وہ جو کہتے ہیں کہ اگر آپ بدترین کام پر بھی کمر بستہ ہیں تو اس کے لیے بہترین جواز تلاش کرنا کوئی مشکل نہیں۔بھلے یہ کام کسی خاص طبقے کو اس کے عقیدے ، علاقے، رنگ نسل یا سوچ کے سبب شناخت سے محروم کرنے، اس کا محاصرہ کرنے یا صفحہِ ہستی سے مٹانے جیسا ہی کیوں نہ ہو۔کچھ ایسا ہی معاملہ پچھلے ساڑھے سات دہائیوں سے فلسطینیوں اور گزشتہ سات برس سے بھارتی مسلمانوں کو درپیش ہے۔ مگر پہلے فلسطین
چونکہ اسرائیلی آئین کے مطابق ملک کے اصل باشندے اہلِ یہود ہیں۔اسرائیلی درسی کتابوں کے مطابق فلسطینی باشندے معلوم نہیں کہاں سے آن کے یہاں بس گئے۔لیکن اب اسرائیل اتنا بھی ظالم نہیں کہ اس بوجھ کو یوں ہلکا کرے جیسے ہٹلر نے گیس چیمبرز کے ذریعے کیا تھا۔یہ جدید دور ہے اور اس میں کسی بھی قوم یا فرد کی عزتِ نفس مسلسل کچل کے انھیں نیم انسان کے درجے تک پہنچانے کے موثر طریقے موجود ہیں۔گویا کام بھی اتر جائے اور الزام بھی سر پے نہ آئے
مگر فلسطینی بھی بلا کے ڈھیٹ ہیں۔انھیں آپ جیسے چاہو رکھو ، ربڑ کی گولیوں سے مارو کہ اصلی گولی سینے میں اتارو۔ان کے پانچ برس کے بچے کا تاک کے بھیجا اڑا دو یا بمباری کر کے پنگھوڑے سمیت ان کی نوزائیدہ نسل بھسم کر دو۔انھیں آبائی گھروں سے نکال کر کسی بھی پشمل جھٹک الزام میں عدالت کا فلمی سیٹ لگا کے جتنی مدت کے لیے چاہو اندر کر دو ، ان کی عمارتوں پر بلڈوزر چلا دو ، زیتون کے باغات اجاڑ دو ، ان ہی کی زمین یا قبرستان کے اردگرد باڑھ لگا کے یا دروازے پر مسلح سنتری کھڑا کر کے جب چاہے داخلہ بند کر دو
ان کے کھیت قومی سلامتی کے نام پر چھین کر راتوں رات بیرونِ فلسطین سے درآمد یہودی آبادکاروں کو لا کر بسا دو ، سو سو گز کے فاصلے پر فوجی چوکیاں بنا کے عورتوں بچوں بوڑھوں جوانوں کو ایک ہی قطار میں تپتے سورج تلے کئی کئی گھنٹے کے لیے کھڑا کر دو۔نہ انھیں تلاشی کی چوکی پر پینے کا پانی دو نہ بیت الخلا کی جگہ اور نہ ہی بیٹھنے کے لیے کوئی سایہ دار بنچ۔ چاہے تو ان کا شناختی کارڈ ضبط کر لو ، منسوخ کر دو ، چاہے تو بحال کردو اور وجہ بتانے کے بھی مکلف نہ ہو۔ اس سب کے باوجود فلسطینی کسی طرح قابو میں آ کے نہیں دے رہے
وہ جو کہتے ہیں کہ کچھ کارآمد ہنر سیکھنے کی سب سے اچھی درس گاہ جانی دشمن ہے۔اس اصول کے تحت اسرائیلیوں نے نازیوں سے سیکھا اور فلسطینی اسرائیلیوں سے سیکھ رہے ہیں۔دونوں ایک دوسرے کی کمزوریوں اور طاقت سے اچھے سے واقف ہیں۔تبھی تو صدی بھر سے موت و حیات کا میچ جاری ہے۔تماشائیوں اور کھلاڑی کی نئی نسل نے پرانوں کی جگہ لے لی مگر میچ جاری ہے اور جانے کب تک جاری رہے
خدا کی قسم اگر بنی اسرائیل خود کو خدا کی لاڈلی قوم سمجھتے ہیں تو فلسطینی بھی خدا کا بنایا سب سے ہٹیلا اور ضدی گروہ ہے۔اور خدا بھی مسلسل دیکھ رہا ہے کہ دیکھیں کون سا گروہ دوسرے کی کمر کب زمین سے لگاتا ہے۔ سنتے ہیں پہلے خدا کسی ایک گروہ کے حق میں براہ راست عذاب یا مدد کے ذریعے مداخلت بھی کرتا تھا۔جب سے انسانوں نے خود کو خدا سمجھنا شروع کیا ہے اصلی خدا بھی اب صرف ان بونے خداؤں کو دلچسپی سے دیکھتا رہتا ہے
