فلم اواتار 2 اور فلمی صنعت میں تھری ڈی فارمیٹ کا مستقبل

ویب ڈیسک

ایک جانب تو اواتار فرنچائز کی نئی آنے والی فلم ’اواتار: دا وے آف واٹر‘ سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں تو دوسری جانب اب تک کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم کا سیکوئل ممکنہ طور پر ایک جُوا ثابت ہو سکتا ہے

اگرچہ اس بات کا یقین کرنا ذرا مضحکہ خیز لگتا ہے لیکن درحقیقت ایسا ہی ہے!

اواتار تیرہ سال قبل پہلی بار اسکرین کی زینت بنی تھی۔ اس دوران سنیما کا منظرنامہ ناظرین میں کمی، اسٹریمنگ سروسز میں تیزی سے جنم لینی والی مسابقت اور حقیقی آئیڈیاز پر کم ہوتی سرمایہ کاری کی وجہ سے بہت بدل چکا ہے

جیمز کیمرون نے ’دی وے آف واٹر‘ کے بجٹ کو ابھی تک ظاہر نہیں کیا، تاہم وہ یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ یہ ’بہت مہنگا‘ پروجیکٹ ہے

اس کا اندازہ آپ تجربہ کار فلم ساز کی اس بات سے لگا سکتے ہیں، جس میں انہوں نے کہا ”فلم کا صرف خرچہ نکالنے کے لیے دی وے آف واٹر کو اب تک کی ’تیسری یا چوتھی‘ سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم بننا پڑے گا“

تاہم یہ معاملہ صرف اس فلم کی سیکوئیل تک ہی محدود نہیں، غیر واضح بیلنس شیٹس اور سرمایہ دارانہ حماقت کے اس کھیل سے کچھ اور بھی داؤ پر لگ سکتا ہے، اور وہ ہے تھری ڈی فلموں کا مستقبل

اواتار کا ذکر کیے بغیر تھری ڈی فلموں کے بارے میں بات کرنا تقریباً ناممکن ہے، یعنی یہ تمام تھری ڈی فلموں کے لیے 1940ع کی دہائی کی کلاسک ’سٹیزن کین‘ کی طرح ہے، جس کی تعریف کرنے کے لیے سادہ لوح لینز کی ضرورت ہوتی ہے

لیکن یہ تھری ڈی کی حقیقی صلاحیت کو بروئے کار لانے کی پہلی کوشش سے بہت دور تھا

درحقیقت، فلم سازوں نے سنیما کے ابتدائی دنوں سے ہی تھری ڈی پروجیکشنز کے ساتھ تجربات کیے تھے، جسے 1950ع کی دہائی میں ایک مختصر عروج حاصل ہوا

الفرڈ ہچکاک کی 1954 کی شاندار سنسنی خیز فلم ’ڈائل ایم فار مرڈر‘ کے ساتھ اس رجحان کو بہت بلندی پر سمجھا جاتا تھا

اگرچہ اس میں اخراجات (پرنٹ کے لیے فلم سے دوگنا اور اکثر دو پروجیکشنسٹ کی ضرورت ہوتی ہے) اور موشن سِکنیس کے واقعات جیسی خامیاں تھیں

1980ع کی دہائی تک کنکس ختم ہونا شروع ہو گئے تھے، تاہم آئی میکس سکرینز کے عروج کے ساتھ ان کے دوبارہ زندہ ہونے کا امکان پیدا ہوا

1990ع اور 2000ع کی دہائیوں کے دوران تھری ڈی فلموں کی مقبولیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا

بچوں کی بہت سی فلمیں اور ژانرے کا رجحان تھری ڈی میں بنے، جن میں ’جرنی ٹو دا سنٹر آف دا ارتھ‘، ’سُپرمین ریٹرنز‘ اور ماضی کی بہت کامیاب اور کلاسیک فلموں، جیسے اسٹار وار، ٹائٹینک، دا لائن کنگ کو تھری ڈائمنشن میں تبدیل کر کے بڑی سکرینز پر پیش کیا گیا

نہایت ہی قدرتی انداز میں اس فارمیٹ کی مخالفت بھی ہوئی۔ انہوں (مخالفت کرنے والوں) نے اس بارے میں دلیل دی کہ یہ ایک توجہ حاصل کرنے کی چال تھی۔ ایسا ممکن تھا لیکن یہ چال ملٹی پلیکس پر قبضہ جما رہی تھی

