منڈیل بام گیٹ (فلسطینی افسانہ)

ایملی حبیبی (ترجمہ: محمد افتخار شفیع)

”اس سے پوچھو، یہاں سے جانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے یا نہیں؟ بس مجھے یہ بتاؤ مسٹر!“ اسرائیلی کسٹم کا سپاہی چیخا

اس کی ڈیوٹی مینڈل بام گیٹ پر تھی۔ وہ بڑی رعونت سے گیٹ کے سامنے ہاتھ باندھے چوکس کھڑا تھا

”جناب! یہ ہماری والدہ کا فیصلہ ہے، وہ یہاں ہمارے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔۔ ظاہر ہے، اس کے لیے حکومت کے رسمی اجازت نامے کی ضرورت ہے۔اصل میں پہلے والے پرمٹ کی میعاد پوری ہوگئی ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں جانا ہی پڑے گا۔“ میں نے گیٹ کے اُس طرف اردن کے علاقے کی جانب اشارہ کیا

موسمِ سرما کے آخری دن چل رہے تھے۔ سورج کی کرنیں آج پہلے سے ذرا تلخ تھیں، بہار کا موسم شروع ہونے کی امید بن گئی تھی۔ گنجان آباد شہر میں جہاں بھی زمین کا کوئی ٹکڑا خالی تھا، سبزے کی حکم رانی دکھائی دیتی تھی۔ ہم اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے آئے تھے تاکہ وہ اپنی دادی کو الوداع کر سکیں۔ وہ بڑی دل چسپی سے گیٹ کے اس طرف بڑی لٹوں والے سیاہ پوش یہودیوں کو دیکھ رہے تھے۔ اجنبی خدوخال والے یہ لوگ ان کی توجہ کا مرکز تھے

اس علاقے کے وسط میں ایک خاصا وسیع وعریض چوک تھا، جہاں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بنی ہوئی تھیں۔ یہاں دو بڑے بڑے آہنی گیٹ تھے، جن پر سفید روغن کر دیا گیا تھا۔گیٹ میں سے کار کو داخل ہونے یا باہر نکلنے کی اجازت تھی

سپاہی نے غصے میں دانت پیستے ہوئے آہستگی سے کہا:
”چلے بھی جاؤ اب!!“

جنت سے نکلنا کتنا مشکل ہے، اسے کیا معلوم۔۔۔ یہ وطن ہمارے لیے واقعی کسی جنت سے کم نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ماں جیسی جنت کو رخصت کرنا کس قدر مشکل ہے، لیکن سپاہی کو اس کی پروا نہیں تھی۔ وطن اور ماں، دونوں کی محبت کا احساس بالکل ایک جیسا ہے۔ یہ تشنج کی بیماری میں مبتلا چہرے والا شاید اس کی اہمیت سے واقف ہی نہ تھا، ممکن ہے اس کے لیے ہم ماں بیٹوں کے الوداعی پیارکی کوئی اہمیت نہ ہو۔ دوسری بات شاید کچھ زیادہ سچ تھی، جب ہم اپنی ماں سے الوداعی بوسوں کا تبادلہ کر رہے تھے، وہ بے رحم لوگوں کی طرح بڑبڑایا: ”جو لوگ یہاں سے ایک دفعہ چلے جائیں، ان کی واپسی ناممکن ہے“

ہماری ماں کو جانے سے پہلے عجیب قسم کے خیالات نے بے چین کر رکھا تھا۔ یروشلم کے سفرسے پہلے، ایک شام جب ہم سب اپنے رشتے داروں کے ساتھ گھر کے صحن میں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے، اس نے غم زدہ لہجے میں کہا:
”کاش! میں اپنی موت کا ماتم کرنے والوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں“

جاتے وقت جب ہم کار پر گھر کے سامنے کی گلی کی ڈھلوان سے نیچے اتر رہے تھے تو اس نے گھر کے بالکل سامنے زیتون اور خوبانی کے درختوں کو دیکھ کر ایک ٹھنڈی آہ بھری اور دکھ بھرے اندازمیں اشارہ کرتے ہوئے بولی: ”کون جانتا ہے کہ میں پچھلے بیس سالوں میں اس ڈھلوان پر کتنی دفعہ چڑھی اور اتری ہوں۔“

