خالی جھولی

ڈاکٹر نجمہ محمود

گھنٹے کی آواز کی گونج اور کلاس روم سے جلدی جلدی نکلتی ہوئی لڑکیوں کی ملی جُلی آوازوں کے شور میں جب وہ باہر نکلی تو ایک بج رہا تھا اور اُس کے ذہن میں اپنے ننھے بچے ببلو کی تصویر ابھر رہی تھی۔ آج اس نے کچھ زیادہ ہی اچھا پڑھایا تھا۔۔ اس بات سے خوش خوش اور اپنے بچے سے پانچ گھنٹے کی جدائی کے خیال سے اُداس اُداس وہ اسٹاف روم میں گپ کرنے کے بجائے سیدھی گیٹ کی طرف چل دی

ببلو کھانا کھا کر سو چکا ہوگا اور اب پانچ بجے اٹھے گا۔ اُس کو مجھے دیکھے ہوئے پورے نو گھنٹے گزر چکے ہونگے اور پھر مجھے تین سے چھ بجے تک امتحان کی ڈیوٹی کرنے پھر آنا ہے۔ وہ چکرا گئی۔

”رکشا تیز کرو بھئی“ وہ بوکھلائی ہوئی سی بولی۔۔۔ ببلو سو گیا ہوگا۔۔۔ یقیناً سو گیا ہوگا۔۔۔۔ اور شاہد میرے منتظر ہونگے۔

”بی بی اس سے بھی تیز چلاؤں گا تو ٹکر ہو جائے گی۔۔“ رکشے والے نے نسبتاً شرافت سے کہا

راستہ میں اس نے رکشہ رکوایا ”یہ پیسے اس بچے کو دے دو“ بچے نے جھپٹ کر سکہ اس کے ہاتھ سے تقریباً چھین لیا

”بےچارہ۔۔۔۔۔“ کسی بچے کو بھیک مانگتے دیکھ کر وہ نہ جانے کیوں سہم جاتی تھی ، ”بیٹے کیا نام ہے تمہارا؟“

”منگل۔۔۔ پیسے مانگتا۔۔۔۔ پیٹ کھالی ہے“ اس نے قمیض اٹھا کر پیٹ دکھایا اور اس کے پیر چھونے لگا ۔ اُس نے بوکھلا کر اپنے پیر ہٹا لیے۔۔۔

”مائی او مائی۔۔۔ کھانا دے دے۔۔۔ بھوکے ہیں۔۔۔ مائی او مائی او۔۔۔۔۔۔“

رکشہ والے نے جھنجھلا کر رکشہ چلا دیا ۔ لیکن وہ بچّہ رکشے کو پیچھے سے پکڑے ہوئے دوڑ رہا تھا ۔ اُس نے رکشا رکوایا اور ایک دوکان سے بسکٹ خریدے اور بنڈل اُسے تھما دیا ۔ جسے پا کر وہ سرپٹ بھاگا، جیسے وہ بسکٹ کوئی اس سے چھین لے گا

ببلو اب سو گیا ہوگا۔۔۔۔۔ یقیناً سو گیا ہوگا۔ اس نے بسکٹ کا ایک پیکٹ ببلو کے لئے بھی لیا اور۔۔۔۔ کاش وہ ابھی سویا نہ ہو۔۔۔۔

رکشا والا کچھ بڑبڑا رہا تھا

”کیا کہہ رہے ہو بھئی۔۔۔۔“

وہ تیزی سے رکشہ چلاتے ہوئے بولا ”بی بی اب یہ تم کو روز یونہی ملے گا۔۔۔“ وہ سنی اَن سنی کر گئی

