موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں پاکستان کا پانچواں نمبر، خوراک کے بحران کا خدشہ

نیوز ڈیسک

عالمی موسمیاتی ادارے ورلڈ میٹرو لوجیکل آرگنائزیشن (ڈبلیو ایم او) نے خبردار کیا ہے کہ کرونا وبا کے باعث لاک ڈاؤن کے باوجود موسمیاتی تغیر کا عمل نہیں رکا, بلکہ کم و بیش اسی تیزی سے جاری ہے۔

تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ آف گلوبل کلائمیٹ 2020ع کی عبوری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2011ع سے 2020ع کے درمیان آنے والے دس سال تک ریکارڈ کیے جانے والے درجۂ حرارت کے اعداد و شمار کے مطابق یہ سب سے زیادہ گرم رہنے والی دہائی ہے۔ اس دہائی کے بھی سب سے زیادہ گرم ترین سال 2015ع سے 2020ع کے درمیان ہی ثابت ہوئے ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اب تک کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2016ع، سال 2019ع اور پھر رواں سال درجہ حرارت ریکارڈ رکھنے کی 170 سالہ عالمی تاریخ کے تین گرم ترین سال ثابت ہوئے ہیں۔

پاکستان کے حوالے سے اس رپورٹ کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ رواں برس جنوری میں سامنے آنے والی ‘گلوبل کلائمیٹ رسک’ کی فہرست میں پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے پہلے پانچ ممالک میں شامل کیا گیا تھا، جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تباہی کے علاوہ خوراک کا بحران بھی پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل پاکستان اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر تھا۔

ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس صورتِ حال میں ملک کی معیشت کا زیادہ انحصار زراعت پر ہونے کی وجہ سے اسے شدید معاشی بحران سے بھی دو چار ہونا پڑ سکتا ہے۔

کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ ماحولیاتی مطالعے میں استاد ڈاکٹر معظم علی خان کے مطابق پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے ہائیڈرو لوجیکل سائیکل متاثر ہونے سے بارشیں کم ہو رہی ہیں اور پانی کی کمی سر اٹھا رہی ہے۔ جب کہ دوسری جانب گرمی بڑھنے کی وجہ سے یا تو فصلیں وقت سے پہلے تیار ہو رہی ہیں یا پھر گرمی سے وہ تباہ ہو رہی ہیں

ڈاکٹر معظم علی خان کا کہنا ہے کہ جلدی تیار ہونے والی فصلوں پر حشرات کے حملوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور حال ہی میں ٹڈی دل جنوبی ایشیا کے مختلف ممالک میں فصلوں پر حملہ آور ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ بے وقت بارشوں سے بھی فصلوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جب کہ غیر معمولی بارشیں بھی فصلوں کی تباہی کا موجب بن رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چاول اور گنے کی فصلیں جن میں پانی کی بے تحاشا ضرورت ہوتی ہے یہ فصلیں پانی کی کمی کی صورت میں کیسے بہتر اُگ سکیں گی۔

ان کے خیال میں یہی وجہ ہے کہ ملک میں خوارک اور اجناس کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جب کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی حالیہ گندم کے بحران کی ایک وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا تھا

رپورٹ کے مطابق سورج کی روشنی پڑنے سے سمندر میں جذب ہونے والی توانائی اور حدت میں بھی ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے اور کرۂ ارض پر پائے جانے والے سمندروں کے 80 فی صد حصے نے رواں سال ‘میرین ہیٹ ویو’ کا سامنا کیا ہے

اس ہیٹ ویو سے آبی حیات اور آبی ماحولیات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں جو پانی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جذب ہونے کے باعث پہلے ہی بہت زیادہ تیزابیت کا شکار ہے۔

کئی عالمی تنظیموں اور ماہرین کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ کے مطابق شدید گرمی کی لہر، جنگلوں میں لگنے والی آگ، سیلاب اور بحر اوقیانوس میں سمندری طوفانوں نے نہ صرف لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ انسانی صحت، تحفظ اور پھر کرونا وبا سے معاشی استحکام کو بھی شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کرونا وبا کے پیش نظر لاک ڈاؤن کے باوجود ماحول میں گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں اضافے کا رحجان برقرار رہا جس سے آنے والی نسلوں کے لیے زمین زیادہ گرم ہونے کا سلسلہ جاری ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ گرین ہاؤس گیسز جو ماحولیاتی درجۂ حرارت بڑھانے اور شدید موسمی تبدیلیوں کی اصل وجہ قرار دی جاتی ہیں۔ ان کا اخراج کرونا وبا کے دوران صنعتی پہیہ سست ہونے کے باوجود کوئی خاص کم نہیں ہوا

