کانٹوں میں الجھی چنری

معظم شاہ

مجھے وہ دن اچھی طرح یاد تھا، جب عالیہ پیدا ہوئی تھی۔ اس کی دادی ہمارے گھر بتانے آئی تو دادی اماں نے اسے جوڑا کپڑوں کا اور پچاس روپے دیے تھے۔ وہ کچھ دیر بیٹھی اور چلی گئی۔ یہ واقعہ میرے لئے قطعی اہم نہ ہوتا، اگر میں عالیہ کے باپ الطاف کی شادی میں شرکت نہ کر چکا ہوتا

الطاف کمہار کی شادی میرے لئے کیسے یادگار بن گئی تھی؟ یہ بھی ایک کہانی ہے۔ ہوا یوں کہ جب اس کی شادی کی تاریخ رکھی گئی تو کمہاریوں کا ایک پورا ریوڑ شادی کی دعوت دینے آیا ۔ میں اس وقت تیسری جماعت میں پڑھتا تھا ۔ کمہاریوں کے اس ہجوم میں چند بنی سنوری لڑکیاں مجھے بہت اچھی لگیں۔ میں ایک ٹک انہیں دیکھتا رہا تو پھپھو نے محسوس کیا اور مجھے الگ لے جا کر سمجھایا کہ یہ تمہاری بیٹیوں جیسی ہیں۔ میرے لیے یہ لفظ ہی حیران کن تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے بڑی لڑکیاں میری بیٹی جیسی کیسے ہو سکتی ہیں؟
پھپھو نے میرے چہرے پر لکھا سوال گویا پڑھ لیا تھا ۔ کہنے لگیں ”تمام امتی ہمارے بچوں جیسے ہی ہیں، چاہے کوئی اَسی سال کا بوڑھا ہو یا ایک سال کا بچہ“، میں کچھ سمجھا کچھ نہ سمجھا اور گھر سے باہر چلا گیا ۔

الطاف کی شادی میں ہم سبھی لڑکوں نے خصوصی طور پر شوق سے شرکت کی، میرے لئے ’کمیوں‘ کی یہ پہلی شادی تھی، اس لئے میری حیرت دوچند تھی۔ اور پھر ایک واقعے کی وجہ سے یہ شادی میرے لئے بہت اہم ہو گئی۔

ہوا یوں کہ میرے رشتے کے ایک ماموں، جو ان دنوں نوجوان تھے، انہوں نے مجھے ایک جانب بلایا اور کہا ”اس کمرے میں جاؤ اور الماری میں پڑی تیل کی شیشی اٹھا کر لے آؤ“

میں خاموشی سے اندر داخل ہوا، اور بوتل اٹھا لایا، وہ بوتل لے کر کہیں چلے گئے، تھوڑی دیر بعد لوٹے اور مجھے بوتل تھمائی کہ واپس رکھ آؤ، میں نے جا کر رکھ دی۔

سیدوں کے سبھی نوجوان لڑکے کھانا کھانے کے بعد بھی گھر نہیں لوٹے بلکہ اندھیرے میں چھپ کر انتظار کرتے رہے، میں بھی تجسس کا مارا ان کے ساتھ تھا، گھر کے سب لوگ کمروں میں دبک گئے تو الطاف بھی جھومتا جھامتا دوستوں سے جان چھڑا کر دلہن والے کمرے میں گھس گیا۔ سبھی بڑے لڑکے سانس روکے چھپ کر اس کمرے کے دروازے کو گھور رہے تھے، کافی دیر گزری تو گویا ایک بھونچال آ گیا، کمرے کا دروازہ دھڑام سے کھلا۔ الطاف ٹانگیں پھیلائے، دونوں ہاتھوں کی چٹکیوں میں اپنی شلوار پکڑ کر اسے جھٹکے دے دے کر خود کو اس سردی میں ہوا دیتا عجیب قسم کا رقص کرتا برآمد ہوا اور اس کے منہ سے گالیوں کا فوارہ نکلنے لگا، مجھے ”کہڑا اے اوئے“ سمجھ آیا۔۔ جس کے بعد وہ گالیوں میں سوال کرتا تھا کہ کس نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے شدید غصہ آیا، لیکن یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سبھی لڑکے تو گھر سے ملحقہ کھیتوں میں جا کر پیٹ پکڑ کر ہنس رہے تھے

