قرض (امریکی ادب سے منتخب افسانہ)

برنارڈ میلامڈ (ترجمہ: جاوید بسام)

نانبائی لوئب کے تندور میں سفید روٹیاں ابھی بھوری نہیں ہوئی تھیں، مگر خریدار پہلے ہی اس کی اشتہا انگیز خوشبو سے متاثر ہوکر وہاں چلے آئے تھے۔ لوئب کی دوسری بیوی ’بیسی‘ کاؤنٹر کے پیچھے تیاری میں مصروف تھی۔ اس نے لوگوں کے درمیان ایک اجنبی خستہ حال شخص کو دیکھا جو گیند بازوں کی ٹوپی پہنے کھڑا تھا۔ اگرچہ وہ پر اعتماد لوگوں کے ہجوم کے درمیان کافی بے ضرر دکھائی دے رہا تھا، لیکن بیسی بے چین ہو گئی اور استفساری نظروں سے اسے دیکھنے لگی، لیکن وہ کچھ نہ بولا۔۔ فقط اپنا سر جھکایا، جیسے اس سے پریشان نہ ہونے کی التجا کر رہا ہو اور کہہ رہا ہو، وہ انتظار کرلے گا۔ اس کا چہرہ کسی اندرونی کرب سے بگڑا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ بدقسمتی اس پر عرصہِ دراز سے حاوی ہے۔ جس نے اسے مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ بیسی نے اس سے خوف محسوس کیا۔ اس نے جلدی سے گاہکوں کو نمٹایا اور جیسے ہی آخری گاہک اسٹور سے نکلا، اس نے دوبارہ اس کی طرف دیکھا۔

اجنبی نے اپنی ٹوپی سر سے اٹھائی اور بولا ”معاف کیجیے گا، میں کوبوٹسکی ہوں۔ کیا نانبائی لوئب گھر پر ہے؟“

”کون کوبوٹسکی؟“ بیسی نے پوچھا

”ہم پرانے دوست ہیں۔“ وہ بولا

اس جواب نے بیسی کو مزید خوفزدہ کر دیا، ”تم کہاں سے آئے ہو؟“

”ہم ایک ہی قصبے میں رہتے تھے۔“ اجنبی نے جواب دیا

”لوئب سے کیوں ملنا چاہتے ہو؟“ بیسی نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا

سوال ناگوار تھا۔ کوبوٹسکی نے خاموش رہنے کا فیصلہ کیا

غالباً آوازوں کی بازگشت سن کر نانبائی پچھلے دروازے سے دکان میں داخل ہوا۔ وہ اوپر آدھی آستین کا بنیان پہنے ہوئے تھا اور اس کے پُر گوشت سرخ بازو کہنی تک آٹے میں لتھڑے ہوئے تھے۔ اس نے نان بائیوں کی ٹوپی کے بجائے آٹے سے بھرا کاغذی تھیلا اپنے سر پر الٹا چڑھا رکھا تھا۔ جس سے جھر کر آٹا اس کے چہرے اور عینک کے شیشوں پر چلا آیا تھا اور اس کا حیرت زدہ چہرہ سفید ہو رہا تھا۔ وہ ایک موٹا اور توندل آدمی تھا اور بھوت سے مشابہہ لگ رہا تھا۔ حالاں کہ یہ کوبوٹسکی تھا، جو اچانک کسی بھوت کی طرح ظاہر ہوا تھا

نانبائی کچھ لمحے تک اسے تکتا رہا، پھر پہنچان کر سسکاری بھری اور بولا ”کوبوٹسکی۔۔۔!“

آخرکار، پرانے دوست کو وہ گزرے دن یاد آگئے تھے۔ جب دونوں جوان تھے اور ہمیشہ ساتھ رہتے تھے۔ جذبات کی زیادتی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، لیکن اس نے انہیں ہاتھ سے صاف کیا۔
کوبوٹسکی نے اپنی ٹوپی اتاری اور صاف رومال اپنی سوجی ہوئی پیشانی پر پھیرا۔ جہاں لوئب کے سفید بال تھے۔ وہاں اس کا گنجا سر چمک رہا تھا

