MY SUN SETS TO RISE AGAIN

محمد خان داؤد

وہ کتنے ہیں؟
یہ سوال میں اپنے آپ سے نہیں پر سندھ سے پوچھ رہا ہوں
وہ کتنے ہیں؟
یہ سوال میں سندھ سے بھی نہیں ان لوگوں سے پوچھ رہا ہوں جن کے لیے فقیر شاعر جالب نے کہا تھا کہ ،،وہ جو دس کروڑ ہیں!،،
وہ کتنے ہیں؟
یہ سوال میں ان دس کروڑ لوگوں سے بھی نہیں پو چھ رہا پر ان اخبا ری مالکان سے پوچھ رہا ہوں کہ وہ اب بھی ڈرتے ہیں کہ زردا ری ان کے اشتہیار بند کرا دے گا اور وہ روڈوں پر آجائیں گے!
وہ کتنے ہیں؟
یہ سوال میں ان اخباری مالکان سے بھی نہیں پوچھ رہا میں یہ سوال ان اخبا ری ایڈٹیران صاحبان سے پوچھ رہا ہوں جو جب تک اخبارات کے دفاتر میں موجود رہتے ہیں جب تک کاپی تیار ہوکر اخباری دفاتر سے پریس چلی نہیں جا تی
وہ کتنے ہیں؟