اس کھیل میں تازہ داؤ یہ کھیلا گیا ہے کہ چار ستمبر کو اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ غربِ اردن میں غیرملکی باشندوں کے داخلے سے متعلق قواعد میں کچھ نئی ترامیم کی ہیں۔غیر ملکیوں کو پہلے بھی غربِ اردن میں داخلے کے لیے حکومتِ اسرائیل کی وزارتِ دفاع سے پروانہِ راہ داری لینا پڑتا تھا۔اب اسرائیلی اہلکاروں کو یہ صوابدیدی اختیار بھی دے دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی غیر ملکی کو پروانے کا اجرا بیس ہزار ڈالر زرِ ضمانت کے عوض جاری کرنے کے مختار ہوں گے
غیر ملکی باشندے کو وزارتِ دفاع کے فارم میں یہ بھی لکھنا ہوگا کہ وہ جوڈیا سماریا ( غربِ اردن ) کیوں جانا چاہ رہے ہیں ؟ کام ، ملاقات یا کسی فلسطینی سے محبت یا جذباتی تعلق ؟ اگر وہ کسی فلسطینی شہری سے شادی کر کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے الگ سے رہائشی پرمٹ کی درخواست دینا ہو گی۔یہ پرمٹ سال میں ایک بار ایک ساتھ جاری ہوتے ہیں
اس بابت درخواست فلسطینی اتھارٹی کے توسط سے اسرائیلی وزارتِ دفاع کو ارسال کی جاتی ہے۔ وزارتِ دفاع درخواست دہندہ کے کوائف کی فرداً فرداً چھان بین کے بعد فیصلہ دیتی ہے کہ وہ رہائشی پرمٹ کا اہل ہے یا نہیں۔ وزارتِ دفاع درخواست وجہ بتائے بغیر مسترد بھی کر سکتی ہے یا مزید تفصیلاتی تشفی کے لیے واپس فلسطینی اتھارٹی کو بھیج سکتی ہے۔ درخواست مسترد ہونے کی صورت میں نئی درخواست پانچ برس بعد ہی دائر کی جا سکتی ہے
پرمٹ دو برس کے لیے جاری ہوتا ہے۔ اسرائیلی حکام سمجھیں کہ پرمٹ سے نتھی شرائط پر پوری طرح عمل نہیں ہو رہا تو اسے کسی بھی وقت منسوخ کیا جا سکتا ہے۔شرائط پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیلی حکام کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ بتائے گئے رہائشی پتے پر اچانک کسی بھی وقت چھاپہ مار کے تسلی کر سکتے ہیں کہ قانون نہیں توڑا جا رہا
ان ترامیم سے قبل اسرائیلی شہریت کے قانون میں یہ تبدیلی کی گئی کہ مقبوضہ علاقوں میں رہنے والا کوئی مرد یا خاتون اسرائیل کے کسی عرب یا یہودی شہری سے شادی کرنے کے باوجود اسرائیلی شہریت سے محروم رہے گا۔البتہ اس شرط سے مقبوضہ مغربی کنارے پر آباد یہودی آباد کار مستثنٰی ہیں۔انھیں اسرائیل اپنی بین الاقوامی حدود سے باہر بسنے کے باوجود مکمل شہری تسلیم کرتا ہے
ان امتیازی قوانین کا مقصد فلسطینیوں کو اتنا تنگ کرنا ہے کہ وہ بالاخر بیرونِ ملک چلے جائیں۔ ایسے فلسطینی جوڑوں میں سے شاید ہی کوئی غربِ اردن یا اسرائیل میں بقیہ زندگی گذارنا چاہتا ہو۔اکثر جوڑے اپنی سرزمین چھوڑ جاتے ہیں اور پھر اسرائیلی قوانین کے تحت غیر ملکی قرار پاتے ہیں۔گویا نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ اسرائیل کے لیے سب سے سنگین بقائی مسئلہ یہی ہے کہ فلسطینیوں کی بڑھتی آبادی کو کیسے محدود و پابند رکھا جا سکے
(میں نے ابتدا میں ذکر کیا تھا کہ جو نسلی و سماجی و سیاسی امتیاز اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کو درپیش ہے۔کم و بیش انھی مسائل کا مودی حکومت کے ہاتھوں بھارتی مسلمانوں کو سامنا ہے۔اس وقت اسرائیل اور بھارت اپنی امتیازی پالیسیوں کے سبب کند ہم جنس باہم جنس پرواز ہیں۔ اگلے مضمون میں اسی پہلو پر بات ہوگی۔
بشکریہ: ایکسپریس نیوز