بلوچستان کی مہر گڑھ تہذیب اور ہزاروں سال قبل ’ڈرل مشین‘ کے ذریعے دانت کا علاج!

ویب ڈیسک

انسان اپنی تلاش کے سفر میں ماضی کو کھوجتا جا رہا ہے اور اِس تلاش کا ایک رُوپ آثار قدیمہ کی بازیافت بھی ہے ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کا ماضی کتنا تابناک تھا۔ اگر مصری تہذیب سے گنجے پن کے علاج، نعشوں کو محفوظ رکھنے اور دیگر بیماریوں کے بارے میں اُس دور کے معالجین کے علم کا اندازہ ہوتا ہے تو وادیِ سندھ کی تہذیب ’موہن جو دڑو‘ سے پسندیدہ کھیل شطرنج، نکاسیِ آب اور شہر کے طرزِ تعمیر سے اُس دور کے سماجی رویوں اور ترقی کا پتہ چلتا ہے

سب سے پرانی انسانی تہذیب کے کچھ آثار تو پاکستان میں پوٹھوہار کی وادی سواں میں بسنے والی تہذیب سے ملے تھے اور اب وادیِ بولان میں انسانی تہذیب و تمدن کے چونکا دینے والے شواہد مل چکے ہیں۔ بلوچستان میں واقع ایک مقام مہر گڑھ سے ملنے والی انسانی کھوپڑیوں پر تحقیق کے بعد یہ پتہ چلا کہ یہ نو ہزار سال قبل از مسیح کی ہیں، جو پتھر کے زمانے کا آخری زریں دور قرار دیا جاتا ہے

اکیسویں صدی میں پسماندگی کے شکار بلوچستان کے حوالے سے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہاں سینکڑوں سال پہلے ڈرل مشین جیسے کسی آلے کا استعمال کرتے ہئے دانتوں کا علاج کیا جاتا تھا

معروف دانشور ایوب بلوچ کہتے ہیں کہ مہر گڑھ 1974ع میں فرانسیسی ماہرین کے مشن کے ہاتھوں بلوچستان میں مہر گڑھ کی دریافت اس سرزمین کے بہت سارے رازوں پر پڑا پردہ اٹھایا

ایوب بلوچ کے خیال میں مہر گڑھ کی دریافت سے قبل بلوچستان، جو اپنے محل وقوع اور آثار قدیمہ کے حوالے سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے، دنیا کی نظروں سے اوجھل تھا

انہوں نے کہا کہ سب سے اہم اور بڑی دریافت مہر گڑھ میں دانت کا علاج کیا جانا تھا، جو ماہرین کو حیرت زدہ کرنے کے لیے کافی تھی

ان کے بقول”مہر گڑھ کے لوگ زراعت میں بھی بہت ترقی حاص کر چکے تھے۔“

ایوب بلوچ کہتے ہیں ”میں بلوچستان کو لاکھوں معجزات کی سر زمین کہتا ہوں، جن میں سب سے شاندار مہرگڑھ ہے“

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بلوچستان آثار قدیمہ کے حوالے سے ایک خالی مقام رکھتا تھا، لیکن مہر گڑھ کی دریافت کے بعد اس خطے کو تہذیب دینے والا علاقہ کہا جانے لگا

ایوب بلوچ کے مطابق ”مہر گڑھ کی امتیازی حیثیت اس وجہ سے ہے کہ یہ ایک تہذیب یافتہ علاقہ تھا، جہاں زراعت، خانہ بدوشی، خوراک، رابطہ کاری، تجارت، سماجی مضبوطی اور طبی سہولیات دیکھنے کو ملتی ہیں“

مہر گڑھ کی تہذیب

بلوچستان کے بولان ڈسٹرکٹ میں مہرگڑھ ایشیا کی قدیم ترین تہذیب سمجھا جاتا ہے۔ اس تہذیب کے بارے میں ماہرین بتاتے ہیں کہ مہرگڑھ میں رہنے والے لوگوں نے اس علاقے میں پہلی مرتبہ گندم اور جو کی کاشت شروع کی، جانوروں کو پالنا شروع کیا اور ظروف سازی کی صنعت بھی عروج پر تھی

