روٹی انسان کو کھا گئی، زرعی ملک خوراک کی قلت کا شکار کیوں؟

ویب ڈیسک

اکیسویں صدی کا تیئسواں سال شروع ہو چکا ہے اور زرعی ملک پاکستان میں لوگ آٹے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہیں، روندے جا رہے ہیں اور مر رہے ہیں۔ آٹا غریب کی پہنچ سے دور ہو چکا ہے اور وزیراعظم شہباز شریف صاحب فرماتے ہیں کہ ملک میں آٹے کا کوئی بحران نہیں

صوبہ سندھ کے شہر میرپورخاص میں آٹے کے حصول کے لیے سات بچوں کا باپ اور اپنے گھر کا اکیلا کمانے والا ایک شخص کچل کر کان گنوا بیٹھا لیکن کیا یہ ہمارے ارباب اختیار کے لیے تشویش کا باعث ہے بھی؟

بظاہر سستے آٹے کے حصول کے لیے جو لوگ اکٹھے ہوئے، وہ اس آٹے سے کہیں زیادہ تھے، جو سرکار تقسیم کرنا چاہتی تھی۔ لوگوں کو لگا کہ انہیں سستا آٹا نہیں مل سکے گا، جس پر بھگدڑ مچ گئی اور پھر کچھ پتہ نہیں چل سکا کہ کون کس کے نیچے آ گیا کیونکہ گھروں میں بھوک تھی اور نظریں سستے آٹے پر، بس پھر کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ کس کی بھوک کسے کھا گئی۔ ہجوم آگے نکلا تو پیچھے ایک انسان زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا

عالمی ہنگر انڈیکس، جس کے مطابق گذشتہ سال میں دنیا کے افلاس زدہ ایک سو اکیس ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 99واں ہے۔ جنگ زدہ یمن اس فہرست میں آخری نمبر پر ہے۔ پاکستان کے آگے پیچھے روانڈا اور انگولا جیسے ممالک ہیں

اس رپورٹ کے مطابق پاکستان 2021ع میں دنیا کے ان دس ممالک میں نویں نمبر پر تھا، جہاں ایک طرف خوراک کی شدید کمی ہے اور دوسری جانب پناہ گزینوں کا دباؤ ہے۔ عالمی ادارہ خوراک کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 43 فیصد خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے، جن میں سے 18 فیصد کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے

بینک دولت پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں گندم کی پیداوار میں آٹھویں، چاول میں دسویں، گنے میں پانچویں اور دودھ کی پیداوار میں چوتھے نمبر پر ہے۔ وزارتِ صحت اور عالمی ادارہِ اطفال کے 2018ع کے ایک سروے کے مطابق 63.1 فیصد گھرانوں کو خوراک کی کمی کا مسئلہ نہیں ہے

دوسری جانب عالمی ادارہِ خوراک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خوراک کی کمی کا مسئلہ خوراک کی دستیابی سے جڑا ہوا ہے۔ لوگوں کی قوتِ خرید میں مسلسل کمی انہیں غربت کی لکیر کے نیچے دھکیل رہی ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنی ضرورت کے مطابق خوراک خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے شعبہ فوڈ نیوٹریشن اینڈ ہوم سائنسز کے ڈین ڈاکٹر مسعود صادق اس تاثر کو رد کرتے ہیں کہ پاکستان کو قحط جیسی صورتحال کا سامنا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے ”یہ بحران ہمارا اپنا پیدا کردہ ہے، جب ہم چھوٹے کسان کو کوئی مراعات نہیں دے رہے اور اس کے لیے فصل اگانا ناممکن ہو گیا ہے تو وہ اپنے بچوں کو شہر مزدوری کے لیے بھیج دے گا کیونکہ وہ مہنگی کھاد، بجلی خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔ ہمارے ملک میں نوے فیصد کسان وہ ہے، جس کی زمین پانچ ایکڑ سے کم ہے بلکہ اب تو تقسیم در تقسیم ہو کر بات پانچ پانچ کنالوں تک پہنچ چکی ہے“