ننھا ببلو یقیناً بہت مظلوم ہے ۔ شکر ہے کہ اسے آیا اچھی ملی ہے کتنا پیار کرتی ہے وہ اُسے، شاید مجھ سے بھی زیادہ۔۔۔ ٹہلاتی ہے، کھلاتی پلاتی ہے، نہلاتی ہے، سلاتی ہے۔۔۔ لگتا ہے جیسے وہی اس کی ماں ہو تو پھر میں اُس کی کون ہوں؟ کیا اُسے جنم دے کر میری ذمہ داری ختم ہو گئی ہے۔ گویا ایک بوجھ تھا جو اُتر گیا؟ ہاں لطیفن ببلو کو اپنے گھر بھی لے جاتی ہے، ابھی اُسی دن لے گئی تھی تو بہت دیر بعد لائی تھی۔۔ اس وقت تو میں نے بھی سوچا تھا کہ چلو اچھا ہے میں بھی لکچر کی تیاری کر لوں گی۔۔ لیکن۔۔۔۔ بھئی یہ غلط ہے۔ اب میں اس سے کہہ دوں گی کہ ببلو کو جلدی لایا کرے۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جلدی لائے بھی تو کس لئے، میں تو اکثر و بیشتر گھر سے باہر رہتی ہوں۔۔ شاہد اپنے ڈپارٹمنٹ چلے جاتے ہیں یا گھر پر بھی ہوتے ہیں تو بھی بچے کی دیکھ بھال میں نہ جانے کیوں ایک روایتی قسم کی شرم محسوس کرتے ہیں۔۔ ہاں اب اُس سے ضرور کہوں گی۔۔ کہوں گی کہ۔۔۔۔ لیکن بھئی۔۔ سچ مچ میرا سر پھر گیا ہے۔ میں بلاوجہ شک میں پڑ کر خود کو اذیت میں ڈال رہی ہوں۔۔۔ یہ میرا وہم ہے۔۔ میری عدم موجودگی میں اگر وہ ببلو کا اتنا خیال نہ کرے تو نہ جانے بےچارے بچے کا کیا حال ہو۔۔ مانوس بھی کتنا ہو گیا ہے وہ اُس سے۔۔ میری بھی پرواہ نہیں کرنا ہے۔۔ بےچارہ میرا ننھا سا بچہ۔۔ اس کا دل ٹکڑوں میں بٹنے سا لگا۔۔۔

”رکشے والے جلدی چلاؤ بھئی۔۔۔“

”بی بی اس سے بھی تیز چلاؤں۔۔۔۔۔؟“

”ہاں بہت تیز چلاؤ۔۔۔۔ میرا بچہ گھر پر اکیلا ہے۔۔“ لیکن آیا تو ہوگی۔۔۔ شاہد بھی ہوں گے۔۔۔ ہاں اُس دن نہ جانے کیوں شاہد کہہ رہے تھے کہ ببلو روز بروز دُبلا ہوتا چلا جا رہا ہے۔۔۔ واقعی دُبلا تو بہت ہو رہا ہے۔۔۔ خیر میری چھٹیاں قریب ہیں خوب اچھی طرح دیکھ بھال کروں گی ۔ اُسے ہر وقت اپنے ہی پاس رکھوں گی۔۔۔ پر ایک بات سمجھ میں نہیں آتی لطیفن یہ کیوں نہیں چاہتی کہ ببلو میرے پاس زیادہ رہے یا مجھ سے مانوس ہو جب بھی میری گود میں ہوتا ہے فوراً آکر لے لیتی ہے ….. ”آؤ بھیا چھوڑو امّاں کا پیچھا ۔ جائے دیو انہیں پڑھے لکھے کھاتِن۔۔“ یا پھر کہے گی ”لاؤ دیو ہمکا…“ اور ببلو بھی تو میری گود چھوڑ کر اُس کے پاس چلا جاتا ہے…… آخر کیوں….. ماں ہو کر بھی میں نہیں لگتی….. سب کہتے ہیں ”بچہ لطیفن پر بہت ہِلا ہوا ہے، ماں کو پوچھتا تک نہیں…..“ اونھ بھئی۔۔۔ میں کن بے کار باتوں میں الجھ گئی۔۔ اے بھئی یہی کیا کم ہے کہ وہ بچے کا اتنا زیادہ خیال رکھتی ہے۔ اور پھر خود بھی کتنی صاف ستھری رہتی ہے اور بچے کو بھی صاف رکھتی ہے۔۔ اپنے گھر بھی لے جاتی ہے تو اس کے کپڑے بھی لے جاتی ہے، کہتی ہے ”گھر پر کھیلتے کھیلتے گندا ہو جاتا ہے تو میں اسے نہلا دُھلا کر لاتی ہوں ورنہ رستہ میں لوگ دیکھ کر کیا کہیں گے کہ شاہد صاحب کا بچہ اتنا گندا رہتا ہے“ واقعی اگر لطیفن جیسی آیا نہ ملتی تو سروس کرنا میرے بس میں نہ تھا ۔ میں کتنی بدھو ہوں جو اتنی محبت کرنے والی ، تمیز دار عورت کے سلسلے میں ایسی باتیں سوچتی ہوں۔۔۔ سوچ کے دھارے رُکے تو سامنے گھر کا دروازہ تھا۔