لوئب نے اسٹول بڑھایا اور بولا ”کوبوٹسکی بیٹھ جاؤ۔“

”یہاں نہیں۔“ بیسی بڑبڑائی پھر فوراً وضاحت کی، ”یہ رات کے کھانے کا وقت ہے۔ کسی وقت بھی گاہک آ سکتے ہیں۔“

”یقینا، یہاں بہتر نہیں رہے گا۔“ کوبوٹسکی نے سر ہلایا

اس نے اس بات پر اطمینان محسوس کیا کہ اب کوئی ان کی باتوں کے درمیان مداخلت نہیں کرے گا۔ دونوں دوست پچھلے کمرے میں چلے گئے، لیکن جب بیسی نے دیکھا کہ کوئی خریدار نہیں ہے تو وہ بھی ان کے پیچھے چلی آئی۔
کوبوٹسکی اپنا کالا کوٹ اور ٹوپی اتارے بغیر ایک کونے میں رکھے اونچے اسٹول پر بیٹھ گیا اور سر جھکا کر ابھری ہوئی سرمئی رگوں والے ہاتھ اپنے استخوانی گھٹنوں پر رکھ لیے۔ لوئب آٹے کی بوری پر بیٹھا موٹے شیشوں کے پیچھے سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بیسی نے کان لگا رکھے تھے، لیکن مہمان خاموش تھا۔ لوئب کو خود ہی گفتگو شروع کرنی پڑی۔
وہ بولا، ”آہ۔۔۔۔ وہ پرانا دور کوبوٹسکی! پوری دنیا نئی نکور اور نکھری ہوئی تھی اور ہم جوان تھے۔ یاد ہے جب تم جہاز کی گرفت سے باہر نکلے تھے اور تم نے تارکینِ وطن کے رات کے اسکول سے پہلا معاہدہ کیا تھا؟“

کوبوٹسکی نے اقرار میں گردن ہلائی۔ وہ بہت دبلا پتلا تھا۔ بالکل ڈھانچہ لگ رہا تھا۔ اس کے منہ میں بار بار پانی آ رہا تھا۔ بیسی بے صبری سے ایک کپڑے کا چیتھڑا ہاتھ میں لیے خاک صاف کر رہی تھی۔ وہ غالباً وہاں اپنی موجودگی کا جواز فراہم کرنے کے لیے مصروفیت ظاہر کر رہی تھی۔ وقتاً فوقتاً وہ دکان میں بھی جھانک لیتی، لیکن وہاں کوئی نہیں تھا

لوئب نے اپنے دوست کا حوصلہ بڑھانے کے لیے وہ جملے دہرائے جو وہ بچپن میں بولتا تھا۔ ”کوبوٹسکی ! ہوا درختوں کو پکارنے لگی ہے۔ چلو باغ میں کھیلنے چلتے ہیں۔ کیا آپ کو یاد ہے؟“

بیسی نے اچانک زور سے سونگھا اور چلائی، ”لوئب! روٹی تیار ہو گئی ہیں!“

نانبائی اچھل کر کھڑا ہوا، چولہے کی طرف بھاگا اور اوپر والا دروازہ کھولا۔ پھر اس نے وہ دو بیکنگ ٹرے نکالیں، جن کے سانچوں میں روٹی سرخ ہو گئی تھی اور غلاف شدہ میز پر رکھ دیں

بیسی نے کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے کہا، ”میں نے وقت پر بتا دیا۔۔ ورنہ ابھی ہم ان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔“

لوئب نے آنکھیں سکیڑ کر اسٹور میں دیکھا۔ ”گاہک!“ وہ تیزی سے بولا

بیسی خجل ہو کر چلی گئی۔ کوبوٹسکی نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔ لوئب نے ایک بڑا پیالہ لیا اور آٹا سانچوں میں ڈالنے لگا۔ جلد ہی ٹرے تندور میں رکھ دی گئیں، لیکن بیسی واپس آگئی تھی