ڈاکٹر مسعود کہتے ہیں ”آج سے کچھ عرصہ قبل دیہات کی آبادی ستر فی صد سے زیادہ تھی، اب وہ کم ہو کر ساٹھ فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ اب دیہات میں یہ تاثر ہے کہ زراعت نہیں، نوکری کرنی ہے۔ جب فصلیں اگانے والے نہیں ہوں گے تو شہروں میں خوراک کی کمی ہوگی یا وہ مہنگی ہوگی“

پاکستان کی نیشنل فوڈ سکیورٹی کی وزارت سے منسلک ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق ”پاکستان میں خوراک کی کمی نہیں لیکن بدانتظامی کی وجہ سے ذخیرہ اندوزی کا رجحان ہے، اس لیے بڑے بڑے سرمایہ دار اور حتیٰ کہ عام لوگ بھی اشیا ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ گندم کا حالیہ بحران بھی اس کی ایک مثال ہے“

دوسری بڑی وجہ اشیائے خورد و نوش کی افغانستان اسمگلنگ بھی ہے کیونکہ افغانستان کے پاس زرمبادلہ نہیں، وہ باقی دنیا سے کچھ خرید نہیں سکتا تو اس کے صارفین کا تمام تر بوجھ بھی پاکستان پر پڑ جاتا ہے

اس سلسلے میں فوڈ سیکورٹی کا معاملہ اہم ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق فوڈ سکیورٹی کی اصطلاح وسیع ہے، جس کا عمومی مطلب یہ ہے کہ جب تمام لوگوں کو ہر وقت وافر، محفوظ اور غذائیت سے بھرپور خوراک ان کی ضروریات کے مطابق میسر بھی ہو اور وہ اسے خریدنے کی استطاعت بھی رکھتے ہوں

اب پاکستان میں مسئلہ یہ درپیش ہے کہ خوراک تو موجود ہے لیکن اس کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ گندم، چینی، چاول اور گھی ان کی قوت خرید سے باہر ہو گیا ہے۔ جو گندم کسان سے بائیس سو روپے من خریدی گئی وہ اب مارکیٹ میں دگنی یعنی پانچ ہزار روپے فی من کی قیمت میں بھی دستیاب نہیں ہے۔ جب کرنسی کی قیمت گرتی ہے تو اس کا براہِ راست اثر قیمتوں پر پڑتا ہے۔ ان حالات میں وہ طبقہ سب سے پہلے متاثر ہوتا ہے، جس کی قوتِ خرید پہلے ہی بہت سکڑ چکی ہے

پاکستان میں مہنگائی 24.5 فی صد بڑھی ہے، جو 1970ع کے بعد تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے، جبکہ غیر سرکاری ذرائع اسے چالیس فی صد بیان کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے عام لوگوں کو کھانے پینے کی چیزیں خریدنے میں بہت مشکل کا سامنا ہے اور خوراک خریدنے کے لیے قطاریں لگی ہوئی ہیں

اشیائے خورد و نوش کی قلت کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلاب بھی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی حکومت کا کردار کہیں نظر نہیں آتا۔ عالمی بینک کے مطابق گذشتہ سال آنے والے تباہ کن سیلاب کی وجہ سے پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں 2.2 فی صد کمی ہو گی، جس کا مطلب ہے کہ مزید مہنگائی ہوگی اور مزید غربت بڑھے گی

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق کہتے ہیں ’فوڈ سکیورٹی کوئی چیز نہیں، جب آپ کی جیب میں پیسے ہوں گے تو کھانا ملے گا، یعنی سرکار اگر لوگوں کو کاروبار اور روزگار کا ماحول دے گی تو لوگوں کی جیبوں میں پیسہ ہوگا اور اگر پیسہ نہیں ہوگا تو کھانا کہاں سے آئے گا“