یہ سوال میں ان قوم پرست لیڈروں سے پو چھ رہا ہوں جو سندھ کے حقوق کی بات کرتے ہیں پر جب بحریہ کی بدمعاشی کی بات آتی ہے یا جب ملک ریاض کی قبضہ گیریت کی بات آتی ہے تو وہ اندھے،بہرے اور گونگے بن جاتے ہیں!
وہ کتنے ہیں؟
یہ سوال میں ملیر کے منتخب نمائیندوں سے پوچھ رہا ہوں جو ملیر کا ووٹ لیتے ہیں اور ملیر کا اعتبار کھو تے ہیں!
ملیر کے منتخب نمائیندے اس کھیل سے بلکل باہر ہیں
نہیں معلوم وہ لکیر کی کس طرف ہیں؟
اُس طرف جہاں بہت تھوڑے سے لوگ ہیں اور بہت بے چین ہیں.
یا اُس طرف جہاں بہت سے پیئسے ہیں،بہت سے لوگ ہیں اور وہ پئیسے اور لوگوں کی طاقت سے ملیر کی زمیں پر قبضہ کر گئے ہیں
یا کسی بھی طرف نہیں!
پر کنفیوشس نے کہا تھا طرفیں بس دو ہی ہو تی ہیں
،،اِس طرف
یا اُس طرف!
تیسری کوئی طرف نہیں ہو تی
انسان یا اِس طرف ہوتا ہے
یا اُس طرف
اور جو کسی بھی طرف نہیں ہوتا وہ یقینا اُس طرف ہوتا ہے جہاں طاقت کا توازن ہوتا ہے!،،
تو ملیر کے منتخب نمائیندے کس طرف ہیں؟یہ اُس طرف تو بلکل بھی نہیں جہاں بس کچھ لوگ ہیں اور وہ ان دس کروڑ لوگوں کو بتانے،سب کچھ دکھانے اور سب کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں اس لیے وہ کئی سالوں سے روڈوں پر ہیں،ملیر کے رستوں سے لیکر کراچی کے پریس کلب کے دروں پر،بحریہ کے خوبصورت مضبوط دروازے سے لیکر دو تلوار کے سائے تک ان بہت تھوڑے سے لوگوں کے پیروں کے نقوش موجود ہیں کیوں کہ یہ بحریہ کی قبضہ گیریت،بدمعاشی اور دادادلیری کو برداشت نہیں کر سکتے،یہ دھرتی کا لُٹنا برداشت نہیں کر سکتے یہ اپنے پیروں سے دھرتی کا کھسک جانا دیکھ رہے ہیں اس لیے یہ روڈوں پر ہیں پر ملیر سے منتخب نمائیندے ان تھوڑے سے لوگوں کے ساتھ نہیں،میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ ملیر کے منتخب نمائیندے ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن کے ساتھ ہیں پر میں کنفیوشس کی یہ بات تو ضرور محسوس کر سکتا ہوں کہ اگر یہ کسی کے ساتھ نہیں تو یہ یقینا اس طرف ہیں جہاں طاقت کا توازن ہے اور طاقت کا توازن وہیں ہیں جہاں بحریہ ٹاؤں ہے اور ملک ریاض!
وہ کتنے ہیں؟
اس سوال کا جواب شاید کوئی نہ دے پائے پر اس سوال کا جواب بہت آسان ہیں ملیر میں لاکھوں لوگ بستے ہیں پر آپ جائیں ملیر کے ان لوگوں کے پیر دیکھیں جن کے پیر دھول آلود ہوں اور ان پیروں کو گنے جتنے پیر دھول آلود ہونگے وہ بس اتنے ہی ہیں!
وہ کل بھی بہت تھوڑے تھے
وہ آج بھی گنتی میں اتنے ہی نہیں!
کل جب بحریہ کے بھا ری بلڈوزر بس ملیر کے چہرے کے نشانات مٹا رہے تھے وہ جب بھی اتنے ہی تھے کہ ان کے نام ہاتھوں کی انگلیوں سے گنے جا سکتے تھے اور ان کے نام کسی ڈائیری میں درج نہیں بھی کیے جا تے پھر بھی بھولتے نہیں آج جب بحریہ کے بھا ری بلڈوزر وہاں پونچھے ہیں جہاں طالب پالا ری سرِ شام،،مورو!،،کی محفل لگایا کرتے تھے اور دلوں کی رفو گیری کرتے تھے مورو گاتے گاتے اپنی آنکھوں کو اس طرف اُٹھاتے تھے جہاں کاچھو،دادو،جام شورو کے بلند و بالا پہاڑ کھڑے ہیں اور طالب پالا ری حسرت سے کہا کرتے تھے کہ
،،سندھی وڈیرہ ان پہاڑوں کا دشمن ہے وہ ان پہاڑوں کے سر کاٹ دیں گے!،،
وہ جب بھی اتنے ہیں ہیں
بہت تھوڑے سے
اب جب کاچھو میں سازش کے ذرئعے بلند و بالا پہاڑوں کے سر کاٹے جا رہے ہیں نقلی کاغذات پر وہ کچھ لکھا جا رہا ہے جس کا سندھ نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا سندھ کی قدیم اور قیمتی زمینیں کسی فاتح کی طرح بحریہ کی جھولی میں ڈالی جا رہی ہیں
جب بھی وہ اتنے ہیں ہیں
وہ اتنے تھوڑے کیوں ہیں؟
حالاں کہ اب تو سندھ کو چیخ بن جانا چاہیے تھا کیوں کہ بحریہ ملیر تک محدود نہیں رہا اب تو بحریہ کی سرحدیں جام شورو سے بھی آگے کاچھو تک جا پہنچی ہیں پھر بھی سندھ سراپا احتجاج کیوں نہیں ہوا؟
پر ہمارا سوال یہ نہیں کہ سندھ سراپا احتجاج کیوں نہیں ہوا؟
ہماراسوال تو یہ ہے کہ وہ کیوں نہیں بڑھے جن کے پیر دھول آلود ہیں
جن کے چہروں پر شکنیں پڑ گئی ہیں
جو ملیر کو لٹتا دیکھ کر کبھی خاموش نہیں بیٹھے
جن کے پیروں کے نقوش ملیر کی وادیوں سے لیکر شہر کے تیز رفتار روڈوں تک ہیں
جو دانا نہیں
جو دانشور نہیں
جو عاشق ہیں
وہ کیوں نہیں بڑھے ان کی عددی تعداد اب بھی ویسے کی ویسی کیوں ہے؟
بحریہ کوئی ابھی اور آج کا زہر تو نہیں ہے یہ زہر بہت پرانا ہے اور اس کو تھوڑا تھوڑا کر کے ملیر اور سندھ کی نسوں میں اُتارا جا رہا ہے
تو سندھ کیوں نہیں جاگ رہا
اور ان عشاقوں کی تعداد کیوں نہیں بڑھ رہی جو
دھرتی سے محبوبہ
اور محبوبہ سے دھرتی جیسی محبت کرتے ہیں
وہ اتنے قلیل کیوں ہیں؟
اس سوال کا جواب بھی کنفیوشس ہی دے رہا ہے کہ
،،سچ،خوبصورتی اور سورج بس بہت قلیل ہو تے ہیں اور وہ اپنی سچائی،خوبصورتی اور روشنی سے دنیا کو آگے لے جا تے ہیں!،،
یہ بہت قلیل سے عاشق بھی سندھ کے
سورج،خوبصورتی اور سچ ہیں!ان سے سندھ وہ کچھ دیکھ پائیگی جو ترقی کے نام پر سندھ کو دوسرا اسرائیل بنا رہے ہیں .
اور سندھ آگے بڑھ کر ان بہت تھوڑے سے لوگوں کا یہ زور دار نعرہ بھی سنی گی کہ
،،MY SUN SETS TO RISE AGAIN
،،میرا سورج دوبارہ طلوع ہونے والا ہے!،،

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close