گرم روٹیوں کی اشتہا انگیز خوشبو نے کوبوٹسکی میں زندگی کی لہر دوڑا دی تھی۔ اس نے مسرت سے گہری سانس لی، جیسے زندگی میں پہلی بار سونگھ رہا ہو اور اپنی مٹھی سینے پر ماری،
”خداوند! یہ بہترین چیز ہے۔“ وہ تقریباً روہانسا ہو گیا

”آنسو شامل ہیں“ لوئب نے نرمی سے پیالے کی طرف انگلی کرتے ہوئے کہا

کوبوٹسکی نے سر ہلایا۔

”میں سالوں سے یہ محنت کر رہا ہوں۔ انہیں میرے کیک پسند نہیں ہیں، لیکن وہ روٹی کے لیے ہر طرف سے بھاگے آتے ہیں۔“

کوبوٹسکی نے ناک سکیڑ کر دکان کی طرف دیکھا۔ جہاں تین گاہک موجود تھے، ”لوئب۔“ اس نے سرگوشی کی

نانبائی غیر ارادی طور پر سُن ہو گیا

اجنبی نے کاؤنٹر کے پیچھے بیسی کی طرف دیکھا، پھر اپنی بھنویں اٹھائیں اور استفساری نظروں سے لوئب کی طرف دیکھا

لوئب نے منہ نہیں کھولا

کوبوٹسکی نے اپنا گلا صاف کیا اور بولا۔ ”لوئب مجھے دو سو ڈالر چاہییں۔“ آخر میں اس کی آواز کٹ گئی تھی

لوئب دھیرے سے بوری پر بیٹھ گیا۔ جب سے کوبوٹسکی اس کے پاس آیا تھا۔ وہ اس بات کی توقع کر رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کوبوٹسکی اس متعلق بات ضرور کرے گا۔
وہ پندرہ سال پہلے دیے ہوئے دو سو ڈالر کو یاد کر رہا تھا۔ لوئب نے قسم کھائی تھی کہ اس نے دے دیے تھے۔ کوبوٹسکی نے انکار کیا تھا۔ ان کی دوستی ٹوٹ گئی تھی اور ناراضگی ختم ہونے میں برسوں لگ گئے تھے۔

کوبوٹسکی نے سر جھکا لیا۔
لوئب نے سوچا۔ وہ کم از کم یہ تو تسلیم کرے کہ میں غلط تھا۔ مگر خاموش رہا

کوبوٹسکی اپنی ٹیڑھی انگلیوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ وہ سمور فروش تھا، لیکن جوڑوں کے درد کی وجہ سے اسے کام چھوڑنا پڑا تھا

لوئب نے خاموشی سے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے پیٹ پر ہرنیے کے آپریشن کا نشان تھا۔ اب دونوں آنکھوں میں موتیا اتر آیا تھا۔ اگرچہ ڈاکٹر نے یقین دلایا تھا کہ وہ آپریشن کے بعد دوبارہ اچھی طرح دیکھنے لگے گا، لیکن لوئب کو یقین نہیں تھا

اس نے آہ بھری اور سوچنے لگا کیا آپ کو خدا کی ناراضگی کا بھی احساس نہیں ہے؟ آپ ایک دوست کو معاف نہیں کر سکتے؟ یہ افسوس کی بات ہے کہ اسے سب کچھ دھندلا نظر آتا ہے۔

پھر لوئب نے اسٹور کی سمت دیکھ کر سر ہلایا اور ہکلایا ”میں۔۔ ہاں۔۔۔ لیکن، سب کچھ دوسری بیوی کے نام پر ہے۔“ یہ کہہ کر اس نے اپنی خالی ہتھیلیاں آگے پھیلا دیں

کوبوٹسکی کی آنکھیں بند کرلیں

”لیکن میں اس سے ضرور پوچھوں گا۔“ لوئب نے بے یقینی سے کہا

”میری بیوی ڈورا کو ضرورت ہے۔“ کوبوٹسکی بولا

لوئب نے جھاڑو اٹھائی اور سفید دھول کا بادل اٹھاتے ہوئے کمرے کے اس پار چلا گیا

بیسی ہانپتی ہوئی واپس آئی اور انہیں دیکھ کر فوراً اپنے ہونٹوں کو مضبوطی سے دبا کر انتظار کرنے لگی