شاہد خاصے بوکھلائے ہوئے سے برآمدے میں بیٹھے تھے، بولے ”لطیفن کو گئے ہوئے پورے چار گھنٹے ہو چکے ہیں پتہ نہیں کہاں لے جاتی ہے۔۔۔ بھئی یہ عورت۔۔۔۔۔۔۔۔“

اور وہ بُری طرح گھبرا گئی ”یہ تو اس نے روز کا ہی دستور بنا لیا ہے۔۔۔۔ اچھا میں ابھی آئی۔۔“ یہ کہتی ہوئی وہ جلدی سے باہر آئی اور لطیفن کے گھر کا رُخ کیا، جو خاصی دوری پر تھا ۔ وہاں پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ وہ وہاں نہیں ہے، اُس کے گھر والے بےشک کافی گھبرائے ہوئے معلوم ہو رہے تھے۔۔۔۔ اور جب وہ وہاں سے نکلی تو۔۔۔۔۔ اُسے سمتوں کا اندازہ ہی نہ رہا۔۔۔۔۔۔ نہ جانے کدھر جا رہی تھی۔۔۔۔ خون اُس کی رگوں میں جم سا رہا تھا۔ سڑک پر بھاگتی رہی نہ جانے کتنی دیر۔۔۔۔ رکشا لینے کا بھی اُسے ہوش نہ تھا

اور ایک جگہ وہ ٹھٹک سی گئی۔۔ سامنے ایک بچہ پھٹے ہوئے میلے چکّٹ کپڑے پہنے ہاتھ میں بڑا سا پیالہ لیے دوڑ رہا تھا ہر راہ گیر کے پیچھے۔۔۔
”اے بابو پیسہ دے دے نا۔۔۔ دو دن کے بھوکے ہیں۔۔۔۔۔ اے بابو۔۔۔۔۔“ وہ ایک صاحب کے پیچھے دوڑ رہا تھا ۔ اس کا چہرہ دھول میں اَٹا ہوا تھا، اس لیے اُسے پہچاننا ذرا مشکل تھا ۔ لیکن اتنا زیادہ مشکل بھی نہ تھا ۔ اُس کے ساتھ ایک عورت بھی تھی جس کے ہاتھ میں بھی ایک پیالہ تھا اور ہر راہ گیر کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتی تھی۔ اس کے پیالے میں چند سکّے تھے اور بچے کے پیالے میں بھی۔۔۔۔۔ ”مائی۔۔۔۔ او مائی۔۔۔۔۔“ وہ اس کی طرف پلٹا اور اس کے پیر چھونے لگا وہ کانپ گئی۔۔۔۔۔۔

اور پھر اس نے خود پر قابو پایا، بڑے پُرسکون انداز میں آگے بڑھی۔۔ دس کا سکہ اُس بچے کے پیالے میں ڈال دیا۔۔ اس لیے کہ اب اس کے پاس اُس کو دینے کے لئے یہی سکّہ تھا۔۔ اور۔۔۔ جھولی خالی تھی ….!

یہ بچہ اس کا اپنا ببلو تھا۔۔۔۔ اور لطیفن وہاں سے غائب ہو چکی تھی!

اور روٹھا روٹھا سا ننھا ببلو بھیک کا پیالہ لئے ہوئے ”مائی او مائی“ کہتا ہوا بھاگ گیا۔۔ اور نہ جانے کدھر بھیڑ میں گم ہو گیا ۔۔۔۔۔!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close