دنیا کے خاتمے کا وقت بتانے والی گھڑی 90 سیکنڈ آگے کر دی گئی۔۔ یہ گھڑی کس نے بنائی تھی؟

ویب ڈیسک

سائنسدانوں نے وہ گھڑی آگے کر دی ہے جس کا کام دنیا کے خاتمے کا وقت بتانا ہے۔

اس گھڑی کے منتظم ادارے ’بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس‘ کے مطابق یہ گھڑی دن کے اختتام کے 90 سیکنڈ قریب کر دی گئی ہے

یہ گھڑی سنہ 1947ع میں شروع کی گئی تھی اور اس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ ہماری دنیا انسانوں کے اقدامات کی وجہ سے خاتمے کے کس قدر قریب پہنچ چکی ہے

اسے ایٹمی جنگوں کے خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع کیا گیا تھا

جب سائنسدان حالیہ کچھ مہینوں میں انسانیت کو لاحق خطرات کا جائزہ لیتے ہیں تو اس گھڑی کو آگے یا پیچھے کر دیا جاتا ہے

فی الوقت یہ نصف شب سے صرف 90 سیکنڈ دور ہے، جبکہ نصف شب کا مطلب انسانیت کی اپنے ہی ہاتھوں تباہی ہے

گھڑی کو آگے یا پیچھے کرنے کا فیصلہ بلیٹن آف اٹامک سائنٹسٹس کا بورڈ کرتا ہے، جس میں 13 نوبیل انعام یافتہ شخصیات شامل ہیں

فی الحال اس گھڑی کو آگے کرنے کا فیصلہ فروری 2022 سے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ ہے

بورڈ نے کہا کہ روس، یوکرین تنازعے نے اقوام کے درمیان تعلقات کے متعلق گہرے سوالات کو جنم دیا ہے جبکہ اس کی وجہ سے بین الاقوامی رویوں میں تنزلی بھی دیکھنے میں آئی ہے

ادارے کا کہنا ہے ’روس کی جانب سے ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی ڈھکی چھپی دھمکیاں دنیا کے لیے یہ نشاندہی ہیں کہ یہ تنازع حادثاتی طور پر، بالا ارادہ یا پھر غلط حساب کتاب کی وجہ سے بھی بڑھ سکتا ہے اور یہ ایک بہت خوفناک خطرہ ہے۔‘

دیگر خطرات میں موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی خطرے اور تباہ کن ٹیکنالوجیز شامل ہیں

سائنسدانوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’جنگ کے خطرات صرف ایٹمی جنگ کے خطرے میں اضافے تک محدود نہیں بلکہ ان سے موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی عالمی کوششوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔‘

وہ ممالک جو ماضی میں روسی تیل اور گیس پر منحصر تھے وہ اب دوسرے سپلائرز کی جانب راغب ہو رہے ہیں جو ماحول دوست ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی۔

اور جبکہ دنیا کووڈ 19 کی عالمی وبا کے اثرات سے اب بھی گزر رہی ہے تو بورڈ کا کہنا ہے کہ عالمی رہنماؤں کو حیاتیاتی خطرات کی نشاندہی کرنی ہو گی اور ان سے نمٹنا ہو گا، پھر چاہے وہ قدرتی طور پر پیدا ہوں، حادثاتی طور پر، یا دانستہ طور پر پیدا کیے جائیں۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ عالمی وبا اب وہ خطرہ نہیں جو صدی میں ایک مرتبہ سامنے آئے

واضح رہے کہ سنہ 2020 میں گھڑی کی سوئیوں کو نصف شب سے 100 سیکنڈ قریب کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سنہ 2021 اور 2022 میں یہ سوئیاں اپنی جگہ پر ہی رہی تھیں

یہ گھڑی نصف شب سے سب سے زیادہ دور صرف ایک مرتبہ رہی ہے جب سرد جنگ کے اختتام پر اسے نصف شب سے 17 منٹ پیچھے دھکیل دیا گیا تھا