انہوں نے کہا ”سرکار گندم کی مارکیٹ پر کنٹرول رکھتی ہے، پھر بھی گندم نہیں مل رہی۔ اس کا مطلب ہے کہ سرکار کی یہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔ سرکار کو مارکیٹ کھلی چھوڑنی پڑے گی اور خود صرف مانیٹرنگ کرنی ہوگی“

حالات اس قدر دگرگوں ہو چکے ہیں کہ کچھ حلقے بنگال کے قحط اور پاکستان کے خوراک کے حالیہ بحران میں مماثلت کی بات بھی کر رہے ہیں

واضح رہے کہ اڑھائی سو سال پہلے بنگال میں شدید قحط آیا تھا، جس میں ایک کروڑ کے قریب افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس میں الزام ایسٹ انڈیا کی پالیسیوں کو دیا گیا تھا، لوگ قحط سے مر رہے تھے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کسانوں پر عائد ٹیکسوں میں دس فی صد اضافہ کر رہی تھی۔ لوگ بھوک سے مر رہے تھے مگر کمپنی کو صرف اپنا خزانہ بھرنے کی فکر تھی۔

کسانوں کا کہنا ہے کہ موجودہ پاکستانی حکومت بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے

گذشتہ دنوں کسان اتحاد کے نمائندوں نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا ”اس بار گندم کا زیرِ کاشت رقبہ پچھلے سال سے چالیس فیصد کم ہے، جس کا مطلب ہے کہ حکومت کو ملکی ضرورت پوری کرنے لیے مزید گندم درآمد کرنی پڑے گی۔ بجلی کے ساتھ کھاد اور بیج بھی مہنگا کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کی ضرورت 64 لاکھ ٹن ہے جبکہ پیداوار 68 لاکھ ٹن ہے، پھر بھی کھاد بلیک میں فروخت ہو رہی ہے۔ بدانتظامی سے فائدہ اٹھانے والے لوگ اپنے سرمائے کو دن دگنا اور رات چوگنا کر رہے ہیں۔ جو کام کل ایسٹ انڈیا کمپنی کر رہی تھی، وہی کام آج یہ لوگ کر رہے ہیں“

سرکار کہتی ہے کہ ٹیکسوں میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے کیا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کا جب بھی کوئی نیا پلان آتا ہے، سرکار اس کا تمام تر بوجھ نچلے طبقے پر منتقل کر دیتی ہے اور مقتدر طبقے و امرا کی عیاشیاں اسی طرح برقرار رہتی ہیں

یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سرکاری خزانے سے اشرافیہ کو سالانہ 17.4 ارب ڈالر کی مراعات مل رہی ہیں۔ کوئی حکومت ان مراعات کو ختم نہیں کر رہی بلکہ ان کا تمام بوجھ غریب لوگوں پر ڈال رہی ہے۔ اگر آج ہی یہ مراعات ختم ہو جائیں تو پاکستان میں مہنگائی نصف رہ جائے اور فوڈ سکیورٹی ختم نہیں تو کم ہو جائے۔ اگر اب بھی پاکستان کی اشرافیہ اپنی مراعات سے دستبردار نہیں ہوتی تو ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل رسک رپورٹ 2023 میں پاکستان کو خبردار کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، قرضوں، تنازعات اور دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کا وجود اگلے چوبیس مہینوں میں بکھر سکتا ہے

’مشال پاکستان‘ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عامر جہانگیر ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ”بنیادی اشیائے ضرورت کی موجودگی اور انہیں خریدنے کی دسترس اگر نہیں ہوگی تو اس کا براہِ راست نتیجہ سیاسی اور سماجی عدم استحکام کی صورت میں نکلے گا۔ یہ اب نوشتہِ دیوار اس لیے بھی ہے کہ گذشتہ سال سیلاب کی وجہ سے آٹھ لاکھ ہیکٹر زرعی زمین تباہ ہو گئی، جس کا نتیجہ خوراک کی مزید کمی اور ان کی قیمتوں میں اضافے کی صورت نکلے گا“

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close