درختوں سے سوکھے پتے ایسے گرتے کہ کنویں کے احاطے کا ایک ایک چپا ان سے ڈھک جاتا، سرو ماسی، جو روزانہ قریب ایک میل کا فاصلہ طے کر کے گاؤں سے ہمارے کنویں پر کام کرنے آتی تھی، جھاڑو سے ان پتوں کی بڑی بڑی ڈھیریاں لگاتی جاتی، دوسرے دن پھر نئے پتوں سے زمین ڈھکی ہوتی۔ یہ موسم مجھے اداس کر دیتا تھا، ٹنڈ منڈ ہوتے درخت مجھے اداسی بکھیرتے محسوس ہوتے۔ آج مجھے عالیہ کی پیدائش دو باتوں پر یاد آئی تھی

آج خاندان کے بزرگ کنویں پر جمع ہو رہے تھے۔ اس اکٹھ کا مقصد یہ تھا کہ عالیہ نے اپنی منہ زور جوانی دلشاد ماموں پر نچھاور کر کے انہیں قابو کر لیا تھا اور اب وہ اس چکر میں اپنی بیگم کو طلاق دینا چاہتے تھے۔ خاندان بھر کے بزرگ اس مسئلے کا کوئی مناسب حل نکالنے کے لیے جمع ہو رہے تھے۔ گھر سے یہ خبر سن کر میں بیزار بیزار سا احاطے میں نکل آیا۔

چہار سو پھیلی خزاں سے یاد آیا کہ عالیہ بھی خزاں میں ہی پیدا ہوئی تھی۔ میں نے اسے پہلی بار دیکھا تو وہ ماں کی گود میں تھی۔ سنہرے بال، گوری چٹی رنگت اور موٹی موٹی چمکتی ہوئی شربتی آنکھوں والی یہ گول مٹول بچی مجھے بہت پیاری لگی۔ میں نے اسے اٹھایا تو میرے ساتھ چمٹ گئی۔ میں اسے لے کر احاطے میں نکل گیا، وہ میرے کاندھے سے لگے لگے سو گئی۔ عالیہ کی ماں واپس جانے لگی تو میں نے اسے ماں کی گود میں دے دیا۔
شام کا وقت تھا، میں احاطے میں کھڑا دیر تک اسے جاتے دیکھتا رہا ۔ دل پر عجیب اداسی چھا رہی تھی ۔ کچھ وجہ بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔ مجھے خیال آیا کبھی میری اپنی بھی ایک بیٹی ہو گی، پھر سوچا، کاش عالیہ جیسی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں باغیچے میں چلا گیا پتوں کی سبزی سیاہی مائل ہو رہی تھی، جانے کیوں دو آنسو میری آنکھوں سے رخساروں تک آ گئے