لوئب نے کاسٹ آئرن سنک میں ٹرے کو جلدی سے صاف کیا، میز کے نیچے سانچہ پھینکا، اور ٹرے پر مزیدار خوشبو والی روٹیاں ترتیب دیں۔ پھر اس نے تندور کے سوراخ میں دیکھا: خدا کا شکر ہے کہ روٹیاں ہمیشہ کی طرح پک رہی ہیں

جب وہ بیسی کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے خود کو بیمار محسوس کیا اور الفاظ اس کے حلق میں اٹک گئے۔
کوبوٹسکی اسٹول پر بے چین ہو گیا

”بیسی، یہ میرا پرانا دوست ہے۔“ نانبائی نے بات شروع کی

بیسی نے سنجیدگی سے سر ہلایا۔ کوبوٹسکی نے اپنی ٹوپی اٹھائی

”اس کی ماں، خدا اس پر رحمت نازل کرے، وہ ہمیشہ مجھے گرم سوپ کا پیالہ دیتی تھی۔ میں نے ان کے دسترخوان پر کئی سال کھانا کھایا ہے۔ اس کی بیوی کا نام ڈورا ہے، جو بہت مہذب خاتون ہے۔ تم جلد ہی اس سے ملو گی۔“

کوبوٹسکی آہستہ سے کراہا،
”ہم ابھی تک کیوں نہیں ملے؟“ اس نے بیسی سے پوچھا

”کیوں کہ میں خود اِس سے پندرہ سال بعد ملا ہوں۔“ نانبائی نے اعتراف کیا

”تم اس سے کیوں نہیں ملتے تھے؟ جب کہ جانتے تھے کہ وہ اسی شہر میں ہے۔“ وہ پیچھے ہٹنے والی نہیں تھی

لوئب ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گیا۔ پھر بولا، ”کچھ غلط فہمی کی بنا پر۔۔“

کوبوٹسکی نے منہ موڑ لیا

”لیکن یہ میری اپنی غلطی ہے۔“لوئب نے کہا

”اس کی وجہ یہ ہے کہ تم کہیں نہیں جاتے۔“ بیسی پھنکاری، ”کیوں کہ تم بیکری سے باہر نہیں نکلتے۔ تمہارے لیے کوئی دوست اہمیت نہیں رکھتا۔“

لوئب نے نمایاں طور پر سر ہلایا

”وہ اب بیمار ہے،“ لوئب نے کہا، ”اسے آپریشن کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر نے دو سو ڈالر مانگے ہیں۔ میں پہلے ہی کوبوٹسکی سے وعدہ کر چکا ہوں کہ۔۔۔“

بیسی زور سے چلائی

کوبوٹسکی گھبرا کر ٹوپی ہاتھ میں لیے اسٹول سے اتر گیا

بیسی نے اپنے سینے کو پکڑا ہوا تھا، پھر اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھے اور لڑکھڑا گئی۔ لوئب اور کوبوٹسکی اسے پکڑنے کے لیے دوڑے لیکن وہ گری نہیں تھی۔ کوبوٹسکی فوراً اسٹول پر پیچھے ہٹ گیا، لوئب سنک پر چلا گیا تھا

بیسی کا چہرہ ٹوٹی ہوئی روٹی جیسا ہوگیا تھا،
”مجھے آپ کی بیوی کے بارے میں جان کر افسوس ہوا۔“ اس نے نرم لہجے میں مہمان سے کہا، ”لیکن مسٹر کوبوٹسکی! ہمارے پاس مدد کے لیے کچھ نہیں ہے۔ معذرت، ہم غریب ہیں، ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔“

”جھوٹ!“ لوئب غصے سے چلایا

بیسی نے شیلف پر چھلانگ لگائی اور بلوں کے ڈبے کو اٹھا کر میز پر اس طرح الٹ دیا کہ وہ ہر طرف اڑنے لگے