مہر گڑھ آثار قدیمہ کی ایک کلاسک مثال سمجھی جاتی ہے، جس نے کئی نسلوں تک مٹی کی اینٹوں سے بنے ڈھانچوں سے ایک مصنوعی ٹیلے کی شکل اختیار کی

مہر گڑھ کے آثار قدیمہ صوبہ بلوچستان کے ضلع کچھی میں درہ بولان کے منہ کے قریب کچی کے میدان میں ٹیلوں پر مشتمل ہیں

دریائے بولان کے مغربی کنارے کے قریب سبی شہر سے تقریباً تیس کلومیٹر کے فاصلے واقع مہر گڑھ تقریباً ڈھائی سو ہیکٹر کے رقبے پر محیط ہے

مہر گڑھ کے مقام پر آثار قدیمہ کی گیارہ میٹر سے زیادہ گہرائی میں موجود ہیں، جو ساتویں اور تیسری صدی قبل مسیح کے درمیانی عرصے پر محیط ہیں

سال 1968ء میں ماہرین آثار قدیمہ کو موجودہ آباد مہرگڑھ کے علاقہ کے قریب ایک ٹیلے سے اکثر قدیم اشیاء کے ملنے کی اطلاع دی گئی تو ماہرین آثار قدیمہ نے کھدائی شروع کی اور ایک قدیم و عظیم شہر کے کھنڈرات دریافت ہوئے

اِس مقام پر سن 1980ء میں ایک فرانسیسی ٹیم نے 380 افراد کے ساتھ کھدائی کا کام شروع کیا تھا۔ اِس عمل میں بعد ازاں سن 2000ء میں مزید بین الاقوامی ماہرین بھی شریک ہو گئے حالانکہ تب بلوچستان غیر ملکیوں کے لئے کوئی پُر سکون علاقہ نہیں رہا تھا

ماہرین یہاں تیس سال تک کھدائی کرتے رہے اور یہاں سے انسانی ڈھانچے، مجسمے ، کھلونے، مختلف نوعیت کے اوزار، برتن، کنویں اور دوسرے ساز و سامان کی صورت میں تاریخ کا بیش قیمت خزانہ دریافت کیا

مہرگڑھ کی بابت ماہرین کا کہنا ہے کہ تقریباً نو ہزار سال قبل مسیح ایک خانہ بدوش قبیلے نے مستقل طور پر دریائے بولان کے کنارے مہرگڑھ نامی شہر آباد کیا۔وقت کے ساتھ وہ وہاں کھیت بنا کر اناج اُگانے اور مویشی بھی پالنے لگے۔ یوں مہرگڑھ بسانے والا یہ قبیلہ کرہ ارض پر انسانی تاریخ میں پہلی بار کھیتی باڑی کرنے اور جانور پالنے کی وجہ سے الگ منفرد شناخت رکھتا ہے۔ مزید برآں بہت سے ماہرین کی رائے میں کپاس کی کاشت بھی سب سے پہلے مہر گڑھ میں ہی کی گئی

صرف یہی نہیں بلکہ یہاں سے ملنے والے آثار کی روشنی میں ماہرین کا ماننا ہے کہ آج سے نو ہزار سال قبل دنیا میں دانتوں کی سب سے پہلی سرجری بھی مہر گڑھ میں ہی کی گئی تھی۔ مہرگڑھ تہذیب کا دانتوں کی سرجری کا طریقہ حیرت انگیز تھا اور اس سے دانت بالکل ٹھیک ہو جاتے تھے۔ ماہرین کو چار دانت ملے، جنہیں نقصان پہنچا تھا اور ان کا باقاعدہ علاج کیا جاتا تھا