ان حقائق کی بنیاد پر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنعتی ترقی کے دور سے قبل یعنی 1850ع سے 1900ع کے دوران ریکارڈ کیے گئے درجہ حرارت کے مقابلے میں 2020ع میں اوسط عالمی درجۂ حرارت 1.2 سینٹی گریڈ بڑھا ہے

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس بات کا خدشہ ہے کہ 2024ع تک یہ درجہ حرارت اس معیار سے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ جائے گا

سائنس دان اس ریکارڈ گرمی کے سال کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سال بحر اوقیانوس اور اس کے اردگر آباد ممالک میں شدید درجۂ حرارت نوٹ کیے گئے۔ اسی طرح سائبیریا سے لے کر آسٹریلیا اور پھر امریکہ کے مغربی ساحل اور جنوبی امریکہ کے جنگلات میں لگنے والی آگ کے دھوئیں نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا

گرم موسم کے سب سے زیادہ اثرات شمالی ایشیا میں نمایاں نظر آئے۔ خاص طور پر سائبیریا کے علاقوں میں جہاں درجہ حرارت اوسط سے پانچ سینٹی گریڈ اوپر ریکارڈ کیا گیا

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ بحر منجمد شمالی کے برف سے ڈھکے حصے کا رقبہ 42 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ برف سے ڈھکے اس سمندر میں جولائی سے اکتوبر 2020ع کے دوران برف تاریخ کی کم ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی۔ اسی طرح دنیا میں سطح سمندر کی بلندی میں بھی تیزی سے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

رپورٹ میں دنیا بھر خصوصاََ جنوبی ایشیا کے ممالک میں آنے والے سیلابوں کو بھی موسمی تغیرات سے تعبیر کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 1994ع کے بعد بھارت میں رواں سال سب سے زیادہ بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔ جب کہ پاکستان میں بھی اگست کے مہینے میں سب سے زیادہ بارشیں ریکارڈ ہوئی

رپورٹ کے مطابق دنیا کے کئی خطوں میں گرمی میں اضافہ ہوا۔ قحط اور غذائی قلت کے خطرات بڑھ گئے۔ یہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں طوفانوں کی تعداد اور شدت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جس کے نتیجے میں تقریباََ ایک کروڑ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ جن میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا سے تھا.

پاکستان میٹرو لوجیکل ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل محمد ریاض بلند عالمی درجۂ حرارت کو موسمیاتی تبدیلیوں کی اصل وجہ قرار دیتے ہیں۔

محمد ریاض کے مطابق گرین ہاؤس گیسز بالخصوص کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن گیسز کا مسلسل بڑھتا ہوا اخراج، آبادی میں اضافہ اور قدرتی عمل میں بے جا انسانی دخل اندازی معاملے کو گھمبیر بنا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی اب ایک حقیقت بنتی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر معظم خان کہتے ہیں کہ عالمی درجۂ حرارت بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ تو گرین ہاوسز گیسز کا اخراج ہے۔ اور دوسری جانب جنگلات کی کٹائی تیزی سے جاری ہے۔ اس وجہ سے جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو بارشوں کا نظام متاثر ہوتا ہے۔

ان کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ غیر پائیدار صنعت کاری ہے۔

درجہ حرارت میں کمی لانے کے عالمی معاعدے سے امریکہ کی دستبرداری کا کیا مطلب ہے؟
اگرچہ دنیا میں ماحولیاتی بقا کے لیے اہم سمجھے جانے والے معاہدے پیرس ایگریمنٹ آن کلائمٹ چینج کی پانچویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ لیکن سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے تحت دنیا بھر سے گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کم کرنے کے لیے کی جانے والی کوششیں اب تک بہت کم مثبت ثابت ہوئی ہیں۔ ان کوششوں کو اس وقت دھچکا لگا۔ جب امریکہ نے اس معاہدے سے دست برداری کا اعلان کیا۔

معاہدے کا مقصد رواں صدی کے اختتام تک عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنے اور پھر عالمی درجۂ حرارت کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک لے جانے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔

واضح رہے کہ چین کے بعد امریکہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا کاربن خارج کرنے والا ملک ہے۔

ڈاکٹر معظم علی خان کے مطابق پیرس معاہدے سے خائف ریاستوں کا مؤقف یہ ہے کہ اگر معاعدے پر عمل درآمد کیا گیا تو ان کی صنعتی ترقی کا پہیہ رک جائے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ صنعتی ممالک کی ترقی کا خمیازہ سب سے زیادہ غریب ممالک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

ان کے خیال میں صنعتی ترقی میں آگے ممالک ہی سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا باعث ہیں۔ یہ ان ممالک کی ذمہ داری ہے کہ ایک جانب دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے ٹھوس اقدامات بھی کریں اور دوسری جانب غریب ممالک کو اس کے اثرات سے بچاؤ کے لیے مناسب سبسڈی فراہم کریں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close