”یہ ہے ہمارے پاس!“ وہ چلائی

کوبوٹسکی کا سر کندھوں میں دھنس گیا

”بیسی، بینک میں۔۔۔۔“لوئب ممیایا

”نہیں!“وہ پھر چلائی

”میں نے پاس بک دیکھی تھی۔“ لوئب بولا

”تو کیا ہوا اگر آپ نے چند ڈالر بچائے ہیں؟” کیا آپ ہمیشہ صحت مند رہے گے؟ کیا آپ موت کے خلاف بیمہ شدہ ہیں؟“

لوئب نے کوئی جواب نہیں دیا

”بیمہ شدہ؟“ اس نے طنز کیا

کسی نے بیرونی دروازہ کھٹکھٹایا۔ پھر مسلسل دستک ہونے لگی۔ دکان پر روٹی لینے کے لیے گاہک آنے لگے تھے۔ بیسی تیز قدموں سے چلتی ہوئی باہر چلی گئی

صدمے سے دوچار دوستوں میں اضطراب پھیلا تھا۔ کوبوٹسکی نے اپنے اوور کوٹ کے بٹنوں کو استخوانی انگلیوں سے بند کرنا شروع کیا

”کوبوٹسکی بیٹھ جاؤ! مجھے افسوس ہے۔“ نانبائی نے آہ بھر کر اس سے کہا

کوبوٹسکی بیٹھ گیا۔ اس کا چہرہ اداسی سے سیاہ پڑ گیا تھا

جب بیسی نے گاہکوں کو نمٹا دیا تو لوئب باہر دکان پر چلا گیا۔ وہ رسان سے کچھ بولا، تقریباً سرگوشی میں، پہلے تو اس کی آواز سنائی ہی نہیں دی، لیکن ایک منٹ کے بعد وہ پوری طاقت سے ایک دوسرے کو کوسنے لگے

کوبوٹسکی اسٹول سے اتر گیا۔ وہ سنک کے پاس گیا، نل کھول کر رومال آدھا گیلا کیا اور اپنی خشک آنکھوں پر لگایا۔ پھر گیلے رومال کو لپیٹ کر اپنے اوور کوٹ کی جیب میں رکھتے ہوئے اس نے چاقو نکالا اور جلدی سے ناخن صاف کیا

جب وہ اسٹور پر باہر آیا تو لوئب، بیسی سے التجا کر رہا تھا، وہ اسے یاد دلا رہا تھا کہ اس نے کتنی محنت کی تھی اور اب اس کے کھاتے میں کچھ رقم ہونے کے باوجود کیا وہ اپنے پیارے دوست کی مدد نہیں کر سکتا۔۔؟

”براہِ کرم، ضد نہ کریں۔ میں جا رہا ہوں۔“ کوبوٹسکی نے کہا

لوئب نے مایوسی سے اسے دیکھا۔ بیسی نے بھی حرکت نہیں کی

”پیسہ۔۔“ کوبوٹسکی نے آہ بھری، ”لوئب! تم ڈورا کے بارے میں مکمل نہیں جانتے۔ اب وہ بیمار نہیں ہے۔ وہ مر چکی ہے۔“