برصغیر میں مجسمہ سازی کے فن کا آغاز بھی مہرگڑھ سے ہی ہوا۔ ماہرین کی تحقیقات کے مطابق مہرگڑھ کی آبادی دس تا بیس ہزار نفوس پر مشتمل تھی جبکہ دوسری طرف اس زمانے میں دجلہ اور فرات کے درمیان آباد دنیا کی اولین تہذیب کے سب سے بڑے شہر کی آبادی چار ہزار نفوس سے زیادہ نہیں تھی

ماہرین کا کہنا ہے کہ اُس زمانے میں مہرگڑھ بڑی آبادی والا ایک مرکزی ترقی یافتہ شہر تھا جب کہ برصغیر کی اُس وقت کی کل آبادی ماہرین کے تخمینے کے مطابق دو لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ مہرگڑھ کا شمار دنیا کی اولین تہذیبوں اور اپنے زمانے کے ترقی یافتہ مرکزی شہروں میں ہوتا ہے

ایوب بلوچ کا کہنا ہے ”سبی میلے کی ایک پہچان بیل ہیں جن کے نقش مہر گڑھ سے ملے. دوسری جو چیز اہم ہے وہ یہاں سے ملنے والے مٹی کے برتن ہیں، جن پر بنے نقش و نگار ہیں آج بھی بلوچ خواتین کے لباس میں ملتے ہیں“

ان کا خیال ہے کہ ’موہن جو دڑو‘ اور دوسری تہذیبیں مہر گڑھ کے بعد کی ہیں، جو سات ہزار سال قبل مسیح اور نو ہزار سال قدیم تہذیب ہے

ایوب بلوچ کہتے ہیں ”ماہرین کا اس طرف آنا بھی ایک حادثہ تھا، جب یہ لوگ وڈھ کے علاقے اورناچ میں کام کر رہے تھے لیکن وہاں حالات خراب ہونے کے باعث انہیں وہاں کام بند کر کے مہر گڑھ کا رخ کرنا پڑا“

ایوب بلوچ کے مطابق فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ ژاں فرانسوا جیرگ نے مہر گڑھ کی کھدائی کا کام 1973 میں شروع کیا تھا، جو تیس سال تک جاری رہا

مہر گڑھ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کے عارضی لسٹ میں شامل ہے، تاہم اسے ابھی تک عالمی ورثہ قرار نہیں دیا گیا

سیکرٹری ثقافت بلوچستان منظور حسین کہتے ہیں کہ کوئٹہ میں سریاب روڈ پر واقع مہر گڑھ کے نام سے عجائب گھر موجود ہے اور مہر گڑھ ماضی کی تہذیبوں کی زندہ مثال ہے

انہوں نے بتایا کہ اس عجائب گھر کے لیے کراچی کے سے سترہ ہزار سے زیادہ نوادرات اس عجائے گھر منتقل کیے گئے

منظور حسین کا کہنا تھا کہ حکومت غیر ملکی فنڈز کے حصول کی کوشش کر رہی ہے تاکہ مہر گڑھ عجائب گھر کو عالمی معیار کا میوزیم بنا جا سکے

انہوں نے مزید کہا بلوچستان کے تمام اہم آثار قدیمہ کی فزیبلٹی اسٹڈی مکمل ہو چکی ہے اور ان کی حفاظت کے لیے 20 کروڑ روپے کی منظوری دی جا چکی ہے، جبکہ صوبے میں ڈویژن کی سطح پر عجائب گھر قائم کرنے کی غرض سے مزید بیس کروڑ روپے جاری کیے جائیں گے

معروف دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف فاروق بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں آثار قدیمہ کے تحفظ اور لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کے واسطے عجائب گھروں کا قیام ناگزیر ہے ’کوئٹہ میں پہلا عجائب گھر انگریزوں نے قائم کیا تھا جس کی جگہ بار بار بدلنے کی وجہ سے اس میں موجود بہت سے قیمتی چیزیں ضائع ہو چکی ہیں۔‘