مینڈل بام گیٹ کی طرف جاتے ہوئے جب ہم شہر کے مضافات میں واقع قبرستان کے پاس سے گزرے تواس نے روہانسی آواز میں کہا: ”میں کتنی بدنصیب ہوں، اس قبرستان میں ایک قبر کی جگہ بھی میرے نصیب میں نہ تھی۔۔ خدایا! میرے بعد میری پوتی کی قبر پر کون پھول چڑھائے گا۔“

وہ 1940 میں جب یروشلم گئی تھی، ایک نجومی نے اسے بتایا تھا کہ تمہاری موت بیت المقدس میں لکھی ہے، اس نجومی کی پیشین گوئی بھی پوری نہ ہو سکی۔

ماں کی عمر اس وقت پچھتر سال تھی، اس سے پہلے اسے نقل مکانی کے دکھوں کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ایک عجیب سا خوف آہستہ آہستہ اس کے بدن میں سرایت کرتا جا رہا تھا۔ ایک ایسا خوف جس کی شدت کو سمجھنا آسان نہیں ہے۔ ہماری والدہ کے لیے وطن کا مطلب کچھ اور ہی تھا۔ ہم اس وقت بہت ہنسے، جب ماں نے اپنا کپڑے دھونے والا ٹب بھی ساتھ لے جانے کی خواہش ظاہر کی۔ یہ ٹب اس کے لیے بہت قیمتی تھا، اسے جہیز میں جو ملا تھا۔ شاید ماں کے لیے وطن زمین کے ایک ٹکڑے کی بجائے کپڑے دھونے والے ٹب جیسا تھا۔۔ یا روزانہ صبح کے وقت سنائی دینے والی گوالے کی آواز تھا، تیل بیچنے والے کی گلی میں لگائی جانے والی صدا تھا۔۔ ممکن ہے وطن ماں کے لیے اس کے بیمار شوہر کی بلغم آمیز کھانسی کی ”کھوں کھوں“ کا نام ہو۔۔ اس کی الوداعی نظریں گھر کی دہلیز پر آ کر ٹک گئی تھیں، یہ وہی دہلیز تھی، جہاں سے اس نے اپنی بیٹیوں کو ایک ایک کر کے رخصت کیا تھا، بچوں کے پَر نکل آئیں تو وہ اڑ ہی جاتے ہیں۔ بیٹیاں بھی رخصت ہو کر ماں باپ کے ساتھ زیادہ رابطے میں نہیں رہی تھیں

ہم سب بہن بھائی ماں کو یہ سمجھاتے تھے کہ ان تمام چیزوں کا وطن سے بہت گہرا رشتہ ہے،اور آج جب وہ ”ممنوعہ علاقے“ کی طرف جا رہی تھی۔ اسے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ گئی تھی کہ وطن کیا ہوتا ہے۔۔ کچھ سوچ کر وہ متفکر انداز میں اپنے بیٹی کی طرف متوجہ ہوئی ”وہاں میری روح کو کیسے قرار ملے گا۔۔۔ ؟ کاش میں اپنے گھر کی دہلیز پر ایک بار بیٹھ سکتی“

اس کا بھائی جو اسے گاؤں سے الوداع کرنے آیا تھا، خود اس کیفیت سے صدمے میں تھا، بس ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔ ہمارا ایک پڑوسی رخصتی کے وقت ماں سے ملنے آیا، اس نے ماں کورخصت کرتے ہوئے کہا: ”دیکھو بہن! میری بات شاید تمہیں پسند نہ آئے، یاد کرو ایک دن میں نے تم سے کہا تھا، ایک وقت ایسا آئے گا، تمہیں ان قابض یہودیوں کو جائیداد بیچنے کے معاہدے پر دستخط کرنے پڑیں گے۔۔ پھر تمہیں یہ جگہ چھوڑنی ہوگی، قانون بھی ان یہودیوں کے ساتھ ہے“

