خاموشی کی صلیب پر لٹکی ہماری شناخت

تہمینہ ولی

اس آرٹ کو دیکھنے کے بعد شاید آپ کے ذہن میں بھی ہزاروں سوالات جنم لیں۔۔ اسی طرح ایک دن ہمیں ایک سیشن میں بلایا گیا تھا، جو ہمارے ہی لئے تھا اور اس سیشن میں ہمیں بہت ساری چیزوں کے بارے میں آگاہی دی گئی تھی۔ اس سیشن میں کافی سارے لوگ ایسے بھی تھے، کہ جنہوں نے نہ کبھی ان جگہوں کا وزٹ کیا تھا اور نہ کبھی سنا تھا۔۔ ان ہی میں سے ایک طرح سے ہم بھی تھے

اگرچہ سننے کی حد تک یہ جگہیں ہمارے لیے اجنبی نہ تھیں لیکن آئے دن انہی جگہوں سے گزرنے کے باوجود کبھی بھی ان جگہوں کو اس نظر سے نہیں دیکھا، نہ ان کے بارے میں اس طرح سے کبھی سوچا، جیسا کے یہاں کے مقامی باشندے ہونے کی حیثیت سے ہمیں سوچنا چاہیئے تھا

لیکن جب ھم نے وہ ساری کلپس دیکھیں، مقررین کو سنا تو ھم بھی سوچنے پر مجبور ہو گئے۔۔ مگر گھر جا کے ذہن میں وہی بات کہ ہم چند لوگ کیا کر سکتے ہیں ملیر کے لئے، کیسے اس کو ھم بچا سکتے ہیں، کیونکہ ہم حفیظ بلوچ کے ہمراہ جب بھی نکلتے ہیں، تو ہمارے سامنے اسی طرح کے سوال رکھے جاتے ہیں کے آپ کے جانے سے، آپ کی شرکت سے آپ کے بات کرنے سے کیا ہوگا۔۔ اتنی بڑی بڑی طاقتوں کے سامنے آپ کی چلے گی کیا؟ بلا بلا بلا

یہیں سے ہماری سوچ بھی ہمیں انہی چیزوں میں جکڑتی رہتی ہے کہ واقعی ھم چند لوگ کر بھی کیا سکتے ہیں۔۔ ایک ایسے معاشرے میں، جہاں تاریخی آثار کھنڈرات سے بڑھ کر کوئی اہمیت نہیں رکھتے، ایک ایسے ملک میں جہاں قانون کی حکمرانی کی بجائے لاقانونیت کا راج ہے۔۔ ایک ایسی ریاست جہاں ریئل اسٹیٹ ٹائیکونز زندہ انسانوں کے گھروں تک کو مسمار کرنے سے گریز نہ کرتے ہوں، وہاں بھلا مردہ انسانوں کی قبروں کی کیا اہمیت۔۔ پھر چاہے وہ قبریں تاریخی طور پر کتنی ہی اہم کیوں نہ ہوں۔۔ جی ہاں، ہم بات کر رہے ہیں چوکنڈی اور اس طرز کے قبرستانوں کی، جو ہمارے شاندار ماضی کی اکلوتی گواہی ہیں

سو ایسے معاشرے اور ایسی ریاست میں اپنی بے بسی و بے کَسی کا رونا بجا بھی ہے لیکن اپنے اندر کچوکے مارتے اس ضمیر نامراد کا کیا کیجیے کہ چپ بیٹھ کر چین ہی لینے نہیں دیتا۔۔ سو ہماری آواز صدا بصحرا سہی، خاموشی کے گناہ کا بوجھ ہمارے دل سے اٹھائے بھی نہ اٹھے گا۔۔ ہمارے بولنے سے کچھ ہو یا نہ ہو، کم از کم کل کو ہم اپنی آنے والی نسلوں کے سامنے شرمندہ تو نہیں ہونگے کہ ہم سب کچھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھ کر بھی چپ رہے اور کچھ نہ کر سکے اور کچھ کرنے کی کوشش تک نہ کی ۔ کل اپنی زمین کہ سامنے جوابدہ تو نہیں ہونگے کہ ھم اس کی تباہی کا تماشا دیکھنے والے خاموش تماشائیوں کی بِھیڑ میں شامل ایک گونگی بَھیڑ تھے بس۔۔ اور کل کو اس بات پر خود کی نظروں میں شرمندگی تو نہیں رہے گی، کہ ہم نے اپنی زمیں ’ماں‘ کے لئے کچھ نہیں بولا، کسی سے نہیں لڑے، کسی کا سامنا نہیں کیا۔۔

