قائد اعظم کے والد پونجا جناح، جن کی زندگی نشیب و فراز میں گزری

سجاد اظہر

ہم یہ تو جانتے ہیں کہ قائداعظم کے والد کا نام پونجا جناح تھا تاہم ان کے حالاتِ زندگی کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ان کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے

رضوان احمد کی کتاب ’پونجا جناح‘ جو 1979 میں کراچی سے شائع ہوئی تھی اور اس کا دیباچہ قائد اعظم کی بہن شیریں جناح نے لکھا تھا، میں پونجا جناح کے بارے میں کافی اہم معلومات موجود ہیں، جن کے مطابق قائد اعظم کا خاندان اسماعیلی تھا اور وہ گجرات کاٹھیا واڑ سے تعلق رکھتے تھے

پونجا جناح کے والد پونجا میگھ جی کاٹھیاواڑ سے کراچی آئے

آغا خان اوّل 1840 میں ایران سے منتقل ہو کر بلوچستان کے راستے سندھ آئے تھے۔ ان کے ہمراہ ایک ہزار کے قریب لوگ تھے جن میں ان کے عزیز و اقارب اور معاونین بھی شامل تھے

اس زمانے میں کراچی کی مجموعی آبادی 14 ہزار تھی، جس میں مسلمانوں کی آبادی پانچ ہزار کے قریب تھی

پونجا میگھ جی کاٹھیاواڑ کے رہنے والے تھے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ آغا خان ایران سے کراچی منتقل ہو گئے ہیں تو وہ بھی 1861 میں کراچی آ گئے، جس کی ایک وجہ کاٹھیا واڑ میں پڑنے والا قحط بھی تھا

کراچی میں آکر پونجا میگھ جی نے کاروبار شروع کیا، جو جلد ہی ’والجی پونجا بھائی‘ نامی فرم کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ فرم مچھلی، گوند اور چمڑے کا کاروبار کرتی تھی جو بعد میں کمپنی بن گئی

پونجا میگھ جی کے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام جینا بھائی تھا، جس نے چرچ مشن سکول، جو کراچی کا پہلا انگریزی سکول تھا، میں تعلیم حاصل کی اور پھر اسی سکول میں استاد بن گئے

شہر میں ان کی دوہری عزت تھی۔ ایک تو ان کا تعلق شہر کے معروف کاروباری خاندان سے تھا، دوسرا وہ پڑھے لکھے بھی تھے، جس کی وجہ سے جب جینا پونجا کا رشتہ آغا خان کے وزیر جمعہ موسیٰ کے گھر سے مانگا گیا تو انہوں نے ایک لمحے میں اپنی بیٹی شیریں کے لیے ہاں کہہ دی

جینا سے جناح تک کا سفر

پونجا میگھ جی کے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام تو پونجا بھائی تھا، تاہم ان کے چھوٹے قد کی وجہ سے انہیں جینا کہا جاتا تھا۔ گجراتی میں جینا دبلے پتلے کو کہتے ہیں

جینا پونجا کے سسرال والے فارسی دان تھے۔ انہوں نے اس کو عربی کا لفظ ’جناح‘ سمجھنا شروع کر دیا، جس کے معنی بازو کے ہیں۔ اس طرح وہ جینا پونجا سے پونجا جناح کہلائے جانے لگے

کراچی انگریزوں کی آمد سے قبل مٹی کی اونچی اونچی فصیلوں کے اندر آباد تھا۔ یہ فصیل اتنی چوڑی تھی کہ اس پر دو بیل گاڑیاں چلائی جا سکتی تھیں

اس فصیل میں دو دروازے تھے ایک دروازہ ’میٹھا در‘ اور ’دوسرا کھارا در‘ کہلاتا تھا۔ رات کو قزاقوں سے بچنے کے لیے فصیلوں کے دروازے بند کر دیے جاتے تھے

انگریزوں نے آکر فصیلیں توڑ دیں اور ان کے باہر دو سڑکیں بنائیں، جن میں ایک چھاگلہ گلی بھی تھی۔ شادی کے بعد پونجا جناح نے یہیں مکان کرائے پر لے کر رہنا شروع کر دیا

یہاں قریب ہی ایک تاجر نور محمد لالن رہتے تھے، جن کے پونجا جناح سے دوستانہ مراسم تھے۔ جب کراچی میں علی گڑھ طرز کے تعلیمی ادارے سندھ مدرستہ الاسلام کے قیام کی تحریک چلی تو اس کے لیے جن دو ممتاز مسلمانوں نے مالی مدد کی ان میں پونجا جناح اور نور محمد لالن بھی شامل تھے

چھاگلہ گلی والے اسی مکان میں پونجا جناح کے گھر 25 دسمبر 1876 کو ایک بچہ پیدا ہوا، جس کا نام اس کے ماموں قاسم موسیٰ نے محمد علی رکھا، جس میں بعد میں جناح بھائی کا لاحقہ بھی شامل ہو گیا

پونجا جناح کے گھر شیریں سے آٹھ بچے پیدا ہوئے جن میں محمد علی، رحمت بی، بندہ علی، مریم بی، احمد علی، شیریں بی، فاطمہ بی اور ایک بچہ شامل تھا، جس کا انتقال ہو گیا تھا اور اس کا نام رکھا نہیں جا سکا تھا جبکہ بعد میں بچے کی والدہ بھی وفات پا گئیں