ہمسائے نے ہم سے مخاطب ہو کر ایک اور بات کی: ”تم سب لوگ ایک چھوٹا سا واقعہ سنو، ایک دن ہم دونوں بھائی اپنے باپ کے ساتھ اپنی زرعی زمین کی دیکھ بھال کرنے گئے، جہاں ہم نے سبزیاں اگائی ہوئی تھیں۔ اچانک آسمان پر سے اڑتے ہوئے تیتروں کا ایک غول گزرا۔ میرا چھوٹا بھائی ذرا جلد باز تھا، اس نے جلدی سے بندوق اٹھائی تاکہ اپنی بہادری ثابت کر سکے، اسے دیکھ کر میرے باپ کے منہ سے ہنسی کا فوارہ چھوٹ گیا“

(تمہارے دادا کیسے قہقہہ لگاتے تھے نوجوان؟ تمہیں یاد تو ہوگا)

”میرے باپ نے کہا، ’تیتر کا شکار مردوں کا کام ہے بیٹا‘
لیکن میرا بھائی کم سن ہونے کے باوجود بڑا ضدی تھا، وہ بندوق لے کر چلا گیا، کوئی ایک گھنٹے بعد جب وہ واپس آیا تواس کے ہاتھ میں ایک زندہ تیتر تھا۔ یہ منظر وہاں موجود سب لوگوں کے لیے خاصا حیرت ناک تھا۔
’ایک زندہ تیتر کیسے تمھارے ہاتھ لگا؟‘
ننھے شکاری نے جواب دیا: ’اس میں کیا شک ہے، میں نے اس کا شکار کیا ہے‘
اس کے بعد کسی کو نہ بتانے کی شرط پر اس نے علیحدگی میں مجھ پر یہ راز فاش کیا کہ اس نے پہلے سے پرندے کو دیکھ لیا تھا۔ ایک خوف ناک بلی اسے اپنے جبڑوں میں دبا کر لے جا رہی تھی۔ اس نے بلی کا پیچھا کیا، ایک جھاڑی سے دوسری جھاڑی تک اس کے پیچھے بھاگا، جب تک کہ پرندے کو بلی سے بچانے میں کامیاب نہیں ہو گیا۔

”لیکن بھانجے!! کیا وہ واقعی ہم سے جائیداد کے کاغذات پر دستخط کرنے کی امید رکھتے ہیں؟ ذرا سوچو ان کا قانون کتنا کم زور ہے۔ میری نصیحت مانو تو آئند ہ کبھی بھی اپنے بچوں کے ساتھ مینڈل بال گیٹ دیکھنے مت جانا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ گیٹ کے اردگرد موجود کھنڈرات کو دیکھ کر خوش ہوں گے یا وہاں سے انھیں الہٰ دین کا جادوئی چراغ مل جائے گا
میں اس لیے منع کر رہا ہوں کہ مینڈل بام گیٹ ٹریفک کے لحاظ سے ایک مصروف جگہ ہے۔ وہاں گاڑیاں بہت تیزی سے اِدھر سے اُدھر آتی جاتی ہیں، امریکن کاریں جن میں موٹی موٹی توندوں والے سفید فام سوار ہوتے ہیں۔ یہ فربہ اندام لوگ وردیوں میں ملبوس ہوتے ہیں یا انھوں نے اپنی گردنوں میں مختلف بھڑکیلے رنگوں کے سکارف ڈال رکھے ہوتے ہیں۔
مینڈل بام گیٹ پر اکثر فائر بریگیڈ کی گاڑیاں بھی بین کرتی ہوئی عورتوں کی طرح سڑکوں پر چیختی پھرتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے امن مشن کے ٹرک بھی تمھیں انھی سڑکوں پر دندناتے ہوئے نظر آئیں گے۔ وہاں آنے جانے والی کاروں میں غیرملکی سفیر، اپنی حسین و جمیل بیویوں، باورچیوں اور قونصل خانوں کے ملازموں کے ساتھ سوار ہوتے ہیں۔ امن کے ان خواہش مندوں کو ہماری اذیت ناک زندگی سے کوئی غرض نہیں۔ یہ لوگ گیٹ پر کچھ دیر کے لیے اپنی گاڑیوں کی رفتار کم کرتے ہیں تاکہ وہاں متعین عملے سے علیک سلیک کر سکیں جیسا کہ اکثر ”مہذب لوگ“ کرتے ہیں۔ اُردن سے اِدھر مقبوضہ علاقے کی طرف آتے جاتے ہوئے یہ لوگ آپس میں خوش گپیاں لگاتے ہیں، ایک دوسرے کو گھٹیا لطیفے سناتے ہیں، ان کو دیکھ کر لگتاہے جیسے اس دنیا میں اُن سے بڑھ کر ایک دوسرے سے محبت کرنے والا اور کوئی نہیں
جو اِس راستے سے اُدھر چلا گیا، پھر کبھی واپس نہیں آ سکتا۔ یہ قابلِ احترام قبضہ آور اگر چاہیں تو دوپہر کا کھانا اِدھر فلاڈلفیا ہوٹل میں اور رات کاکھانا گیٹ کے پار اردن کے ایڈن ہوٹل میں جا کر تناول فرما سکتے ہیں۔ یہ گیٹ صرف ہم فلسطینیوں کے لیے بنایا گیاہے۔“