دنیا کے خاتمے کا وقت بتانے والی گھڑی

موت اور اس دنیا کا خاتمہ انسانوں کے لیے سب سے بڑا معما ہے۔ یہ مذہب، فلسفے اور سائنس کے اہم ترین موضوعات میں بھی شامل ہے

کسی بڑی تباہی کے بعد دنیا کے خاتمے سے متعلق تصورات پر مبنی ادب کو ’اپوکلپس‘ کے عنوان سے الگ زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ اس موضوع پر بے شمار کہانیاں لکھی گئی ہیں اور ان میں سے کتنی ہی کہانیوں پر فلمیں بھی بن چکی ہیں

کبھی کسی قدیم تہذِب کے آثار کی دریافت یا سال کے آغاز پر بحی دنیا کے خاتمے یا قیامت سے متعلق نشانیوں اور پیش گوئیوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ تاہم 75 برس قبل سائنسدانوں نے دنیا کے خاتمے کا وقت بتانے والی ’دنیا کے خاتمے کی گھڑی‘ بنائی تھی، جس میں ہرسال وقت کا تعین کردیا جاتا ہے کہ انسانوں کے پاس کتنی مہلت رہ گئی ہے

لیکن یہ گھڑی کیا واقعی قیامت یا دنیا کے خاتمے کا وقت بتاتی ہے؟ اور کیا اس میں ’وقت‘ سے مراد وہی ہے جو ہم عام معنوں طور پرسمجھتے ہیں؟ اس کے جواب کے لیے اس ’قیامت کی گھڑی‘ کا پس منظر جاننا ضروری ہے

’قیامت کی گھڑی‘ کیا ہے؟

’ڈومز ڈے کلاک‘ یا قیامت کی گھڑی بنیادی طور پر سائنس دانوں کا تیار کیا گیا ایسا ٹائم پیس ہے جس میں دنیا کے خاتمے کا وقت متعین کیا گیا ہے

یہ ایک علامتی گھڑی ہے۔ اس گھڑی میں خاتمے کے وقت کا تعین کرنے کے لیے دنیا کے اندر جاری سیاسی تنازعات، جنگوں، خطرناک ہتھیاروں کی موجودگی اور ان سے پھیلنے والی ممکنہ تباہی، ٹیکنالوجی، موسمیاتی تبدیلیوں، وباؤں اور دیگر عوامل کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے

گھڑی میں مڈ نائٹ یا نصف شب کو خاتمے کا وقت قرار دیا گیا ہے اور اس کی سوئیاں ایک خاص مدت میں دنیا کو درپیش خطرات کے حساب سے 12 بجے یا نصف شب کے قریب یا دور کی جاتی رہتی ہیں

وقت کا تعین کیسے ہوتا ہے؟

یہ گھڑی شکاگو میں قائم ہونےو الی ’بلیٹن آف دی اٹامک سائنٹسٹس‘ نامی تنظیم نے تیار کی تھی اور یہ تنظیم اس گھڑی میں وقت کا تعین کرتی ہے۔ بلیٹن کی ویب سائٹ پر گھڑی کا ’وقت‘ بھی دکھایا جاتا ہے

اس گھڑی میں وقت کا تعین ایک بورڈ کرتا ہے، جس میں تیرہ نوبیل انعام یافتہ سائنسدانوں سمیت نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور موسمیاتی سائنس کے ماہرین شامل ہیں

سائنسدانوں کا یہ بورڈ طے کرتا ہے کہ ہر سال اس گھڑی میں وقت کا تعین کس طرح کرنا ہے اور ان کے اندازے کے مطابق دنیا اپنے ’خاتمے‘ کے کتنے قریب ہے

یہ گھڑی 1947 میں سائنس دانوں کے ایک گروپ نے بنائی تھی جس میں البرٹ آئن سٹائن سمیت امریکہ کے مین ہٹن پراجیکٹ میں بھی شریک شکاگو کے ایٹمی سائنس دان شامل تھے

مین ہٹن پراجیکٹ نے دنیا کا پہلا ایٹم بم تیار کیا جسے امریکہ نے دوسری عالمی جنگ میں استعمال کیا تھا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close