کاروبار میں عروج اور زوال

پونجا جناح نے معلمی چھوڑ کر اپنا خاندانی کاروبار سنبھال لیا کیونکہ تیزی سے پھیلتے ہوئے کاروبار کو ان کی ضرورت تھی۔ پونجا جناح جلد ہی برطانوی کمپنیوں کو اپنا مال برآمد کرنے لگے، جس کے لیے انہوں نے بمبئی اور دیگر ساحلی شہروں میں بھی اپنی کمپنی کے دفاتر قائم کر لیے

ان کے پاس شکار اور تجارت کی غرض سے کشتیوں کا ایک بیڑہ بھی تھا

محمد علی جناح ابھی چوتھی جماعت میں پڑھتے تھے کہ ان کے والد کو کاروبار میں خسارہ ہوا۔ اس دور میں پونجا جناح پر کئی مالی مقدمات درج ہوئے۔ وہ ان میں بری تو ہو گئے لیکن ان کی کمپنی دیوالیہ قرار دے دی گئی، جس کی وجہ سے محمد علی جناح کو وقتی طور پر اپنی تعلیم ترک کرنا پڑی اور وہ اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگے۔ والد محمد علی کو گھر پر پڑھاتے تھے

جناح کی لندن روانگی سے پہلے ماں کی شرط

اعلیٰ تعلیم کے لیے جب پونجا جناح نے اپنے بیٹے کو ولایت بھیجنے کا فیصلہ کیا تو ان کی والدہ نے شرط رکھ دی کہ پہلے محمد کی شادی ہو گی تو وہ ولایت جا سکیں گے، کیونکہ انہیں ایک تو اندیشہ تھا کہ ولایت سے وہ کوئی گوری ساتھ نہ لے آئیں اور دوسرا والدہ کو یہ شبہ بھی تھا کہ جب وہ ولایت سے آئے تو پتہ نہیں وہ زندہ بھی ہوں گی یا نہیں

اس وقت جناح کی عمر سولہ سال کے لگ بھگ تھی اور ان کی دلہن کی عمر نو، دس سال تھی جو بمبئی کے دولت مند تاجر لیرا کھیم جی کی بیٹی تھیں

لیرا کھیم جی برطانوی کمپنیوں کو ’اون‘ برآمد کیا کرتے تھے۔ یہ شادی دھوم دھام سے ہوئی۔ شادی کے بعد جناح ایک سال کراچی میں ہی رہے، سکول سے فراغت کے بعد وہ جنوری 1893 میں لندن روانہ ہو گئے

جھرک میں مختصر قیام اور بمبئی ہجرت

محمد علی کو گئے ابھی دو سال ہی ہوئے تھے کہ کراچی میں وبا پھیل گئی۔ ایک تو پونجا جناح کے کاروبار کی تباہی اور اوپر سے وبا کی وجہ سے در بدری، پورا خاندان کراچی سے نکل کر جھرک کے مقام پر ایک ٹیلے پر گوشہ نشین ہو گیا۔

یہیں آغا خان کا خاندان بھی ایک ٹیکری پر رہائش پذیر ہو گیا تھا، جہاں آغا خان سوم پیدا ہوئے

جب وبا کے اثرات کم ہوئے تو جناح اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ کراچی جا کر رانجی پیٹھا بلڈنگ میں مقیم ہو گئے۔ چند ماہ بعد ہی انہیں ان کے برادر نسبتی قاسم موسیٰ نے بمبئی بلوا لیا جہاں وہ اپنے خاندان کے ہمراہ خواجہ محلے میں رہائش پذیر ہوئے۔ 1896 میں محمد علی جناح بھی بیرسٹر بن کر لوٹے، بمبئی ہائی کورٹ میں وکالت شروع کر دی اور بمبئی کے اپالو ہوٹل میں رہنے لگے

اسی سال بمبئی میں طاعون پھیل گیا اور جناح کی دلہن انتقال کر گئیں۔ ادھر کراچی میں پونجا جناح پر ایک مقدمہ ابھی باقی تھا جس میں محمد علی کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔ یہ مقدمہ ایک برطانوی کمپنی نے قائم کیا ہوا تھا

پونجا جناح جب اپنے بیرسٹر بیٹے کے ہمراہ کراچی کی عدالت میں پیش ہوئے تو گویا نوجوان بیرسٹر نے اپنے دلائل سے مقدمے کا پانسا پلٹ دیا

ہزاروں روپے ہرجانے کا فیصلہ چند سو روپوں کے جرمانے کی صورت میں نکلا۔ اس طرح پونجا جناح کی جان تمام مقدمات سے چھوٹ گئی

ادھر بمبئی میں محمد علی جناح کو پہلی بڑی کامیابی اس صورت میں ملی کہ وہ بمبئی پریذیڈنسی کے مجسٹریٹ بن گئے

یہ پونجا جناح کے لیے بڑی مسرت کا موقع تھا۔ اسی سال پونجا جناح نے اپنی بڑی بیٹی رحمت بی کا رشتہ کلکتہ کے مشہور تاجر قاسم جمال سے کر دیا۔ 1902 میں پونجا جناح کی طبیعت ناساز رہنے لگی جس پر انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ان کی دوسری بیٹی مریم بی کا رشتہ بھی ان کی آنکھوں کے سامنے ہی کر دیا جائے

ان کی شادی بمبئی کے مشہور تاجر عابدین بھائی سے ہوئی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ہی پونجا جناح 17 اپریل 1902 کو انتقال کر گئے۔

بشکریہ: انڈپینڈنٹ اردو
(نوٹ: کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں پیش کی گئی رائے مصنف/ مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے سنگت میگ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close