اواتار پہلی فلم تھی، جس سے لگا کہ یہ اس بارے میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کو مکمل طور پر ختم کر سکتی ہے، یعنی ایک بڑا اور ہٹ بلاک بسٹر پروجیکٹ جو تھری ڈی تجربے کو پوری طرح ذہن میں رکھتے ہوئے تیار کیا گیا تھا

تھری ڈی کی شمولیت نے اواتار کی دنیا یعنی ’پنڈورا‘ کے شاندار مناظر اور نباتات کی زندگی کے ساتھ انصاف کیا، حتیٰ کہ اواتار کی کہانی اور اس کے مرکزی پلاٹ پر تنقید کرنے والوں کو بھی فلم کی تکنیکی صلاحیت کی تعریف کرنا پڑی۔ بالآخر تھری ڈی کا ظہور پورے آب و تاب سے ظاہر ہو چکا تھا

لیکن تھری ڈی کے ساتھ عوام کی محبت کا معاملہ موسم گرما سے لگاؤ کی طرح مختصر ثابت ہوا

اس (تھری ڈی) فارمیٹ میں آنے والی چند دوسرے نمایاں پروجیکٹس میں پیٹر جیکسن کی ’دا ہیبٹ‘ اور الفانسو کورونز کی ’گریویٹی‘ شامل تھے جن میں سے آخرالذکر کو اس فارمیٹ کے لیے ایک اور اعلیٰ مقام سمجھا جاتا تھا

لیکن جیسے ہی اواتار سینما گھروں سے اتری، تھری ڈی کے لیے جوش و خروش کم ہونا شروع ہو گیا حالانکہ بحث کی حد تک تھری ڈی فلمیں پہلے سے کہیں زیادہ پسند کی جاتی ہیں

جیسا کہ کیمرون نے یاہو کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ دنیا بھر میں تھری ڈی سکرینز کی تعداد گذشتہ بارہ سالوں میں چھ ہزار سے بڑھ کر ایک لاکھ بیس ہزار تک پہنچ گئی ہے

انہوں نے کہا: ”یہ (تھری ڈی فلم) صارفین کے انتخاب کی سطح تک پہنچ گئی ہے۔۔ اگر لوگ اسے پسند کرتے ہیں تو وہ اسے تھری ڈی میں دیکھ سکتے ہیں، نہیں تو اسے ٹو ڈی میں بھی دیکھ سکتے ہیں“

تاہم برسوں بیت چکے ہیں کہ کسی فلم کی تھری ڈی میں ریلیز بحث کا حصہ بنی ہو

بلاک بسٹرز کو کبھی بھی ناقدین کی خاطر تھری ڈی میں نہیں دکھایا جاتا، حتیٰ کہ اربوں ڈالر کمانے والی ایسی فلمیں جو تھری ڈی میں ریلیز ہو رہی ہو کا زیادہ ذکر نہیں ہوتا

ایسا لگتا ہے کہ یہ (فلمیں) اب حقیقی فنکارانہ اثر نہیں رکھتیں۔ یہ فارمیٹ اب پورے ریکیٹ کا صرف ایک حصہ ہے یعنی ایک اختیاری ’ایڈ آن‘ آپشن کی طرح کہ جیسے آپ میٹھے یا نمکین پاپ کارنز لینا چاہتے ہیں، یا آپ کی ڈرنک کا کیا سائز ہونا چاہیے

تاہم اس ضمن میں ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ’صارفین کی پسند‘ کا واقعی فن میں کوئی دخل ہونا بھی چاہیے؟

دی وے آف واٹر میں وقت، پیسہ اور تکنیکی آرٹ کے استعمال کو دیکھتے ہوئے، نہیں لگتا کہ کیمرون بھی پوری طرح ایسا چاہتے ہیں

یقیناً یہ اس فارمیٹ کے لیے مدد گار نہیں ہو سکتا کیوں کہ زیادہ تر سب سے بڑی تھری ڈی ریلیزز تیسرے (زی) ڈائمینشن کو ذہن میں رکھے بغیر فلمائی گئی ہیں

اسٹوڈیوز کے لیے فلموں کو شوٹنگ مکمل ہونے کے بعد تھری ڈی میں تبدیل کرنا اکثر سستا اور زیادہ موثر ہوتا ہے

فارمیٹ میں اس تبدیلی کا معیار بہت زیادہ مختلف ہوتا ہے، جیسا کہ سپیکٹرم کے ناقص اختتام کے نتیجے میں 2010 کی ’کلیش آف دا ٹائٹنز‘ پر لوگوں کو قہقہے لگانے کا موقع ملا