میری بہن نے ہماری طرف کے ایک سپاہی کو اپنی طرف متوجہ کرکے سوال کیا:
”کیامیں اپنی بیمار اور بوڑھی ماں کوچھوڑنے کے لیے اردن والے گیٹ تک جا سکتی ہوں؟“

”اس طرف جانے کی اجازت نہیں، وہ ممنوعہ علاقہ ہے“ اسے جواب دیا گیا

”لیکن یہ تمام غیرملکی تو ایسے آ جا رہے ہیں جیسے یہ ان کا اپنا ملک ہو“ اس نے ایک دفعہ پھر سوال کیا

”پیاری خاتون! فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے علاوہ یہاں سے ہر کسی کو گزرنے کی اجازت ہے“ سپاہی نے بڑے ادب سے جواب دیا، اس کے لہجے میں طنز نمایاں تھا ”اور ہاں، سڑک سے ہٹ کر ایک طرف ہو جاؤ، یہاں ٹریفک کا بہت رش ہوتا ہے۔“

میری بہن مزید کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن سپاہی نے اسے نظرانداز کر کے ایک ٹرک ڈرائیور کے ساتھ ہنسی مذاق کرنا شروع کر دیا، جو اردن سے اسرائیل میں داخل ہو رہا تھا۔ مجھے اس کی باتوں میں کوئی مزاح نظر نہیں آیا۔ وہ صرف میری بہن کے سوالات سے جان چھڑوانا چاہتا تھا

وقت بڑی بے رحمی سے گزر رہا تھا، آخرِ کار جدائی کی گھڑی آن پہنچی۔ ہماری بوڑھی اور ضعیف ماں اسرائیل والے گیٹ سے اردن کی جانب روانہ ہوئی۔ وہ لاٹھی ٹیکتے ہوئے بہت آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔ اس کے چہرے پر گھر بار چھوڑنے کا دکھ نمایاں تھا۔ اچانک ہماری جانب کے ہجوم میں سے ایک چھوٹی سی معصوم بچی فٹ بال کی گیند کی طرح بے چینی کے ساتھ اچھلتی اور کودتی ہوئی اردنی گیٹ کی طرف جاتی ہوئی ہماری والدہ کی طرف لپکی۔ جیسے کسی بہترین فٹ بالر نے اسے کک مار کر مخالف ٹیم کے پول کی طرف اچھال دیا ہو۔۔ مجھے چار سو چالیس وولٹ کا جھٹکا لگا جب میں نے دیکھا کہ یہ کوئی اور نہیں، میری اپنی بیٹی ہے۔۔ جو دادی! دادی! چلاتی ہوئی ہماری ماں کے پیچھے بھاگ رہی ہے۔
اتنے میں دوسری سمت والے گیٹ کی طرف سے ایک بدتمیز قسم کا سپاہی میری بیٹی کی طرف لپکا اور اردنی گیٹ کی طرف جاتی ہوئی ہماری ماں کے پاس آ کر رک گیا، دونوں دادی پوتی ساتھ ساتھ کھڑی تھیں۔ میری سات سالہ بیٹی پر اس نے اپنی بندوق تان لی، جیسے وہ کوئی بہت بڑی مجرم ہو۔سپاہی کو صفائی پیش کرنے سے پہلے دونوں دادی پوتی نے بے بسی سے ہماری طرف دیکھا۔ اردن کی طرف جانے والوں کو دور دور سے ہاتھ ہلا کر الوداع کہنے والے لوگوں کے ہجوم میں ہم بے بس اور پریشان کھڑے تھے، ہمارے چہروں کے رنگ اڑے ہوئے تھے،ںاتنے میں ہماری طرف کا ایک سپاہی بڑے تکبر سے بولا:
”اس طرف ایک قدم بھی آگے جانا منع ہے“