اس وزٹ سے چوکنڈی گریو یارڈ، جس کی قبل ازیں خود ہمارے نظر میں، جو اسی زمین پر رہ رہے تھے، کی کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن اب ہمیں پتہ چلا کہ اسی ایک زمین سے ہماری ایک تاریخ جڑی ہے، کیسے یہ ہماری تاریخ اور کلچر کا عظیم حصہ ہے۔۔

جب اس عظیم آرٹ کو ھم نے دیکھا اس پر غور و فکر کیا، وہیں کھڑے کھڑے ھم ان قبروں پر کندہ آرٹ کا مشاہدہ کرنے لگے۔ جو لباس ھم نے پہنے ہوئے تھا، اسے ان سے میچ کیا۔ جو چنک، جو تناب، جو شیرگ، جو embroidery ھمارے لباس پہ بنی ہوئی تھی، ان کو کئی ھزار سال پیشتر یہیں سے عورت کی پہچان کے لئے انٹروڈیوس کیا گیا تھا اور وہی چیزیں آج بلوچ عورتوں کے لباس اور زیورات کی زینت بن گئیں اور سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ تھی کہ تمام افراد انھی قبروں پہ جو نام لکھے تھے، ان کو پڑھنے میں مشغول تھے کیوں کہ ان کے کانوں میں ایک ہی بات گھوم رہی تھی کہ یہ ھماری ہی متاع ہیں اور ان میں ھمارے ہی آباء و اجداد دفن ہیں، تو سب کے چہروں پہ ایک عجیب جوش جھوم رہا تھانل۔ ھر کوئی تصویروں میں ان لمحات کو قید کرنے میں لگا تھا اور کوئی ان کی کھوج تک جانے کے لئے ان کو قید کر رہا تھا، کوئی اس آرٹ کی دلکشی میں کھویا ہوا تھا۔۔ بہت خوبصورت ایک سفر تھا یہ!

لیکن ان سب دلچسپیوں ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ ھر کسی کے چہرے پہ ایک غم ایک مایوسی بھی نظر آرہی تھی کہ اتنا قیمتی اثاثہ پاس ہو کے بھی اس کی کوئی اہمیت کیوں ھر کسی کی نظر میں نہیں ہے، کیوں ھر چیز جاننے کی بعد بھی صرف چند ہی لوگ ان کے بارے میں سوچتے ہیں اور ان کو بچانے کے لیے کوشاں ہیں، حالانکہ یہ ھر ایک فرد کے لیے اتنے ہی قیمتی ہیں، اتنے ہی اہمیت کے حامل ہیں، لیکن لگتا ہے اتنی تباہی نے ابھی تک ملیر کے باشندوں کو نہیں جگایا ابھی تک وہ اور نیند میں رہ کر بڑی تباہی کا انتظار کر رہے ہیں۔۔ ابھی وہ ہر بیوی کو اکرم جوکھیو کی بیوی ہوتا دیکھنا چاہتے ہے، جن کا دل اپنی زمین کے کھونے کا دھڑکا سہہ نہ سکا اور دھڑکنا بھول گیا۔۔ مظلوم دلترک ہو کر مرنا چاہتے ہیں۔ ابھی یہ ملیر ایکسپریس وے، بحریہ ٹاؤن، ڈی۔ایچ۔اے کی لائی گئی تباہی تو آغازِ داستاں ہے۔۔ ابھی تھدو ڈیم، کھیرتھر، پاچران، چوکنڈی کی مزید تباہی کے ابواب رقم ہونا باقی ہیں۔۔ کیا ہم اپنے ہوش میں آنے کے لیے اسی مزید تباہی کے منتظر ہیں۔۔ بہت ممکن ہے کہ ان کی تباہی کے بعد ہی شاید ہمیں ہوش آ جائے، کیونکہ اس کے بعد ہمارے پاس کچھ نہیں بچے گا، حتیٰ کہ ہماری شناخت بھی نہیں۔۔۔

اگر ہمیں اپنی اس شناخت کی حفاظت کرنی ہے، تو ہمیں لڑنا ہوگا، اس تباہی کو روکنے کی کوشش میں لگے رہنا پڑے گا اور اس کے لیے بات کرنی ہوگی۔ کیونکہ اب ہماری شناخت ہماری خاموشی کی صلیب پر لٹکی ہوئی ہے۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
Close
Close