سارا گاؤں اس کے بارے میں باتیں کرتا تھا ۔ مجھے کبھی یقین ہی نہیں آیا کہ عالیہ کی بات ہو رہی ہے ۔ میرے لئے وہ آج بھی ننھی سی گڑیا تھی، جسے میں اٹھاتا تو میرے سینے سے چمٹ جاتی، ایسے جیسے امان میں آ گئی ہو ۔
اڑتی اڑتی بہت سی باتیں میرے کانوں میں پڑتی تھیں ۔ عالیہ کی ماں روتے ہوے دادی اماں کو بتا رہی تھی کہ کیسے اس وقت اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا، جب عالیہ بھاگتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی تو اس کے روشن چہرے پر نصیبوں کی سیاہی کی صورت سفید غلاظت لگی تھی، جسے وہ دھوتی جاتی اور روتی جاتی ۔ دادی اماں نے اسے تسلی دے کر، اللہ کی نظر میں معاف کرنے والے کا مقام بیان کیا اور اسے بہت کچھ دے کر رخصت کر دیا تھا، آخر سادات کی عزت کا سوال تھا۔۔ اس گروہ میں ملکوں اور خانوں کے لڑکوں کے ساتھ ایک ہمارے خاندان کا بھی چشم و چراغ ہر سرگرمی میں بڑھ چڑھ کر شامل ہوتا تھا، جس کا کارنامہ عالیہ کی ماں بیان کر رہی تھی ۔ وہ، جس کے نورانی چہرے کو اس وقت ناپاک کیا گیا۔۔ جب وہ ناپاکی کا شعور ہی نہیں رکھتی تھی۔۔ جوں جوں شعور پاتی گئی، انہی حرامزادوں کو انگلیوں پر نچانے لگی ۔ لیکن یہ عجیب بات تھی کہ میرے سامنے آتے ہی اس کے سر پر دوپٹہ آ جاتا اور وہ دوڑ کر میرے پاس آ جاتی، میں سر پہ ہاتھ رکھ کر اسے دعا دیتا ۔ اور وہ میرا حال پوچھ کر سر جھکائے سنبھل کر چلتی ہوئی اندر حویلی میں چلی جاتی۔ ہر عید پر میں اپنے خاندان کے بچوں کے برابر اس کی عیدی بھی الگ رکھتا تھا وہ آتی تو عیدی لے کر اتنی خوش ہوتی جیسے اسے دنیا کی کوئی بڑی نعمت مل گئی ہو

اور آج اسی عالیہ کے نصیب کا فیصلہ ہونے لگا تھا۔۔۔
چارپائیوں پر سفید پگڑیاں جم کر بیٹھ گئیں۔۔ درمیان کی میزوں پر گیس کے لیمپ پڑے رات کو دن بنا رہے تھے ۔ بات عالیہ کی بدکرداری سے ہی شروع ہوئی اور ہر ایک نے خوب دل کی بھڑاس نکالی ۔ میں عجیب اضطراب کا شکار تھا ۔ بزرگوں کے سامنے نہ بولنے کی روایت نے میری زبان جکڑ رکھی تھی ۔ جب برداشت سے باہر ہو جاتا تو میں کچھ وقت کے لئے اٹھ جاتا ۔ پھر دل بے چین ہوتا اور واپس جا بیٹھتا ۔ دلشاد ماموں مجرم بنے بیٹھے تھے ۔ میں پتا نہیں کیوں منتظر تھا کہ وہ بھی زبان کھولیں گے ۔ مردوں کے اس میدان میں اپنی مردانگی ثابت کریں گے ۔ آخر وہ عالیہ سے عشق کے دعوے دار تھے ۔ لیکن نہیں صاحب، وہ تو منہ میں گویا گھنگنیاں ڈالے بیٹھے تھے ۔

جب بہت سی پگڑیوں کے نیچے اکڑے لال بھبوکا چہرے زہر اگل چکے تو بات مسئلے کے حل کی جانب چلی، کسی نے شیدے کمہار کا نام دیا ۔ میرا دھیان شیدے کی طرف چلا گیا ۔ الٹے توے کی سی رنگت، موٹی موٹی لال سرخ آنکھیں اور چپٹی ناک کے ساتھ ابھرے ہوے نوک دار گال ہلکی سیاہ داڑھی اور بڑی بڑی اوپر کو اٹھی مونچھیں، مناسب قد کے ساتھ گھٹا ہوا جسم۔۔ یہ شیدا کمہار تھا، جس کے بارے میں کئی لوگ یقین سے کہتے تھے کہ اپنے باپ کا نہیں میدے مسلی کا بیٹا تھا ۔