”یوں لگتا ہے اس بچی نے موت کی وادی پار کر لی ہے، کیوں کہ آج تک جو بھی اُدھر گیا، اسے واپس آنے کی اجازت نہیں ملی“ یہی جنگ، سرحدوں اور مینڈل بام گیٹ کی حقیقت ہے

ایک چھوٹی سی معصوم بچی اس کم سنی میں دوستی اور دشمنی کے رشتوں اور سرحدوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی تھی۔یہاں اس نے سرحد کے ایک طرف اپنے باپ اور اور دوسری طرف دادی کو کھڑے دیکھا تھا، سرحدی لکیر کیا ہوتی ہے، وہ یہ بات بالکل نہیں جانتی تھی۔۔

مینڈل بام گیٹ کے دونوں طرف گاڑیاں بہت تیزرفتاری سے اِدھر اُدھر آ جا رہی تھیں۔ یہاں اسرائیل میں عبرانی بولی جاتی ہے اور وہاں عربی۔وہ دونوں زبانیں فرفر بولتی ہے، اپنے گھر والوں کے ساتھ عربی اور پالتو جان وروں کے ساتھ عبرانی بولنے میں اسے خصوصی مہارت حاصل ہے۔

کسٹم کا اہل کار مجھے خاصا مایوس دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی ساری کوشش اکارت گئی تھی۔ ایک چھوٹی سی بچی کو یوں ممنوعہ علاقے میں دیکھ کر اس کے منہ سے صرف چندبے ترتیب سے الفاظ ہی نکل سکے تھے، یوں لگ رہا تھا جیسے وہ ہمیں تسلی دے رہاہو: ”ننھی سی پیاری جان۔۔
”میں پہلے ہی تم لوگوں سے کہہ رہا تھا، اپنے بچوں کو مینڈل بام گیٹ پر نہ لایا کرو، یہاں بہت سی تیز رفتار گاڑیاں چلتی ہیں۔ کہیں تمھارا کوئی بچہ یا بچی کسی گاڑی کے بے رحم پہیوں کے نیچے آ کر کچلا ہی نہ جائے۔۔ اب دیکھو، اسرائیلی علاقہ تو اس نے پہلے ہی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔۔ اور اچھل کر اپنی دادی کے پاس جا پہنچی ہے۔ دادی نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھا لیا ہے“

اردن کی طرف کا سپاہی غصے کی حالت میں زمین پر ٹھوکریں مار رہا تھا، جب کہ ہمارا سرحدی محافظ سر جھکا کر بے دھیانی سے مسلسل زمین کو تکے جا رہا تھا۔ عین اسی وقت دفتر کے ساتھ کھڑا سپاہی اچانک کمرے کے اندر غائب ہو گیا۔کسٹم افسرنے اپنی جیب کو یوں ٹٹولنا شروع کر دیا، جیسے اس کی کوئی قیمتی چیز گم ہوگئی ہے۔

(شرمندگی کی بھی آخر کوئی حدہوتی ہے)

آپ سمجھ تو گئے ہوں گے، میں نے آپ کو بچوں کے ساتھ مینڈل بام گیٹ پر نہ آنے کا مشورہ کیوں دیا تھا۔یہ اس کی آسان اور سادہ سی دلیل ہے۔

(نوٹ: مینڈل بام گیٹ، عرب اسرائیل تنازعے کے بعد یروشلم میں اسرائیل اور اردن کے درمیان بنائی جانے والی ایک چیک پوسٹ، جس نے شہر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ فلسطینی ادب میں مینڈل بام گیٹ تقسیم اور ظلم و ستم کی علامت ہے۔)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close