پی ٹی وی کے کلاسک ڈراموں کا سنہری دور اب ’پی ٹی وی فلکس‘ پر۔۔

ویب ڈیسک

’تنہائیاں‘ کا ’قباچہ‘ ہو یا جمشید انصاری کا ڈائیلاگ ’چقو ہے میرے پاس۔۔۔‘ ’دھوپ کنارے‘ کی ڈاکٹر زویا ہوں یا ’کسوٹی‘ کے سوال و جواب۔۔۔ یہ پی ٹی وی کے سنہری دور کی وہ یادیں ہیں، جو ایک نسل کو ازبر ہیں۔۔

پی ٹی وی نے اپنے اس ’سنہری دور‘ کو ناظرین تک دوبارہ پہنچانے کے لیے حال ہی میں ایک ایپ کا سافٹ لانچ کیا ہے

’پی ٹی وی فلکس‘ نامی اس ایپ میں ساٹھ سے نوے کی دہائی تک بننے والے مختلف ڈراموں اور پروگراموں کا آرکائیو مرتب کیا گیا ہے، جس میں ڈرامے، ٹیلی فلمز، پی ٹی وی کے ایوارڈ شوز، موسیقی، مذہبی اور تفریحی پروگرامز اور بچوں کے پروگرامز شامل ہیں

تنہائیاں، دھوپ کنارے، خدا کی بستی، اندھیرا اجالا، ماروی، کرن کہانی، منڈی، انکل عرفی، ایک محبت سو افسانے اور وارث جیسے کئی ڈرامے اس ایپ کا حصہ ہیں

ففٹی ففٹی، الف نون، آنگن ٹیڑھا، خواجہ اینڈ سنز اور پھر فیملی نائنٹی تھری، برگر فیملی جیسے کامیڈی شوز اور ڈرامے بھی اس ایپ میں شامل ہیں۔ کھیلوں میں کرکٹ کے متعدد میچز جبکہ ہاکی کے مقابلے بھی شامل کیے گئے ہیں

اور ہاں، ضیا محی الدین شو، زاویہ، انور مقصود اور معین اختر کا اسٹوڈیو پونے تین، اور اسٹوڈیو ڈھائی اور فائنلی کسوٹی کسی ٹریٹ سے کم نہیں ہیں۔ بچوں کا مشہور ڈرامہ ’عینک والا جن‘ اس وقت بھی اس ایپ پر سب سے زیادہ دیکھے جانے والے ڈراموں میں سے ایک ہے

اس کے علاوہ ٹیلی فلمز میں روزی، اچانک، آسیب، اب میرا انتظار کر، قفس ہے بس میں تمہارے، کورٹ سے کورٹ تک شامل ہیں

پی ٹی وی حکام کے مطابق پی ٹی وی فلکس لانچ کرنے کا مقصد ناظرین کی ان ڈراموں اور شوز سے متعلق یادیں تازہ کرنا تو ہے ہی مگر اس کے ساتھ پی ٹی وی کے ان بڑے پراجیکٹس کو محفوظ کرنا بھی ہے

اس منصوبے کے لیے پی ٹی وی انتظامیہ نے ایک نجی کمپنی کو کنٹریکٹ دیا ہے، جو ان پروگرامز اور ڈراموں کو ایڈٹ، ڈجیٹائز کرتے ہیں جبکہ ان کی کوالٹی بھی بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں

وہ کہتے ہیں ”کوالٹی اس قدر خراب ہو چکی تھی کہ ہم پانی میں ڈوبی ٹیپس نکال نکال کر انہیں ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ انتہائی پرانی ٹیپس ہیں۔ جبکہ کئی ایسے ڈرامے ہیں، جن کے ریکارڈ اور اقساط ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں“

پی ٹی وی ساٹھ سے نوے کی دہائی تک بننے والے ڈراموں کی وجہ سے اسے پی ٹی وی کا ’سنہری دور‘ کہا جاتا ہے۔ پی ٹی وی کے پانچوں مراکز یعنی لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ سے اپنے دور کے بہترین ڈرامے نشر ہو رہے تھے

لاہور سے 1985 میں پروڈیوس ہونے والا اندھیرا اجالا، کراچی سے 1982 میں بننے والا ان کہی، کوئٹہ سے 1995 میں نشر ہونے والا ڈرامہ دھواں اپنی مثال آپ تھے

اسلام آباد سے مزاحیہ سیریز گیسٹ ہاوس تو نوے کی دہائی کے بچوں کا بھی پسندیدہ تھا۔ جبکہ روف خالد کے مقبول ڈراموں لاگ اور انگار وادی کو بھی نشر کیا گیا

اس ایپ میں کچھ تکنیکی مسائل اب بھی باقی ہیں، جن کی شکایت صارفین کر رہے ہیں۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اس ایپ تک رسائی کے لیے ماہانہ رقم دینے کی ضرورت ہے تاہم سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر کئی صارفین نے شکایت کی کہ وہ تکنیکی خرابی کے باعث پیمنٹ نہیں کر سکتے

امریکہ میں مقیم ایسے ہی ایک صارف صباحت زکریا نے کہا کہ انہوں نے شروع میں کئی بار کوشش کی مگر کامیابی نہیں ہو پائی۔ صباحت نے ایپ میں رجسٹریشن کی متعدد بار کوشش کی مگر یہ پراسس مکمل نہیں ہو سکا

انہوں نے ٹویٹر پر ایک اسکرین شاٹ بھی شیئر کیا اور لکھا کہ: ’اس ایپ نے میرا امریکی ڈیبٹ کارڈ قبول کر لیا مگر اس سکرین کے بعد آگے نہیں بڑھ رہا۔ ’دی ریٹرن ٹو پی ٹی وی فلکس‘ بٹن کام ہی نہیں کر رہا۔‘