”آہ۔۔۔!“ لوئب ہاتھ رگڑتے ہوئے کراہا

بیسی نے اپنا زرد چہرہ مہمان کی طرف گھمایا

کوبوٹسکی نے آہستہ سے کہا، ”پانچ سال ہو گئے ہیں۔“

لوئب پھر کراہا

”مجھے قبر پر کتبے کے لیے رقم کی ضرورت ہے۔ ڈورا کی قبر بے نام ہے۔ اگلی اتوار کو اسے مرے ہوئے پانچ سال ہو جائیں گے، میں ہر سال اس سے وعدہ کرتا ہوں۔۔ ’ڈورا، اس سال میں کتبہ لگوادوں گا‘ اور ہر بار نہیں لگا پاتا۔ میرے لیے یہ بڑی شرمندگی کی بات ہے کہ قبر ایسے کھڑی ہے، جیسے وہ ننگی ہو۔۔ میں نے بڑی مشکل سے کتبے کے لیے پچاس ڈالر جمع کر لیے تھے، لیکن باقی رقم جمع نہیں ہوئی۔ ایک کے بعد ایک آزمائش آتی رہی۔ پہلے سال ایک آپریشن، دوسرے سال گٹھیا کی وجہ سے زیادہ کام نہیں کر سکا، تیسرے سال بیوہ بہن نے اپنا اکلوتا بیٹا کھو دیا اور میری ساری کمائی وہاں چلی گئی۔ چوتھے سال میں پھوڑے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا تھا۔ یہ سچ ہے کہ اس سال کام ہے، لیکن گرانی کے باعث کھانے اور رہائش پر پوری رقم خرچ ہوجاتی ہے۔ بس ڈورا بغیر کتبے کے پڑی ہے۔ اگر کوئی قبرستان آئے تو اسے کبھی قبر نہیں ملے گی۔“

بیکر کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں۔ اس نے بیسی کی طرف دیکھا، اس کا سر بالکل جھکا ہوا تھا اور شانے ڈھے گئے تھے۔ آخر وہ پسیج گئی اب وہ منع نہیں کرے گی، پیسے دے دے گی۔ پھر ہم سب مل کر کھانے کے لیے میز پر بیٹھیں گے۔ لوئب نے سوچا۔
لیکن بیسی نے روتے ہوئے نفی میں سر ہلایا اور اپنی آزمائش کی کہانی سنانی شروع کر دی کہ انقلاب کے کتنے دن بعد جب وہ ابھی چھوٹی ہی تھی، اس کے پیار کرنے والے باپ کو میدان میں ننگے پاؤں کیسے گھسیٹا گیا اور گولیاں چلنے کے بعد درختوں سے کوے کیسے اڑے اور برف خون کے دھبوں سے سرخ ہو گئی۔ کیسے شادی کے ایک سال بعد اس کا شوہر، ایک مہربان، تعلیم یافتہ شریف آدمی، ایک محاسب (اکاؤنٹنٹ) جو ان دنوں بہت کم ہوتے تھے، سرخ بخار کے باعث وارسا میں مر گیا۔ وہ اپنے غم میں بالکل اکیلی تھی، آخر ایک بزرگ کے پاس پناہ ملی۔ جرمنی میں ایک بھائی نے اسے امریکہ بھیجنے کے لیے جنگ سے پہلے اپنا سب کچھ عطیہ کر دیا، اس نے خود اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ نازی گیس چیمبر میں اپنے دن پورے کیے۔۔۔ اور وہ کس طرح امریکہ آئی اور ایک غریب نانبائی سے ملی۔۔ ایک آوارہ، جس کے پاس کھانے کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں تھا، جس نے زندگی میں کوئی خوشی نہیں دیکھی تھی ”اور میں نے اس سے شادی کی، خدا جانے کیوں؟ اور دن رات محنت سے کام کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا اور اب بارہ سال کے بعد، ہم نے تھوڑا بہت کمانا شروع کیا ہے، لیکن لوئب بیمار ہے، اس کی آنکھوں کی سرجری ہونی ہے اور اگر خدا نہ کرے وہ مر جائے تو میں اکیلی کیا کروں گی؟ میں کہاں جاؤں گی، پیسے کے بغیر اپنی ضروریات کیسے پوری کروں گی؟“

کہانی کے اختتام پر، کوبوٹسکی نے کانوں کو اپنے ہاتھوں سے ڈھانپ لیا تھا۔
بیسی کے گالوں پر آنسو بہہ رہے تھے، لیکن اچانک اس نے سر ہلایا اور مشکوک انداز میں سونگھا۔ پھر ایک کرخت چیخ کے ساتھ وہ پچھلے کمرے میں بھاگی اور تندور کا دروازہ کھولا۔ دھوئیں کے بادل نے اس کے چہرے کو گھیر لیا۔ ٹرے پر کالی روٹیاں جلی ہوئی لاشوں کی طرح پڑی تھیں

کوبوٹسکی اور نانبائی لڑکپن کے دوست آہ بھرتے ہوئے گلے لگے۔ پھر دونوں اپنے اپنے ہونٹ دبائے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close