یہ ایک ایسی فلم تھی، جس کے خوفناک تھری ڈی کٹ کو خود فلم کے ڈائریکٹر لوئس لیٹریئر نے مسترد کر دیا تھا اور جس پر کچھ ناقدین نے یہ الزام بھی لگایا کہ یہ تھری ڈی انقلاب کو ناکام بنانے کی کوشش تھی

اس حوالے سے تنزلی کے دیگر اسباب بھی تیزی سے واضح ہوئے، جن میں ٹکٹ کی زیادہ قیمت، فلم کی کوالٹی کا اکثر خراب ہونا اور پھر وہ تھری ڈی والی عینکیں

لیکن اس فارمیٹ نے کبھی بھی اپنی صلاحیت کو مکمل طور پر نہیں کھویا

ہالی وڈ کی چکاچوند سے دور کچھ فلم ساز تخلیقی مقاصد کے لیے تھری ڈی کے ساتھ تجربات میں کامیاب ہوئے ہیں

لیجنڈری فرانسیسی مصنف جین لوک گوڈارڈ نے اپنی 2014 کی فلم گڈ بائی ٹو لینگویج کے لیے تھری ڈی کا استعمال کیا تھا

اپنی مرضی کے مطابق ڈھالے گئے کیمروں سے شوٹنگ کی اور تھری ڈی فلم سازی کے بہت سے طویل عرصے سے جاری ویژول روایات کو توڑ دیا

چینی ہدایت کار بی گین نے 2018 میں ’آ لانگ ڈیز جرنی ان ٹونائٹ‘ کو ریلیز کیا، جو ایک منفرد خواب جیسی فلم تھی، آدھی فلم کے بعد ایک گھنٹہ طویل ٹریکنگ شاٹ کے لیے تھری ڈی میں بدل جاتی ہے

جس چیز کو کمتر نہیں سمجھا جانا چاہیے، وہ ہے تھری ڈی کی قدر، جو سینما گھروں کے لیے یو ایس پی (یونیک سیلنگ پوائنٹ) کی طرح ہے

اسٹریمنگ سروسز سے تھیٹر میں فلم دیکھنے کے تجربے کو بڑھتے خطرے کو’ اواتار: دا وے آف واٹر‘ جیسی کسی فلم کی تھری ڈی اسکریننگ ناظرین کو ایسا تجربہ فراہم کر سکتی ہے، جس کا وہ گھر پر تصور بھی نہیں کر سکتے

2010 کی دہائی کے دوران ایک مختصر وقت کے لیے تھری ڈی ٹیلی ویژن کی مانگ پیدا ہوئی جو جلد ہی ختم ہو گئی

(بی بی سی اور سکائی نے تھری ڈی پروگرامنگ کو بہت جلد ترک کر دیا اور اس کے بعد سے تھری ڈی ٹی وی پر پروڈکشن مکمل طور پر بند کر دی گئی ہے)

یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا ’دا وے آف واٹر‘ تھری ڈی فارمیٹ کو معدوم ہونے سے بچا پائے گا؟ کچھ لوگ بلاشبہ بحث کر سکتے ہیں کہ اسے بچانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن داؤ پر ٹکٹوں کی فروخت سے زیادہ لگا ہوا ہے

اواتار کے سرسبز و شاداب نظاروں کو اپنے ارد گرد ایک بڑے سیلولائڈ بیئر ہگ کی طرح محسوس کر کے ہم یا دوسرے فلم ساز جان سکتے ہیں کہ تھری ڈی فلمیں کیوں بنائی جانی چاہیے

یہ تھری ڈی کی قلیل مدت کے لیے مالی فوائد کی لڑائی نہیں بلکہ اس کی روح ہے

اگر ہالی ووڈ واقعتاً یہ چاہتا ہے کہ لوگ تھری ڈی کو محض مضحکہ خیز فروخت کرنے والی چالوں سے زیادہ کے طور پر سمجھیں، تو اس کے لیے اسٹیریو سکوپک شیشوں والی عینک سے زیادہ کی ضرورت ہو گی۔

واضح رہے کہ ’اواتار: دی وے آف واٹر‘ 16 دسمبر سے سینما گھروں کی زینت بن گئی ہے۔

(یہ رپورٹ انڈپینڈنٹ میں شائع لوئس جینٹل کی تحریر سے ماخوذ ہے)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close