ان کی جانب سے شیئر کیے گئے اسکرین شاٹ میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مطلوبہ فیس میں رقم صرف دو روپے درج ہے

ایسی ہی شکایات دیگر صارفین بھی کر رہے ہیں۔ دوسری جانب اس ایپ کی انٹر فیس اور پروگراموں کی وڈیو کوالٹی پر بھی تنقید کی جا رہی ہے

ان شکایات سے متعلق بات کرتے ہوئے پی ٹی وی حکام کہتے نے بتایا ”ابھی یہ ایپ اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اور سافٹ لانچ کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس میں سامنے آنے والے تکنیکی مسائل پر کام کیا جا سکے۔ پی ٹی وی کا آئی ٹی ڈپارٹمنٹ اس پر کام کر رہا ہے اور مکمل لانچنگ تک یہ تمام مسائل ختم ہو جائیں گے۔“

تاہم پی ٹی وی کے آئی ٹی حکام نے رابطے کے باوجود اس بارے میں کوئی جواب یا ٹائم لائن نہیں دی

ایک جانب تو اس ایپ کی تعریف کیا جا رہی ہے کہ پی ٹی وی کے دہائیوں قبل نشر ہونے والے ان ڈراموں کو دیکھنے والے آج ایک بار پھر ماضی کی یادیں تازہ کر سکتے ہیں، مگر اس کے ساتھ یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ آخر نئی نسل کے لیے اس ایپ میں کیا ہے

اس بارے میں بات کرتے ہوئے ایک صارف علی رضا چودھری کہتے ہیں ”آپ ان کو ٹارگٹ کر رہے ہیں جو ساٹھ اور نوے کی دہائی سے ہیں۔ ان میں سے آدھے تو یوں بھی دنیا میں نہیں رہے ہوں گے اور جو ہیں، انہیں پی ٹی وی فلکس کا پتا نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ اپنے روایتی طریقوں سے باہر نکلیں گے۔ تو اس ایپ میں جنریشن زی کے لیے کیا ہے؟“

اس سوال بارے پی ٹی وی حکام کا کہنا ہے کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس ایپ کو ٹی وی کے ساتھ لنک کیا جا سکے تاکہ لوگ یہ پروگرام ٹی وی اسکرین پر دیکھ سکیں، ’دوسری بات یہ ہے کہ ہم نوجوانوں کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس کس قدر بہترین ڈرامے بنتے تھے، یہ سبق آموز تو ہوتے ہی تھے مگر ان کی پروڈکشن، ڈائریکشن اور سکرپٹس پر بے تحاشہ محنت کی جاتی تھی

’اور ابھی اس مرحلے میں ہم ان ڈراموں اور پروگراموں کی اقساط کو ڈھونڈ رہے ہیں جو آرکائیوز میں کہیں گم ہو گئی ہیں یا کسی کی غفلت کی وجہ سے خراب ہو گئی ہیں۔ اس لیے اگر ہم آج انھیں محفوظ نہیں کریں گے تو آئندہ چند ہی برسوں میں یہ اثاثہ ہمارے ہاتھوں سے نکل جائے گا‘

اب بھی کئی ایسے پروگرامز ہیں جو اس ایپ کا حصہ نہیں ہیں۔ اور دیکھنے والے پی ٹی وی سے رابطہ کر کے اپنی پسند کے پروگراموں کو اس ایپ کا حصہ بنانے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ جیسا کہ ثوبیہ صابر کہتی ہیں کہ ’غرور، برسوں بعد، اپنے ہوئے پرائے، تقدیر، ملنگی یہ سب کیوں نہیں ہیں؟‘

ثوبیہ یہ مشورہ بھی دیتی ہیں کہ پی ٹی وی انتظامیہ یوٹیوب چینل بناتی اور اس پر تمام ڈراموں کو ایچ ڈی کوالٹی میں اپ لوڈ کرتی۔ ’اس سے یوٹیوب ویوز سے ہی آپ کا ادارہ لاکھوں کما سکتا تھا‘

’میٹریل بہت زیادہ ہے، خود پی ٹی وی ہیڈکوارٹرز میں تین فلورز صرف آرکائیو کےہیں، انھیں صرف اپلوڈ ہی نہیں کرنا، بلکہ ان کی کوالٹی پر کام کرنا ہے، اس لیے یہ وقت طلب کام ہے مگر ہم آئندہ کچھ ہفتوں میں مزید ڈرامے اور پروگرامز اپلوڈ کریں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا‘

تاہم ان میں سے کئی ڈرامے اور پروگرامز تو یوٹیوب جیسے مختلف ایپس پر پہلے ہی موجود ہیں

ان ڈراموں اور کاپی رائٹس سے متعلق بات کرتے ہوئے پی ٹی وی کی ایک اہلکار نے کہا کہ کاپی رائٹس کا ایک بڑا مسئلہ ہے، جس کے لیے وہ مختلف آپشنز پر غور کر رہے ہیں

اہلکار کا کہنا ہے ’پی ٹی وی کے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ہر کوئی اسے اپنی پراپرٹی سمجھتا ہے اور ہمارا کانٹینٹ ہر جگہ یوٹیوب اور مختلف ایپس پر موجود ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ قانونی طور ہر کیا کر سکتے ہیں اور اس کے علاوہ کیا آپشنز ہیں۔‘

پی ٹی وی حکام کے مطابق اس ایپ کے مکمل لانچ ہونے تک اس میں سامنے آنے والے مسائل ختم ہو جائیں گے جبکہ ایپ کے سافٹ لانچ کے دوران ہی اس کو دیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچ گئی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close