ایوب بلوچ کے مطابق مہر گڑھ سے ملنے والی اشیا کا تسلسل موجودہ بلوچستان کے معاشرے میں اب بھی جاری ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے خانہ بدوشی کی مثال دی، جس کے آثار قدیم مہر گڑھ میں ملتے ہیں جبکہ موجودہ بولان میں خانہ بدوشی اب بھی اسی طرح جاری ہے

یاد رہے کہ لگ بھگ دو دہائیاں قبل امریکی کنساس یونیورسٹی کے ماہر آثار قدیمہ ڈیوڈ فریئر نے مہر گڑھ سے ملنے والی پتھر کے زمانے کی نو عدد کھوپڑیوں پر کی جانے والی اپنی تحقیقی رپورٹ میں کہا تھا کہ اُس زمانے میں بھی دانتوں کا باقاعدہ علاج کیا جاتا تھا۔ ڈیوڈ فرائر کے مطابق یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ دانتوں کے علاج اور خصوصیت سے دانتوں میں سوراخ کر کے اُن کو بھرنے کے یہ پہلے نمونے ہیں۔ اُن کے مطابق یہ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ اِس سارے علاقے میں یہ علاج پندرہ سو سال تک مروّج رہا تھا۔ اِس سے پہلے دانتوں کے علاج کے حوالے سے انسانی کاوش تین ہزار سال قبل از مسیح کے ڈنمارک میں ملنے والے آثار تھے لیکن مہر گڑھ سے ملنے والے ماضی کے نشانات کا زمانہ چار ہزار قبل از مسیح سے سات ہزار قبل از مسیح کے درمیان کا ہے

مہر گڑھ سے ملنے والی کھوپڑیوں پر تحقیق سے پتہ چلا کہ نو عدد مریضوں کی عمریں اندازاً بیس سے چالیس کے درمیان تھیں اور اُن میں سے چار خواتین تھیں۔ دانتوں کے اندر سوراخ غالباً سوراخ کسیے نوکیلے اَوزار سے کئے گئے تھے، جسے تیزی سے گھمایا جا سکتا تھا۔ اِن سوراخوں کا مقصد داڑھوں میں لگے کیڑے یا اندر موجود انفیکشن کی وجہ سے پیدا پیپ کو نکالنا تھا۔ سوراخ کی مدد سے مرمت کئے گئے دانتوں کی تعداد گیارہ ہے جبکہ چار ایسے ہیں، جن میں غالباً مکمل شفایابی نہیں ہوئی تھی

محققین کا خیال ہے کہ یہ دانت یقیناً کسی بہتر مواد سے بھرے گئے تھے، جو وقت کی گزرگاہ پر ضائع ہو گئے ہیں۔ ابھی اُس مواد سے آگاہی ممکن نہیں ہو سکی۔ فرانس کی Poitiers یونیورسٹی کے ماہر حجریات Roberto Macchiarelli کا خیال ہے کہ اُس زمانے میں دانتوں کے حوالے سے انسانی رویے بالغ نہیں تھے اور ہر قسم کی خوراک کے اِستعمال سے اُن میں بیماریاں عام تھیں۔ ویسے بھی یہ وہ زمانہ ہے، جب اِنسان نے جَو اور گندم کو بطورِ خوراک کھانا شروع کیا تھا

تحقیق سے اندازہ لگایا گیا کہ یہ مریض ایک سے زیادہ مرتبہ دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس گئے تھے۔ دانتوں کا علاج دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ معالجین اپنے کام کے زبردست ماہر تھے۔ فرانسیسی ماہر آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ قدیم تہذیبوں میں دانت کا علاج ایک انتہائی کمیاب شے ہے۔ مہر گڑھ میں دانتوں کے علاج کی روایت پندرہ سو برسوں پر محیط ہونے کے باوجود اِس علاقے سے کسی دوسرے تمدن کو کیوں منتقل نہیں ہوئی، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب کی کھوج جاری ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close