک پر مزید کام کرنے کا مطلب ہے مزید سرمایہ کاری اور چین مزید سرمایہ لگانے کے حق میں نہیں ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close