شیدا لڑکپن میں گھر سے بھاگ کر کراچی چلا گیا تھا ۔ کئی سال بعد گاؤں لوٹا تو پکا بدمعاش بن چکا تھا ۔ گاؤں کے لڑکے چرس کا نشہ کرتے تھے، شیدے نے انہیں شراب کی راہ دکھائی اور مجرے کا چسکہ بھی لگا دیا ۔ ایسے حرامی کے لئے عالیہ بزرگان سادات کی طرف سے ایک انتہائی غیر متوقع تحفہ ثابت ہوتی ۔

یہی فیصلہ ہوا کہ شیدے سے بات کر کے الطاف تک عالیہ کے رشتے کا حکم پہنچا دیا جائے ۔

یہ الفاظ میرے لئے متوقع ہونے کے باوجود ایسے تھے گویا میرے وجود میں زلزلہ آ گیا ہو ۔ میں نے خود کو اٹھ کر مرکز میں جاتے دیکھا، مجھے اپنی آواز خود اجنبی لگی۔۔ ”خدا کے لئے بس کریں ۔ ایک پل کے لئے سوچیں کہ آپ کن کے وارث بن کر سفید پگڑیوں کو سر پر جمائے بیٹھے ہیں ۔ وہ معصوم تھی، اسے اس عمر میں ہمارے خون نے گندہ کیا، جب وہ کچھ نہیں جانتی تھی۔۔ اسے آپ لوگ، آپ لوگ مریض بنا چکے ہیں، وہ بے بس ہے بالکل ایسے ہی جیسے کوئی کالے یرقان یا سرطان کا مریض۔۔ اور آپ لوگ اسے شیدے جیسے شہدے کے پلے باندھ کر اور خراب کرنا چاہتے ہیں؟ یہ کیسا انتقام ہے، یہ برابر کا مجرم تو آپ کے سامنے بیٹھا ہے، یہ مرد ہوتا تو منہ سے ایک لفظ تو نکالتا۔۔“

”بند کر بکواس۔۔۔۔۔۔۔“ یہ دلشاد ماموں تھے، ”اتنا مرد ہے تو تو نکاح کر لے نا اس گشتی کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“

مجھ پر اس لمحے انکشاف ہوا کہ بیوی کو طلاق وہ کسی اور وجہ سے دے رہے ہیں، عالیہ کی حیثیت تو ان کی نظر میں بھی ایک رکھیل سے زیادہ نہیں ۔

میں ابھی کلینک سے واپس آیا تھا اور لباس بدل کر ٹیرس پر آن بیٹھا تھا ۔ آج کا دن بہت اہم تھا میرے لئے، کیونکہ آج ہی کے دن میں نے بغاوت کا اعلان کیا تھا، حق کی آواز اٹھائی تھی۔۔ سارے خاندان سے ٹکر مول لی تھی اور بقول دلشاد ماموں، اپنے منہ پر کالک مل لی تھی۔۔ میرے سامنے چند لمحوں میں وہ سارے مناظر گھوم گئے تھے، جو اس دن کی شروعات سے شروع ہوے تھے، ہمیشہ کی طرح۔۔

وہ اسی روشن مسکراہٹ کے ساتھ کافی کے دو کپ اٹھائے میرے پاس آ گئی ۔ میں ایک ٹک اسے دیکھتا رہا ۔ اس. کے چہرے پر حیا کی لالی تھی ۔
میں نے اس کا علاج خود کیا تھا ۔ وہ ایک آئیڈیل بیوی ایک بہت اچھی اور ذمے دار ماں ثابت ہوئی تھی ۔ مجھے اس پر بے اختیار پیار آیا، میں نے اس سے چائے کا کپ لیا اور اسے اپنے بازو کے گھیرے میں سمیٹ لیا۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close